دو قومی نظریہ ، تحریک پاکستان اور چوہدری رحمت علی ؒ

چوہدری رحمت علی نے 1945ء میں کہا تھا: ہندو توا کے جس نظریے کو برہمن اور برطانوی سامراج مل کر پروان چڑھا رہے ہیں اس کافائدہ اٹھانے والی آخر میں وہ عالمی قوتیں ہوں گی جو اس پورے خطے کی غیر ہندو اقوام کے گلے میں اپنے پنجے گاڑے رکھنا چاہتی ہیں “

بانی تحریک پاکستان ، خالق اسم پاکستان اور بانی دو قومی نظریہ

(16نومبر : چوہدری رحمت علی ؒ کے یوم پیدائش پر خصوصی تحریر)

یہ1947ء کے اوائل کے دن تھے ۔ تقسیم ہند کا مسودہ تیار ہوچکاتھا اور دنیا کے نقشے پر پاکستان اور بھارت کے خدوخال دو الگ الگ مملکتوں کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آچکے تھے ،صرف اعلان باقی تھا ۔ گاندھی ، نہرو ، مولانا آزاد اور دوسرے کانگریسی لیڈرز بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر سٹیٹ باور کرانے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔جبکہ پس دیوار بھارت کو ایک کٹر ہندو سٹیٹ بنانے کی تیاریاں کس طرح ہو رہی تھیں اس کا اندازہ Hindustan on the Cross Roadsکے نام سے شائع ہونے والی کتاب بخوبی لگایا جا سکتا تھا جو انہی دنوں میں انتہا پسند ہندو طبقے میں تیزی سے مقبول ہورہی تھی ۔ کتاب کے مصنف تھے پروفیسر بلراج مدھوک اور اس کا بیانیہ کتاب کے ان الفاظ سے واضح تھا :
’’ ہندو مسلم مسئلے کا حل فقط یہ ہے کہ یہاں کی ساری آبادی کو ’’ ہندوایا‘‘ جائے ۔ مراد یہ ہے کہ یہاں کے سارے باشندے اس طرح ہندوستانی بنیں کہ نام بھی غیر ہندوستانی نہ رکھیں ،لباس بھی غیر ہندوستانی نہ اختیار کریں ۔ انہیں چاہیے کہ اپنے ہیرو بھی ہندوستانی بہادروں کو مانیں ۔ اگر ایسا ہوتو ہندو مسلم مسئلہ ختم ہوجاتا ہے۔ پھر مسلمان یہاں امن اور چین سے رہ سکتے ہیں ‘‘۔

پروفیسر بلراج مدھوک کا شمارآرایس ایس کے سرگرم لوگوں میںہوتا تھا ۔وہ بعد میں بھارتیہ جن سنگھ پارٹی کے صدر بھی رہے اور اسی پارٹی سے بعد میں بی جے پی نے جنم لیا ۔ اسی پروفسیر بلراج مدھوک کا بعد میں (1990ء یا 1991ء ) میں ہندوستان سے ایک مضمون شائع ہوا جسے ’’ نوائے وقت ‘ ‘ نے بھی شائع کیا ۔لکھا :’’ حال یہ ہے کہ نہ یونانی رہے ، نہ ہن رہے ،نہ بدھ رہے اور نہ مسلمانوں کو مسلمانوں کی طرح رہنے کا حق دیا جارہا تھا ۔ ان سے تو صرف یہ کہا جارہاتھا کہ کہلائیں فقط ہندو ، نام بھی عربی نہ رکھیں یعنی محمد ، احمد ، حسین ، علی ، خالد ، طارق ، محمود ، عالمگیر ، بشیر ، نذیر وغیرہ ۔ اور (اس کی بجائے ) دیال ، آنند ، کنہیا، رام ، کرشن ، ارجن جیسے نام رکھیں اور اپنے ہیرو ارجن ، بھیم ،بکرماجیت اور شیوا جی کو تسلیم کریں ، پھر کوئی غم نہیں ، مسلمان امن سے رہ سکتے ہیں ۔‘‘
پروفیسر بلراج مدھوک کی تصنیف کا ہندو توا کے نظریے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے ایک ایسے وقت میں سامنے آنا جب برصغیرکی تمام اقوام کی قسمت کا فیصلہ ہونے جارہا تھا ، ان اقوام کے لیے اس غوروفکر کی کھلی دعوت تھی کہ وہ ہندوستان کی تاریخ میں گریگوسیرین ، گریگوبیکٹرین ، پارتھین ، ہن ، بدھ اقوام کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہوئے بحیثیت قوم اپنی بقاء کا جائزہ لیں ۔لیکن اس کے بالکل برعکس مولانا آزادجیسے اعلیٰ پائے کے کئی مسلمان ، سکھ اور دیگر اقلیتی راہنماؤں نے انڈین ازم متھ کے نئے جھانسوں (وحدت ،متحدہ قومیت ، سیکولرازم وغیرہ ) میں آکر اس متھ کا آسان شکار بننا قبول کر لیا ۔ جبکہ اسی دھرتی پر ایک دوراندیش ، صاحب عزم و تدبیر، مستقبل شناس مرد حق ایسا بھی تھا جو سیکولر ازم کے لبادے میں پروان چڑھتی ہوئی’’ ہندوتوا سٹیٹ ‘‘کے خطرے سے بہت پہلے سے اقوام برصغیر کو آگاہ کر رہا تھا ۔1947ء کے اوائل میں جب پروفیسر مدھوک کی کتاب ’’سیکولر بھارت ‘‘ کی کلی کھول رہی تھی اس سے کم و بیش دو سال قبل ہی بانی تحریک پاکستان چوہدری رحمت علی ؒ نے ہندوتوا کا نظریہ اقوام برصغیرکے سامنے اپنے ان تاریخی الفاظ سے بے نقاب کر دیا تھا :
’’ اے اقوامِ برصغیر ! اس بات پر غور کرنے کا وقت آپہنچا ہے کہ ہم جو غیر ہندو اقوام ہیں، یعنی جو مسلمان ، عیسائی ، سکھ ، بدھ ، پارسی یا دلت ہیں ، ہمیشہ کی طرح اب بھی ’’ متھ آف انڈین ازم ‘‘ کا آسان شکار ہیں ۔ یعنی وہ متھ جو یہ سکھاتی ہے کہ’’ انڈیا صرف ہندو جاتی کا علاقہ ہے اور یہاں صرف ہندو جاتی کا نظریہ (ہندوازم)ہی پنپ سکتا ہے اور یہ کہ اس نظریہ کو ہندو جاتی نے پروان چڑھایا ، برطانیہ نے اس کی پشتہ بندی کی اور ہماری اپنی غلطیوں کی بناء پر دنیا نے بھی اس پر یقین کرلیا ۔۔یہ نہایت ہی بھونڈا کردار ہے جو یہ(متھ) اس وقت سب سے اول اپنے ماننے والے ہندو جاتی کے افراد اور پھر سب سے آخر میں فائدہ اٹھانے والے ، یعنی برٹش امپیریالسٹ کے لیے ادا کررہی ہے ، جو اپنے دوسرے اختلافات کے باوجود ، اسے دوبارہ مقدس بنانے اور اس کے مہلک عقیدے کی تبلیغ کے لیے ایک دوسرے کی مدد کررہے ہیں ، تاکہ برصغیرکے اندر ہم سب کے گلے میں جو اس نے پنجے گاڑ رکھے ہیں ، انہیں قائم رکھے ۔ (چودھری رحمت علی۔15مئی1945ء)

بانی تحریک پاکستان کے ان الفاظ پر باربار غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیا آج آپ کا ایک ایک لفظ حرف بہ حرف سچ ثابت نہیں ہورہا ہے ؟کیا آج بھارت پر مسلط ہندو توا کا ناسور سرعام یہ دعویٰ نہیں کر رہا ہے کہ :’’ انڈیا صرف ہندو جاتی کا علاقہ ہے اور یہاں صرف ہندو جاتی کا نظریہ ہی پنپ سکتاہے ‘‘ ؟کیا آج انتہا پسند ہندو توا کے خونی پنجے بھارت کی اقلیتوں کے گلے میں نہیں گڑھ چکے؟اور کیا اسی ہندو توا کی انتہا پسند حکومت کو ذریعہ بنا کر مغربی قوتیں ( جو برٹش ایمپیریلسٹ کی جدید شکل ہیں ) اس پورے خطے کے امن کو یرغمال نہیں بنا چکیں ؟

حقیقت میں لیڈر وہی ہوتاہے جو کم از کم سوسال آگے دیکھ سکتاہے اور آئندہ صدیوں میں آنے والے خطرات سے اپنی ملت اور اپنی قوم کو پہلے ہی آگاہ کر دیتا ہے۔ ہندو توا کے جس غاصب نظریے کو ہندو انتہا پسند طبقہ اور برطانوی سامراج مل کر 1857ء کے بعد سے پروان چڑھا رہے تھے اس کا لازمی نتیجہ اور ہدف بالآخر ایک ایسا ہندوستان تھا جس میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہ تھی اور نہ ہندو توا کے نظریے کے علاوہ کسی دوسرے نظریے کو برداشت کیا جاناتھا ۔ اسی خطرے کا ادراک تھا جس نے دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان کے بانی قائد ملت چوہدری رحمت علی ؒکو 1915ء میں ہی بزم شبلی میں مسلمانان برصغیر کے لیے الگ وطن کا نظریہ پیش کرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ جبکہ اس وقت تک برصغیر کے بڑے بڑے لیڈرز متحدہ ہندوستان کی ہی بات کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ 1930ء سے 1933ء کی گول میز کانفرنسز میں بھی قائداعظم ، علاقہ اقبال سمیت برصغیر کے تمام بڑے لیڈرز متحدہ ہندوستان کے لیے ہی بحث کر رہے تھے ۔ جبکہ ہندو توا کی نظر بھی ایک ایسے ہی ’’ اکھنڈ بھارت ‘‘ پر تھی جس میں باقی تمام اقوام اور نظریات کی بقاء ہندوتوا کے رحم و کرم پر ہوتی ۔ اس لیے واضح طور پر یہی وہ وقت تھا جب اقوام برصغیر کے سامنے صرف دو راستے تھے کہ یا تو وہ اس متھ کا مقابلہ کرکے اپنی تاریخ ، تہذیب اور شناخت کے ساتھ زندہ رہ لیں یا پھر سب کچھ اس متھ کی بھینٹ چڑھا کر اکھنڈ بھارت کی بنیادوں میں دفن ہو جائیں کہ جس طرح ان سے پہلی قوموں نے اپنا نشان کھو دیا ۔ چنانچہ تاریخ کی یہی وہ اہم ترین پکار تھی جس پر لبیک کہتے ہوئے چودھری رحمت علی ؒ نے گول میز کانفرنس کے دوران ہی Now or Neverکی صدائے حق بلند کی :
"At this solemn hour in the history of India, when British and Indian delegates are laying the foundations of a Federal Constitution for that Sub-continent, we address this appeal to you, in the name of our common heritage, and on behalf of our thirty million Muslim brethren who live in Pakistan."
اور فیڈریشن کو تسلیم کرنے کے حوالے سے تاریخ کی یہ وارننگ ببانگ دہل سنائی :
This acceptance amounts to nothing less then signing the death-warrant of Islam and of Muslims in India."

آج جب ہندوتوا کا ناسور بھارت اور جموں و کشمیر کے تمام مسلمانوں کی نسل کشی پر اُترآیا ہے تو ہمیں بانی تحریک پاکستان کے درجہ بالا الفاظ واضح طور پر سمجھ میں آرہے ہیں کہ متحدہ ہندوستان کے نظریے کو قبول کرنا اسلام اور مسلمانوں کے’’ ڈیٹھ وارنٹ ‘‘کے مترادف کس طرح ہو سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے اس وقت چوہدری رحمت علیؒ کے پیش کردہ اس دوقومی نظریہ اور پاکستان نیشنل موومنٹ کے نام سے شروع کی گئی تحریک پاکستان کو برصغیرکے بڑوں نے ’’بچوں کی باتیں ‘‘ قراردیا ۔ لیکن بالآخر 1937ء کے انتخابات تک مسلم لیگ کو بھی اس بات کا اندازہ بخوبی ہوگیا تھاکہ ہمارا مقابلہ ہندوستان میں ایک ایسی قوت کے ساتھ ہے جو کسی دوسری قوت کو برداشت کا کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتی ۔ البتہ مولانا آزاد سمیت اکثر اقلیتی راہنما ایسے بھی تھے جو ابھی تک ’’ انڈین ازم ‘‘ کے سیکولر لبادے میں چھپے اصل بھارت کو پہچان نہیں پائے تھے ۔ بے خبری اور غفلت کبھی بھی اچھا انجام نہیں لاتی ۔سیکولرازم کا بھرم رکھنے کے لیے مولانا آزاد سمیت بعض اقلیتی راہنماؤں کو بھارت میں اگرچہ کچھ بڑے عہدے دے دیے گئے لیکن پس دیوار’’ ہندو توا‘‘ کے نظریے نے خاص طور پر مسلم اقلیتی علاقوں میں قتل وغارت گری ، لوٹ مار، عصمت دری ، جلاؤ گھیراؤ،خون ریزی اور انسانیت سوز مظالم کی وہ داستانیں رقم کیں کہ برہمن سامراج کی سابقہ پوری تاریخ شرمندہ ہوکر رہ گئی ۔ جبکہ ان حالات میں اقلیتی اعلیٰ عہدیداروں کی حیثیت محض ایک دکھاوا یا ڈھونگ سے زیادہ ثابت نہ ہوئی۔ حتیٰ کہ بقول پروفیسر ہیری اینڈرسن‘ مولاناابوالکلام آزاد (جو اس وقت نہرو کابینہ میں وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز تھے )نے نہرو سے حیدر آبادمیں40ہزار مسلمانوں کے قتل عام کی تحقیقات کی سفارش کی لیکن اس کے باوجود تحقیقاتی رپورٹ کبھی سامنے نہ آسکی ۔ اسی طرح سکھوں ، عیسائیوں ، بدھ ، پارسی اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ بھی جوکچھ ہوا وہ بھی دنیا نے دیکھا ۔ 1948ء میں چودھری رحمت علی ؒنے UNO کے سیکرٹری جنرل کو ایک خط میں ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم سے آگاہ کرتے ہوئے لکھاتھا کہ آج یہ ظلم مسلمانوں پر ہورہا ہے لیکن کل کو اسی طرح سکھوں کو ختم کیا جائے گا ۔ پھر دنیانے سکھوں کا قتل عام بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان تمام حالات میں سکھوں ، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے اعلیٰ عہدے ان کے کسی کام نہ آسکے ۔ جبکہ دوقومی نظریہ کے بانی نے 1942ء میں ہی برصغیر کی تمام اقلیتوں کو یہ باور کر ادیا تھا کہ :
’’اس لیے یہ کمانڈمنٹ (Commandment)کہ ’’مائنورٹی ازم ‘‘سے بچئے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی اقلیت کو ہندو علاقوں میں نہیں چھوڑنا چاہیے ، بے شک برٹش اور ہندو انہیں نام نہاد دستوری تحفظات ہی کیوں نہ دیں ۔ کیونکہ کسی قسم کے تحفظات بھی قومیت کانعم البدل نہیں ہوسکتے جو کہ ان کا پیدائشی حق ہے ۔۔۔اس کا مطلب ان کو پشت در پشت ڈی نیشنلائز کرنے والی ’’ انڈین ازم ‘‘ کی (ہندو) طاقتوں کے دوبدو رکھناہے ، جس کا مقصد ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ وہ ہم سب کو اپنے اندر جذب کر لے ۔ ۔۔ ( اس کا مطلب ) اُس سانحہ کے نتائج کو بھلا دینا ہے جس سے ہماری اقلیتوں کو گزرنا پڑا ، جنہیں ایسے وقت میں جو ہمارے (مسلمانوں کے ) لیے آج سے زیادہ بہتر تھا اور جو گارنٹی اب ممکن ہے اس سے بہتر گارنٹی(بھی) ۔۔۔ ہم نے سسلی ، اٹلی ، فرانس ، پرتگال ، سپین، آسٹریلیا اور ہنگری میں چھوڑا ۔۔ وہ (مسلم)اقلیتیں اب کہاں ہیں ؟ ۔۔ اس سوال کے پوچھنے پر جواب نہایت چبھتے ہوئے لہجے میں ہی مل سکتا ہے ۔ ۔۔ ان حالات کی بناء پر ہمیں درج بالا صداقت کا ضرور خیال رکھنا چاہیے اور ’’ مائنورٹی ازم ‘‘ سے بچنا چاہیے ۔ چونکہ یہ تاریخ کا افضل ترین سبق ہے اور اس کو بھلا دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اس راز کو بھلا دیا ہے جس میں ہماری نجات ہے ، ہمارا ڈیفنس ہے اور ملت کی حیثیت میں ہماری تقدیر پوشیدہ ہے‘‘۔ (The Millat of Islam and the Menance of Indianism, 1942)

آج ہم چوہدری رحمت علیؒ کا یوم پیدائش ان حالات میں منا رہے ہیں کہ ایک طرف بھارت قانون شہریت میں ترمیم کرکے اور جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے پورے بھارت اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا بیٹھا ہے اور دوسری طرف اسی ہندو توا کے منہ زور گھوڑے پر سوار ہو کر عالمی قوتیں اس پورے خطے کے امن و سکون کو یرغمال بنانا چاہتی ہیں ۔ تو یاد کیجئے چوہدری رحمت علی کے وہ الفاظ جو انہوں نے 1945ء میں اپنی ایک اشاعت میں کہے تھے اور جن کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ ہندو توا کے جس نظریے کو برہمن اور برطانوی سامراج مل کر پروان چڑھا رہے ہیں اس کافائدہ اٹھانے والی آخر میں وہ عالمی قوتیں ہوں گی جو اس پورے خطے کی غیر ہندو اقوام کے گلے میں اپنے پنجے گاڑے رکھنا چاہتی ہیں ۔ آج صورتحال واضح ہے ۔ اس قدر دواندیشی اور اس قدر ادراک اللہ کے خالص اور مخلص بندوں کو ہی حاصل ہو سکتاہے لیکن افسوس !ملت کے اس عظیم محسن کو انگریز کی وفادار اشرافیہ نے اپنے ہی ملک میں برداشت نہ کیا ۔یہاں تک کہ ان کے جسد خاکی کی واپسی کے راستے میں بھی وہی اشرافیہ رکاوٹ ہے ۔ شاید ان کا جرم دوقومی نظریہ کا بانی ہونا ہے اور بانی ٔ تحریک پاکستان ہونا ہے جس کی وجہ سے آج آزاد مملکت کے حامل 22کروڑ مسلمان ہندو توا اور اس کے پشتی بانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں جبکہ عالمی سامراجی قوتیں اپنے مخصوص عزائم کی تکمیل کے لیے ان سب کے گلے میں اپنے پنجے ہندو توا کے ذریعے گاڑھے رکھنا چاہتی تھیں جس طرح وہ بھارتی اقلیتوں کے گلے میں گاڑھ چکی ہیں ۔

انگریز کی پالتو مافیا اور اشرافیہ تو اور بھی بہت کچھ کر رہی ہے لیکن ملت کے وہ افراد جن کو وطن اور آزادی کی قدروقیمت معلوم ہے جو انہیں بھارتی اقلیتوںکے جیسے انجام سے محفوظ کرتی ہے انہیں چاہیے کہ وہ نہ صرف بانی تحریک پاکستان چوہدری رحمت علیؒ کے جسد خاکی کی واپیس کے لیے تحریک چلائیں بلکہ ہر سال 16نومبر کو محسن ملت کا یوم پیدائش اسی شان و شوکت سے منائیں جس کا یہ دن حقدار ہے ۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ 16نومبر کو بانی تحریک پاکستان کے احترام میں تعطیل کا اعلان کرے ۔
 

Rafique Chaudhary
About the Author: Rafique Chaudhary Read More Articles by Rafique Chaudhary: 38 Articles with 52278 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.