فردقائم ربط ملت سے ہے تنہاکچھ نہیں
موج ہے دریامیں اوربیرون دریاکچھ نہیں
اسلامی جمہوریہ پاکستان صرف دنیا کے نقشہ پریہ ملک نہیں بنا بلکہ بلکہ اس
کی نسبتیں مدینہ سے ملتی ہیں پاکستان ہمیں اﷲ کا خاص تحفہ نبی کریم محمدﷺکی
نظرکرم ،اولیااﷲ،ولی اﷲ اورڈاکٹرعلامہ محمداقبال کی کرامت ہے مگرمجھے افسوس
کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگرہم علامہ محمداقبال کے نظریات کی روشنی میں
پالیسی بناتے توآج پاکستان تمام اسلامی ممالک کی امامت کرتا ۔شاعرمشرق،حکیم
الامت مفکرپاکستان ڈاکٹرعلامہ محمداقبال 9نومبر1877کوپاکستان کی دھرتی
اورپنجاب کے شہرسیالکوٹ میں پیداہوئے آپ کے والد نے آپ کانام محمداقبال
رکھا آپ نے مذہبی علوم، عربی،فارسی اورانگلش تعلیم مشن ہائی سکول اورمرے
کالج سیالکوٹ سے حاصل کی اس کے بعدآپ نے اورینٹل کالج لاہور سے پہلی مرتبہ
جدیدفکر کامطالعہ کیااور1899میں یہیں سے ایم اے فلسفہ اورعربی منظوم شاعری
پڑھانا شروع کی ان کی شاعری فارسی ،عربی اوراردوطرز کی ہے1905میں آپ نے
وکالت کی خاطرہندوستان چھوڑامگرفلسفہ نے آپ کی سوچ پرغلبہ طاری کردیا
تھا۔ٹرینٹی کالج میں ہیکل اورکانٹ کا مطالعہ کرنے کے بعدوہ یورپی رجحانات
سے واقف ہوگئے فلسفہ کی دلچسپی نے آپکولبرگ اورمیونخ پہنچایاوہیں پرآپ نے
ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔آپ میٹرک کے سٹوڈنٹ تھے کہ آپکی کریم بی بی سے
شادی ہوگئی اتنی چھوٹی عمرمیں شادی نے آپ کے خوابوں کونہ روک سکی کیونکہ آپ
اﷲ کے چنے لوگوں میں شامل تھے آپ نے مسلمانوں کوآزادی دلوانی تھی اسی وجہ
سے آپ کے راستے کی رکاوٹیں خود ہی ہٹتی گئیں ۔جنوری 1901میں اسلامیہ کالج
لاہور میں استاد مقررہوئے اورایک سال بعد13اکتوبر1902میں گورنمنٹ کالج
لاہور میں انگریزی کے استاد مقرر ہوئے ۔چاہے جوبھی ہوایک بات سوچ سوچ کے
ہرانسان رشک کرتا ہے کہ آپ کی مفکرانہ سوچ اوردرداندیشی جیسی خصوصیات نے
عارفانہ مقام بخشا آپ کی دانشورانہ فکرنے ڈاکٹرعلامہ اقبال کی شاعری کواس
طرح نکھارا جس کی مثال نہیں ملتی زبورعجم،ارمغان حجاز،شکوہ،جواب شکوہ
اوربال جبرائیل جیسے شاہکارلکھ کرعلوم سے محبت کرنے والوں کیلئے تحفے چھوڑ
گئے ۔آپ کا مجموعہ بال جبرائیل کا پہلا مجبموعہ 1935کے پہلے مہینے میں
لاہورمیں شائع ہواعلامہ محمداقبال سے ایک دوست نے پوچھا کہ علامہ کا خطاب
توآپکوملا مگرحکیم الامت کیسے بنے توآپ نے کہا حکیم الا مت آپ بھی بن سکتے
ہیں توانہوں نے پوچھا وہ کیسے توآپ نے کہا میں نے گن کے ایک کروڑ مرتبہ
دورود پاک پڑھا ہے آپ بھی یہ نسخہ ازمائیں آپ بھی حکیم الامت بن جائیں گے
آج کے دور میں جولوگ علامہ اقبالؒ کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں
انکویہ بات یادرکھنی چاہیے کہ انہوں نے اﷲ اوراس کے رسول ﷺ کوراضی کرنے
کیلئے کتنی باردورودپڑھاہوگاعلامہ اقبالؒ کے لب پرہروقت دورود شریف کا
ذکررہتا تھاڈاکٹرعلامہ محمداقبال کو27اپریل 1937کوانجمن حمایت اسلام
لاہورکاصدرمقررکیاگیا۔علامہ محمداقبال فلسفہ اورمنطق کے ماہر تھے آپ نے
اپنے ایک خطاب میں مخاطب فرمایا اے منطق وکلام کے متوالوقرآن پاک جسے آپ ﷺ
پراتاراگیاہے اسے پڑھوشایدتمہاراکام بن جائے کیونکہ میں خودقرآن وحدیث کو
غوروفکرسے پڑھتاہوں۔ مفکرپاکستان علامہ محمداقبال چاہتے تھے کہ پاکستان ایک
باوقارقوم کے طورپراپناکرداراداکرے۔انہوں نے عمربھرنوجوانوں کو علم،بہادری
اورتقویٰ کی تعلیم دی ڈاکٹرعلامہ اقبال نے گزشتہ صدی میں جوخواب دیکھا
پاکستان اسی کی تعبیروتکمیل ہے اسی وجہ سے کلام اقبال دنیا کے ہرکونے میں
پڑھاجاتا ہے ۔1930میں آپ نے مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن بنانے کا تصورپیش
کیا کیونکہ مسلمان اورہندوایک ساتھ ایک ہی ملک میں رہ کراپنی عبادات نہیں
کرسکتے کیونکہ انکی عبادات رہن سہن کھاناپینا یہاں تک کہہ پہننا بھی
مسلمانوں سے نہیں ملتا اگرہم نظریہ پاکستان کو دیکھیں توعلامہ اقبال کی
فکرکے تانے بھی اس حوالے سے دوقومی نظریے سے جاملتے ہیں وہ بھی ایسے وطن کے
متلاشی تھے جہاں مسلمانوں کوثقافت عبادت رہن سہن میں پریشانی نہ اٹھانی پڑے
اورآزادہوکراپنے خالق حقیقی کی عبادت کرسکیں جہاں سیاسی،سماجی،معاشی
اورمعاشرتی آزادی کے ساتھ آزادانہ حق دہی کا حاصل ہو علامہ محمداقبال ایسا
معاشرہ چاہتے تھے جو قرآن سنت کی روشنی میں بناہوجہاں کاموجودہ قوانین
انصاف،فکروانداز،طرزعمل،جذبات،احساسات، مساوات ،اخوت ویکجہتی کے نمونے مثل
راہ بنے رہیں 1910میں علامہ محمداقبال نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں امت
مسلمہ کے اشتراک کے نظریے پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا’’مسلمان اوردنیاکی
دیگرمیں اصولی فرق یہ ہے کہ قومیت کا اشتراک اغراض ومقاصدنہیں بلکہ ہم مدنی
محمدﷺ کی برادری میں سے ہیں ۔علامہ اقبال جمہوریت طرز کا وطن چاہتے تھے
مگرآج ہمارے ملک میں چہرے بدل رہے ہیں نظام نہیں بدل رہا مجھے ایک دوست نے
کہا کہ بھئی حدیث مبارکہ ہے ‘‘جیسے لوگ ہوں گے حکمران بھی ویسے ہی مسلط کیے
جائیں گے ‘‘ میں تب سے سوچ میں ہوں کہ اﷲ پاک ہمارے گناہوں کی سزاشاید اسی
دنیا میں ہی دینا چاہتا ہے اسی وجہ سے ایسے لوگوں کو ہم پرباربارمسلط کررہا
ہے ۔ڈاکٹرعلامہ محمداقبال عاشقان رسول ﷺ کے ساتھ بھی محبت کے ساتھ پیش آتے
آپ ﷺ کا ذکرہوتا تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے علامہ محمداقبال نے الگ وطن
کاخواب تودیکھ لیا مگراﷲ کی ذات کو کچھ اورہی منظورتھا اسی وجہ سے آپ
21اپریل 1938کوپاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اپنے خالق حقیقی سے
جاملے مگرتاقیامت ہم مفکرپاکستان،عظیم شاعر،حکیم الامت کی احسان مندرہے گی
اپ کی شاعری مشعل راہ بنی جس وجہ سے آج ہم ایک زندہ قوم ہیں اورآپ کی سوچ
کے مطابق آزاد ہوکراپنے خالق حقیقی کی عبادت کررہے ہیں۔
|