پہلا پاکستانی۔۔۔ چوہدری رحمت علیؒ

قائد اعظم محمد علی جناح کےیہ تاریخی الفاظ کہ جس دن ہندوستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا، اسی دن پاکستان کی بنیاد پڑ گئی تھی۔ یہی فکر دو قومی نظریے کی بنیاد بنی۔ اسلام ایک طرز زندگی کے طور پر مبعوث ہوا ہے، جو دنیا میں انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر خالق کائنات کی بندگی میں دینے کا علمبردار ہے۔ اس لیے اسلام جہاں جاتا ہے وہاں ایک الگ ریاست کا متقاضی ہوتا ہے, جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جونہی مدینہ تشریف لائے آپ نے پہلے سے رائج رسم ورواج کو کلعدم قرار دے کر ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی۔

چوہدری رحمت علی نے 1933 میں جب مسلم رہنماء تاج برطانیہ کے ماتحت مسلم اکثریتی علاقوں کا انتظام مانگ رہے تھے، اپنے معرکتہ آراء اعلامیے "اب یا کبھی نہیں" (Now or Never) میں مسلمانان برصغیر کے لیے الگ ملک کا تصور پیش کرتے ہوئے فوری طور پربرصغیر کو تاج برطانیہ کے تحت مختلف اکائیوں کو اختیارات دینے کے بجائے الگ ملک کا تصور، جغرافیہ، فکری اور سماجی بنیادیں اور نام "پاکستان" تجویز کرتے ہوئے عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر ہندو ذرائع ابلاغ نے اسے بہت اچھالا اور علامہ اقبال ؒ کو تحریری طور پر یہ کہنا پڑا کہ پاکستان سکیم کیمرج یونیورسٹی کے ایک طالب علم چوھدری رحمت علی کی فکر ہے اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

مسلم لیگ 1940 میں اس نتیجے پر پہنچی کہ برطانوی فیڈریشن میں محدود اختیارات کے حصول کے بجائے الگ ملک حاصل کرنا چاہیے۔ قرارداد لاہور جو بعد ازاں قرارداد پاکستان کہلائی میں بھی لفظ پاکستان کا ذکر نہیں۔ ہندو ذرائع ابلاغ نے قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان کے طور پر لیا اور بتدریج یہ قرارداد پاکستان سے موسوم ہو ہی گئی۔ اسی اعتبار سے ہمارے جید مورخین نے چوہدری رحمت علی کو پہلا پاکستانی قرار دیا تھا۔

پاکستان اللہ تعالیٰ کی اس روئے زمین پر بڑی نعمت ہے۔ اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے اس کا عالمی کردار روز بروز اہمیت اختیار کررہا ہے۔ یہ محض ایک جغرافیائی اکائی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ایک نظریاتی ریاست ہے۔ جس کی فکری بنیادی چوہدری رحمت علی، قائد اعظم محمد علی جناح، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال اور دیگر قائدین ملت اسلامیہ نے فراہم کیں۔ مخصوص فکری اور جغرافیائی بنیادوں پر قائم ریاست کو ایٹمی قوت بناکر قوم کے بیٹوں نے اپنے قائدین کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ آج ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان اپنی قسمت پرماتم کناں ہیں اور ان بزرگوں سے شاکی ہیں جو قیام پاکستان کے مخالف تھے اور ان کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے آج بیس کروڑ سے زائد ہندوستانی مسلمان درجہ دوم کے شہری ہیں جنہیں ہر لمحے اپنی جان ومال، عزت و آبرو کے لالے پڑے رہتے ہیں۔
بنگالستان (بنگلہ دیش) کے بعد ہندوستان میں دیگر مسلمان ریاستوں کا قیام بھی چوہدری رحمت علی کی فکر ہے، آج نہیں تو کل ہندوستان نے مزید تقسیم ہونا ہے اور کئی نئی مسلم ریاستوں کا قیام ناگزیر ہے۔چوہدری رحمت علی، علامہ اقبال اور قائد اعظم کے ویثرن کوتاریخ نے درست ہی نہیں بلکہ مسلمانان برصغیر کے لیے ناگزیر ثابت کیا ہے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان قائد اعظم کے بعد ایسے لوگوں کے ہاتھوں یرغمال ہے جو جاگیر دارانہ پس منظر کے حامل ہیں اور اپنے آباؤ اجداد کی طرح ہندوانہ رسومات اور فرنگی نظریات کے زیر اثر ہیں۔ اسی جاہلانہ سوچ نے پاکستان میں قائد اعظم کے ویثرن، علامہ اقبال، چوہدری رحمت علی اور دیگر قائدین تحریک آزادی کی تعلیمات کو بروئے کار نہیں لایا گیا۔ پاکستان آج بھی لارڈ میکالے کے فلسفے اور انگریزی زبان اور اس کی فکری آلودگی کاشکار ہے۔پاکستان کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا کرنے کے لیے قائدین تحریک آزادی کی فراہم کردہ فکری بنیادوں پر واپس لانے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت سنجیدہ اور فوری توجہ طلب مسئلہ ہے ورنہ علاقائیت، لسانیت، مادیت اور کرپشن اس نعمت خدا داد کی بنیادیں کھوکھلی کردے گی۔

پاکستان پر قابض اشرافیہ چوہدری رحمت علیؒ کی خدمات کو مسلسل نظرانداز کررہی ہے۔ جس کی وجہ سے پہلے پاکستانی کے جسد خاکی کو پاکستان نہیں لایا جارہا۔ ہرگزرتا دن چوہدری رحمت علیؒ کی فکرکو دوام دینے کا سبب بن رہا ہے اور مسلمانان برصغیر چوہدری رحمت علیؒ کی فکری بنیادوں کے معترف ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے استحکام اور فکری پختگی کا تقاضا ہے کہ معماران قوم بشمول چوہدری رحمت علیؒ کو ان کا جائز مقام دیا جائے اور قوم کو حقیقی آزادی سے ہم کنار کرنے کے لیے قائدین تحریک آزادی کی تعلیمات کی روشنی میں پاکستان کی تعمیر کی جائے۔ لارڈ میکالے کے فلسفے اور نظام تعلیم کو تبدیل کرنے، انگریزی زبان کے ناجائز تسلط کے خاتمے اور قومی زبان کے عملی نفاذ کے بغیر قومی ترقی ممکن نہیں۔

اہل پاکستان بجا طور پر یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ نقاش پاکستان چوہدری رحمت علیؒ کا جسد خاکی جو امانتا برطانیہ میں مدفن ہے کو پاکستان لاکر اسلام آباد میں قومی اعزاز کے ساتھ دفن کیا جائے۔
 

Atta ur Rehman Chohan
About the Author: Atta ur Rehman Chohan Read More Articles by Atta ur Rehman Chohan: 10 Articles with 9545 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.