نتیش کمار پھر ایک باریعنی ساتویں مرتبہ بہار کے وزیر
اعلیٰ بن ہی گئے۔ ہندو عقائد میں سات کا ہندسہ کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ آگ
کے اطراف سات پھیرے کرکے میاں بیوی سات جنم کے لیے رشتۂ ازدواج میں بند ھ
جاتے ہیں ۔ نتیش نے بھی ۲۰ سال قبل بی جے پی کے ساتھ پہلا پھیرا کیا تھا
لیکن درمیان میں پانچواں چکر انہوں نے آر جے ڈی کے ساتھ چلا لیا تھا ۔ اس
کے بعد تائب ہوکر چھٹا اور ساتواں بی جے پی کے ساتھ مکمل کیا ۔ اس طرح یہ
کہا جاسکتا ہے کہ اب انہیں سیاسی نروان یعنی نجات مل جانی چاہیے اور بہار
کی عوام کو بھی ان سے نجات حاصل ہو جانی چاہیے۔ ویسے کوشش تو اس بار ہی ہو
گئی تھی لیکن کامیاب نہیں ہوسکی ۔ تیجسوی یادو کے دلِ ناتواں نے مقابلہ تو
خوب کیا لیکن پھر ان کے چاہنے والوں کو یہ کہہ کر اطمینان کرلینا پڑا کہ
’گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں ‘ ۔ پچھلے انتخاب میں تیجسوی یادو اپنے
پیروں پر نہیں بلکہ نتیش کے کندھے پر سوار ہوکر آئے تھے ۔ یہ اور بات ہے
کہ انتخابی نتائج نے ان کا قد نتیش سے بڑھا دیا تھا۔ اس بار تیجسوی یادو نے
نتیش کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا تو لیا مگر پٹخ نہیں سکے ۔ خیر جس کو اللہ
رکھے اس کو کون چکھے ۔ نتیش کی قسمت میں ساتواں پھیرا بھی تھا سو پورا
ہوگیا۔ ان کا پہلی بار وزیر اعلیٰ بننا جس قدر مشکل تھا اس آخری بار بھی
وہ کچھ کم نہیں تھا۔ اس موقع پر بہت ممکن ہے کہ نتیش کمار کو اپنی پہلی حلف
برداری یاد آئی ہوگی ۔ یہ سن 2000کی بات ہے اس وقت لالو پرشاد یادو کا
ڈنکا بجتا تھا اور مودی جی کے گرو لال کرشن اڈوانی بھی ان سے ڈرتے تھے۔ وہ
ایک ایسا زمانہ تھا کہ جب لالو یادو نے پہلی بار جنتا دل سے الگ ہوکر اپنی
نئی پارٹی راشٹریہ جنتا دل قائم کی تھی اور اس کی قندیل تھام کر انتخاب لڑا
تھا۔ ان سے قبل جارج فرنانڈیس کی قیادت میں جنتا دل سے الگ سمتا پارٹی قائم
ہوچکی تھی ۔ اس میں نتیش کمار بھی تھے اور یہ سب لوگ مرکز میں اٹل جی کی
حکومت کا حصہ تھے۔ شرد یادو اس زمانے میں جنتا دل یو کے سربراہ ہوا کرتے
تھے یعنی جنتا پریوار تین حصوں میں منقسم ہوچکا تھا۔
بی جے پی نے سمتا کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا اور 67 نشستوں پر کامیابی حاصل
کی ۔ سمتا پارٹی 34 نشستوں پر کامیابی ملی ۔ اس کے باوجود اٹل جی نے اپنی
پارٹی کے سشیل مودی کووزیر اعلیٰ نامزد کرنے کے بجائے نتیش کمار کے سر پر
تاج رکھ دیا۔ اس انتخاب کو 20 سال کا طویل عرصہ گزر گیا۔ اب بھی مرکز میں
بی جے پی کی سرکار ہے ۔ سمتا پارٹی نے جنتا دل (یو) میں شامل کرکے اس کو
نگل لیا ہے۔ اس نے پھر سے بی جے پی کے ساتھ مل کر این ڈی اے کے جھنڈے تلے
انتخاب لڑا ۔ اس بار پھر این ڈی اے میں پہلے نمبر پر بی جے پی آئی اور
جنتا دل (یو) دوسرے مقام پر ہے ۔ اس کے باوجود سشیل مودی کو نائب وزیر
اعلیٰ تو دور وزارت تک سے محروم کردیا گیا اور پھر ایک بار نتیش کمار کو
وزارت اعلیٰ کی گدی پر براجمان کردیا گیا ۔ یہ بڑا عجیب و غریب اتفاق ہے کہ
تاریخ کا پہیہ گھوم کر پھر سے وہیں پہنچ گیا جہاں سے چلا تھا ۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس انتخاب میں بھی
آر جے ڈی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی ۔ اس کو 124 نشستیں حاصل ہوئی
تھیں لیکن متحدہ بہار میں اکثریت کے لیے 163 ارکان درکار تھے اور اس کے پاس
41 کی کمی تھی لیکن سب سے بڑی پارٹی ہونے کے سبب حکومت سازی کا موقع اسی کا
حق تھا لیکن مرکزی حکومت نے دھاندلی کرکے نتیش کمار کی حلف برداری کرائی
اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساتویں ہی دن انہیں استعفیٰ دے کر روانہ ہونا
پڑا۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی چونکہ اس کرب سے گزر چکے تھے اس لیے
نتیش کمار کو بلی کا بکرا بنانے کے بعد پھر سے وزیر بنادیا۔اس وقت بہار کے
رائے دہندگان پر نظرڈ الیں تو صورتحال بہت مختلف سامنے آ تی ہے۔ آر جے ڈی
کے پاس 28.3 فیصد ووٹ تھے اور 124 نشستیں بھی تھیں جبکہ 14.6فیصد ووٹ پانے
والی بی جے پی ابھی کی طرح دوسرے نمبر پر تھی اور اسے 67 نشستوں پر کامیابی
حاصل ہوئی تھی۔ کانگریس کے پاس 11.1 فیصد ووٹ تھے اور 23نشستوں کے ساتھ اس
بار کی مانند چوتھے نمبر پر تھی ۔
نتیش کمار کی سمتا پارٹی کو صرف 8.7 فیصد ووٹ ملے تھے مگر 34 نشستوں کے سبب
ان کو وزیر اعلیٰ بننے کا موقع عطا کیا گیا تھا۔ جنتا دل (یو) کے پاس 6.5
فیصد ووٹ تھے اور اس ک21 نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ ان اعدادو شمار سے
ظاہر ہے کہ بہار میں بی جے پی کو قدم جمانے کا موقع صرف اور صرف جنتا
پریوار کے انتشار کے سبب ملا ۔ اس لیے کہ اگر آر جے ڈی، جنتا دل (یو) ،
سماجوادی پارٹی ( 1.41فیصدووٹ )اور سمتا پارٹی کے ووٹ ملا لیے جائیں تو 45
فیصد ہوتے ہیں ۔ اس کے سامنے بی جے پی کے 14.6فیصد ووٹ کہیں نہیں ٹکتے لیکن
جب اپنے ہی گھر میں انتشار ہو تو دشمن ازخود مضبوط ہوجاتا ہے نیز اگر اس
خلفشار کی وجہ اقرباء پروری ہو تو یہی ہوتا ہے کہ ایک زمانے سے جنتال دل کا
مضبوط ترین قلعہ کے اندر سیندھ لگانے میںبی جے پی بڑی حد تک کامیاب ہوجاتی
ہے۔ اس زمانے میں بھی مجلس اتحادالمسلمین کی مانند بہار کے اندر مسلم لیگ
کے دو امیدوار کامیاب ہوگئے تھے۔
خیر یہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ بی جے پی نے اس بار
بادلِ ناخواستہ نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ تو بنادیا لیکن ابھی سے اپنی دادا
گیری شروع کردی ۔ پہلے تو یہ کیا کہ ایک سشیل مودی کی جگہ اپنے دو نئے نائب
وزرائے اعلیٰ تارکشور پرساد اور رینو دیوی کو نتیش کمار کے اوپر مسلط کردیا
حالانکہ2 کیا 10 نائب وزیر اعلیٰ بھی ایک وزیر اعلیٰ کے برابر نہیں ہوتے۔
نیز جس نتیش کمار نے ۱۵ سالوں تک سشیل کمار کی دال نہیں گلنے دی اس کا یہ
دو نو سکھیے کیا کر بگاڑلیں گے۔ بی جے پی جانتی ہے کہ نتیش کمار اس رسوائی
سے جھلاّ کر مہا گٹھ بندھن کی جانب جا سکتے ہیں اس لیے اسمبلی کے اسپیکر کا
عہدہ بھی جنتا دل سے چھین لیا گیا۔ اس طرح گویا نتیش کمار کے دانت نکال کر
انہیں پوری طرح سرکس کا شیر بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ نتیش کمار کے چاروں
جانب گھیرا بندی کردی گئی ہے لیکن خطرہ تو پھر بھی موجود ہی ہے۔
ان خطرات کی پیش بندی کے لیے صرف چار چار سیٹ جیتنے والی ’ہم ‘ کے رہنما
جتن رام مانجھی کے بیٹے سنتوش اور وی آئی پی کے رہنما مکیش سا ہنی کو بھی
کابینی وزیر بنایا گیا حالانکہ ساہنی تو انتخاب بھی ہار چکے ہیں ۔ ان لوگوں
کو وزیر اس لیے بنایا گیا کیونکہ اگر مہاگٹھ بندھن والے وزارت کا لالچ دے
کر انہیں اپنی جانب کرلیتے ہیں تو این ڈی اے کے پاس صرف 117 رہ جاتے ہیں
اور تیجسوی کو 118ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہوجاتی اور ان کے لیے اے آئی
ایم آیم و بی ایس اپی کے 6 لوگوں کو ساتھ لے کر حکومت بنانا آسان ہوجاتا
ہے۔ اس موقع پر نتیش کمارکے سب سے بڑے دشمن چراغ پاسوان نے یہ ٹویٹ کردیا
کہ امید ہے وہ پورے پانچ سال این ڈی اے کے ہی وزیر اعلیٰ رہیں گے ۔چراغ
پاسوان بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان اختلاف کی پہلی وجہ بن سکتے ہیں
کیونکہ جے ڈی یو انہیں این ڈی اے سے نکالنے کا مطالبہ کررہی ہے اور بی جے
پی رکن پارلیمان اشونی کمار چوبے چراغ کی تعریف و توصیف کے پل باندھ رہے
ہیں ۔نتیش کے لیے اب یہ عہدہ پل صراط سے کم نہیں ہے کیونکہ ان کی حالت اس
ترمیم شدہ شعر جیسی ہے؎
ہے کمل ذات میری تیر صفت ہے میری
ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا
کمل چھاپ بی جے پی کے اندر وزارت سازی کو لے کر اس بار بہت بڑا اختلاف نظر
آیا۔ اس لیے آخری وقت تک اس نے ناموں کے اعلان سے گریز کیا۔ پہلا اختلاف
تو یہ تھا کہ چونکہ وزیر اعلیٰ نام نہاد پچھلی ذات کا ہے تو نائب وزیر
اعلیٰ اونچی ذات کا منگل پانڈے جیسا کوئی رہنما کیوں نہیں ؟ لیکن بی جے پی
ابھی تک اس کی ہمت نہیں جٹا سکی۔ دوسرا یہ کہ پچھلی ذاتوں میں تارکیشور
پرسادسے سینئر نند کشور یادو موجود ہیں ان کو موقع ملنا چاہیے تھا۔ دوسرا
ڈپٹی وزیر اعلیٰ اگر پسماندہ ترین طبقات سے منتخب کرنا تھا تو رینو دیوی سے
بہتر ڈاکٹر پریم کمار ہیں ۔ تیجسوی کو نویں پاس کہنے والوں نے ڈاکٹر کو
چھوڑ کر انٹر فیل رینو دیوی کو وزیر اعلیٰ بنادیا۔ اب تیر نشان والے نتیش
کمار کے لیے بی جے پی کی سازش اور رسوائی سے بچنے کا یہی ایک راستہ ہے کہ
بی جے پی کے ایک تہائی غیر مطمئن ارکان اسمبلی سے بغاوت کروا کر اس کی کمر
توڑ دیں اور ان کے ساتھ مہا گٹھ بندھن میں شامل ہوکر آٹھویں بار وزرات
اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیں یا پھر گھٹ گھٹ کر وزیر اعلیٰ بنے رہیں ۔ بقول
فانی بدایونی ( مع ترمیم) ؎
یہ نتیش عمر گذشتہ کی ہے میت فانی
زندگی نام ہے مرمر کے جئے جانے کا
|