پی ڈی ایم جلسہ ، جلسی ، کانفرنس اور حکومت و اپوزیشن کا کردار
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
عمران خان پاکستان کی تاریخ کا ایسا وزیراعظم ہے کہ بقول پشتو زبان کے مثل کے " دا مچ دا. ... نہ ھم غوڑی اوباسی.. چھوڑیں بات سخت ہو جائے گی.. دوسری طرف اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے موجودہ پارٹیاں عوام کے حقوق کے نام پر نکلی ہیں لیکن ان لوگوں نے اپنے دور حکومت میں کیا کیا.. نواز شریف اور اے این پی کا دور حکومت ہمیں یاد ہے فرید طوفان وزیر خوراک تھے اور آٹا افغانستان جاتا تھا ہمیں چوکر بھی مشکل سے ملتا تھا ، دوسری دور میں ایزی لوڈ کا دور رہا ، رہی مولانا فضل الرحمان کی پارٹی .. تو اللہ معاف کرے گذشتہ دو حکومتوں میں تو یہ پارٹی ہر حکمران کیساتھ رہی ا ن لوگوں نے کونسا تیر مارا ہے ، پیپلز پارٹی بھی عوامی حقوق کی چیخیں مارتی ہیں حالانکہ سب سے زیادہ پلی بارگینگ ان کے پارٹی کے لیڈر کرتے رہتے ہیں خواہ وہ چھوٹے ہو یا بڑے. رہی دوسری پارٹیاں تو وہ تو .. تانگے کے سواریوں کے مصداق ہے .. سواریاں بھی پوری نہیں کرسکتی...
|
|
|
پشاور کے رنگ روڈ دلہ زاک کبوتر چوک پر ہونیوال پی ڈی ایم کے جلسے کے انعقاد سے پتہ چل رہا ہے کہ نہ تو کرسی اقتدار میں بیٹھے مخصوص ٹولے کو عوام کی جان و مال ان کے بنیادی حقوق اور کرونا کی موجودہ صورتحال میں ان کی کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی پی ڈی ایم میں شامل مخصوص پارٹیوں کو ، ہاں دونوں طرف کے لوگوں کو اس بات سے زیادہ دلچسپی ہے کہ انہیں اقتدار ملے ، عوام جائے بھاڑ میں ، یہ الگ بات کہ عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرنے والے اور کرپشن کے خاتمے کے دعویدار عمران خان اور ان کی حکومت عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف نہیں دے سکی ہے لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ اسے اقتدارکا نشہ کرتے ہوئے صرف دو سال ہوگئے ہیں او ر وہ موجودہ اپوزیشن کی قرضوں کی خاتمے کیلئے کوشاں ہونے کے دعویدار ہے اور غریب افغانستان جیسے ملک میں بھی کشکول لیکر پھر رہا ہے اور یہ اس کی کامیابی ہے کہ کشکول وہاں سے بھی خالی لیکر نہیں آیا . عمران خان پاکستان کی تاریخ کا ایسا وزیراعظم ہے کہ بقول پشتو زبان کے مثل کے " دا مچ دا. ... نہ ھم غوڑی اوباسی.. چھوڑیں بات سخت ہو جائے گی.. دوسری طرف اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے موجودہ پارٹیاں عوام کے حقوق کے نام پر نکلی ہیں لیکن ان لوگوں نے اپنے دور حکومت میں کیا کیا.. نواز شریف اور اے این پی کا دور حکومت ہمیں یاد ہے فرید طوفان وزیر خوراک تھے اور آٹا افغانستان جاتا تھا ہمیں چوکر بھی مشکل سے ملتا تھا ، دوسری دور میں ایزی لوڈ کا دور رہا ، رہی مولانا فضل الرحمان کی پارٹی .. تو اللہ معاف کرے گذشتہ دو حکومتوں میں تو یہ پارٹی ہر حکمران کیساتھ رہی ا ن لوگوں نے کونسا تیر مارا ہے ، پیپلز پارٹی بھی عوامی حقوق کی چیخیں مارتی ہیں حالانکہ سب سے زیادہ پلی بارگینگ ان کے پارٹی کے لیڈر کرتے رہتے ہیں خواہ وہ چھوٹے ہو یا بڑے. رہی دوسری پارٹیاں تو وہ تو .. تانگے کے سواریوں کے مصداق ہے .. سواریاں بھی پوری نہیں کرسکتی... بات ہورہی تھی پشاور میں پی ڈی ایم کے جلسے کی ، جس کیلئے درخواست پی ڈی ایم نے پانچ نومبر کو دی تھی اور حکمران پارٹی اور ان کے نااہل انتظامیہ کا یہ حال تھا کہ بیس نومبر کو آرڈر جاری کردیا کہ کرونا کی وجہ سے یہ نہیں ہوسکتا ، بھائی میرے پندرہ دن تک انتظامیہ کہاں پر سوئی ہوئی تھی پہلے بتا دیتے تو کچھ اور انتظام ہوجاتا ، وزیراعلی خیبر پختونخواہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ حکمران جماعت کے لوگوں سے مذاکرات کئے جائیں اور ایسے ممبران کمیٹی میں نامزد کردئیے کہ بقول پیپلز پارٹی کے روبینہ خالد کہ شوکت یوسفزئی کیساتھ تو ان کے گھر والے بھی نہیں بیٹھتے ہم کیوں بیٹھیں گے. بات ان کی بھی صحیح ہے کہ شوکت یوسفزئی اور ان کی حکومت کے ارکان پر عوام کا اعتماد ختم ہو چکا ہے .جس کا ثبوت گلی محلے کی سطح پر عوام کی نفرت کا اظہار ہیں لیکن حکمرانوں کو یہ نفرت نظرنہیں آتی کیونکہ ان کے سروں میں اقتدار کا نشہ ہے ہاں کچھ بھوکے ننگوں کو پیسہ ملنے کا بھی نشہ ہے. اکیس نومبر یعنی جلسے سے ایک دن قبل حکمران جلسہ نہیں کرنے دینگے اور اپوزیشن جلسہ کرینگے کے اعلانات کرتی رہی لیکن پھر راتوں رات حکمران اور ان کے اشاروں پر چلنے والی انتظامیہ نے راتوں رات انٹرنیٹ کی سروس بند کردی ، ساتھ میں راستوں کی بندش سے یہ ثابت کردیا کہ انہیں اپوزیشن کے جلسے سے خطرہ ہے لیکن ان دو چیزوں کی بندشوں سے عوام کو آئین میں دئیے گئے حقوق کے بھی منافی ہوگئی انہیں اپنے ہی ملک میں آنے جانے پر پابندی لگ گئی معلومات کی رسائی کیلئے استعمال ہونیوالے آئینی شق کے خاتمے کیلئے حکمرانوں نے انٹرنیٹ کی سروس بندکردی ، کہ لوگوں کو پتہ نہ چلے او ر یہ سب کچھ حکمران آئین کی بالادستی کے نام پر کررہے ہیں اگر مشرف آئین شکن ہے تو اس جلسے میں صرف ان دو چیزوں کی بندش نے یہ بھی ثابت کردیا کہ موجودہ حکمران بھی اس معاملے میں آئین شکن ہے کیا ان کے خلاف کوئی سرپھرا وکیل عدالت جاسکتا ہے کہ کس قانون کے تحت یہ پابندی راتوں رات لگائی گئی کنٹینر لگا کر راستوں کی بندش سے حکمران کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں. رہی اپوزیشن کی بات تو کیا غضب کی کہانی یہاں بھی ہے ، ایک روز قبل پیپلز پارٹی کی خاتون رہنما نے پریس کانفرنس کی اور کہہ دیا کہ کرونا کے نام سے ہمیں ڈرایا جارہاہے بقول ان کے کرونا ہے لیکن ہم ایس اوپیز کے تحت اس جلسے میں شرکت کرینگے تاہم جب ہم نے ان سے سوال کیا کہ بختاور کی منگنی کیلئے شرکت کرنے والوں سے کرونا ٹیسٹ کے سرٹیفیکیٹ مانگے جارہے ہیں اور غریب عوام کیلئے ایسا کچھ نہیں تو وہ محترمہ تو جواب نہیں دے سکی البتہ خیبرپختونخواہ کی ایک لیڈر کے بقول وہ بند جگہ پر تقریب ہے اس لئے کر ونا وہاں نہیں اور پھر خاموشی چھا گئی ، ہاں انہوں نے ایس او پیز پر عملدرآرمد جلسے کے دوران کہہ دیا لیکن اس جلسے میں شریک نہ تو پولیس کے افسران اور اہلکار منہ پر ماسک لگائے ہوئے تھے اور نہ ہی زندہ باد مردہ باد کرنے والے وہ کارکن جو اس جلسے میں شریک ہونے کیلئے آئے تھے. پی ڈی ایم کے اس جلسے میں عوام کی اتنی تعداد نے شرکت نہیں کی جس کی توقع کی جارہی تھی کبوتر چوک سے جمعیت علماء اسلام کے دفتر تک لوگ موجودتھے اور اس میں سب پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے جن کی بیشتر کی تعداد پشاور سے تعلق رکھتی تھی ، ہاں جمعیت کے کارکنوں کی تعداد زیادہ تھی اور وہ نظم و ضبط کی کوشش کرتے رہے یہ الگ بات کہ وہ اس میں مسلسل ناکام رہے کیونکہ چوں چوں کے مربے کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ، ہاں اس سے قبل گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کے جلسے میں لوگوں کی تعداد زیادہ تھی اور جی ٹی روڈ تک کارکن تھے یعنی چالیس ہزار تک لوگ تھے جبکہ اس جلسے میں پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتوں کے علاوہ تانگہ پارٹیوں کوشامل کرنے کے بعد بھی تعداد بیس ہزار سے زائدنہیں تھی ، یہ الگ بات کہ مخصوص ٹی وی چینل انہیں لاکھوں کا جلسہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے کیلئے ڈرون کے ذریعے لی جانیوالی ویڈیوز کو شیئر کرینگے جس طرح ایک زمانے میں تبدیلی والی سرکار کرتی تھی اور اس کیلئے بڑی بڑی رقمیں ٹی وی چینل کے مالکان کو ادا کرتی تھی اب یہی کام اپوزیشن کے پارٹیاں بھی کررہی ہیں اور اس میں بھی پیسہ استعمال ہورہا ہے اور مالکان کو مل رہا ہے لیکن صحافیوںکا یہ حال ہے کہ بدحالی میں کام کرنے والے ان کارکنوں سے بیس ہزار میں وہ کام لیا جارہا ہے کہ صبح سے را ت گئے تک بیگار کیمپ کی طرح کام کرتے رہے ہیں. بعض ایسے چینل بھی ہیں جنہیں تنخواہیں دینے پر بھی موت آتی ہے .. خیر.. پی ڈی ایم کے پشاور میں ہونیوالے جلسے میں کارکنوں کو کنٹرول نہیں کی جاسکا ، ہر پارٹی کا کارکن اپنے لیڈر کے آنے پر زندہ باد ، مردہ باد کے نعرے لگاتا ، ہر پارٹی میں شامل کارکن کو صرف اپنا لیڈر نظر آرہا تھا خواہ وہ صوبائی سطح کی پارٹیاں تھی یا قومی سطح کی پارٹیاں ، جس کا اد راک سابق وزیر اطلاعات میاں افتخار کو بھی تھا جنہوں نے سٹیج سے کئی مرتبہ یہ کہہ کر پکارا کہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا جائے. جمعیت علماء اسلام کے بعد اے این پی کے کارکن زیادہ تھے لیکن اس بات کی سمجھ نہیںآئی کہ پی ڈی ایم کے جلسے میں اے این پی کے ایمل ولی نے شرکت نہیں کی ، شائد اس کی وجہ مولانا فضل الرحمان بھی ہو لیکن حیدر ہوتی ، سردار بابک اور میاں افتخارنعرے بھی لگواتے رہے اور جذباتی تقریر بھی کرتے رہے اور یہ واحد پارٹی ہے جس کے تین لیڈروں نے سٹیج میں تقریر کی . میاں افتخار جلسے کے دوران بلاول کی تقریر کی آمد پر مذکر کی جگہ مونث الفاظ بول گئے ، اسی طرح مولانا فضل الرحمان نے اپنی تقریر میں جلسے کو کانفرنس کہہ دیا .اس جلسی میں پارٹیوں کے کارکن اپنے لیڈروں کے ساتھ سیلفیاں نکالنے کی کوشش میں سٹیج پر آتے رہے جس کی وجہ سے سٹیج پر لوگوں کا ہجوم رہا تو دوسری طرف افغانستان کے طالبان کے جھنڈے کی موجودگی نے کئی سوالوں کو جنم دیا .جس کا جواب تو اے این پی اے اور جمعیت علماء اسلام ہی دے سکتی ہیں لیکن صحافیوں کیلئے بنائے گئے ایک کنٹینر پر ویڈیو بنانے پر اے این پی کے کارکن کی آمداور وڈیو سے روکنے پر کچھ ایسی باتیںسامنے آرہی ہیں جس سے اندازہ ہورہا ہے کہ اندرون خانہ کہانی کچھ اور ہے. جلسے کے دوران اے این پی اور جمعیت کے کارکن صحافیوں سے بھی بدتمیزی کرتے رہے.جس کا کسی نے نوٹس نہیں لیا.. اور نہ ہی لئے جانیکا امکان ہے.. پی ڈی ایم کے جلسے میں عمران خان کیلئے سلیکٹڈ اور سلیکٹر کے الفاظ زیادہ دہرائے جاتے رہے .سلیکٹڈ کے حوالے سے تو صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ یہ تو سلیکٹر کا سلیکشن ہے کہ جس کو چاہے سلیکٹ کرے ویسے جو پارٹیاں اب سلیکٹڈ کہتی آرہی ہے کیا وہ خود کسی زمانے میں سلیکٹڈ نہیں تھی. کیا انہیں جمہور نے منتخب کیا تھا.جس طرح نئی نویلی دلہن کے آنے کے بعد پرانی والی بوڑھی کا حال ہوتا ہے یعنی کوسنے دیتی ہے وہی اب یہ اپوزیشن کی پارٹیاں بھی دے رہی ہیں کیونکہ ان کی مثال بوڑھی دلہن والی ہے اور عمران خان کی تبدیلی کی مثال نئی دلہن کی سی ہے یہ الگ بات کہ یہ دلہن زرا نخرے زیادہ کررہی ہیں اور اترا رہی ہیں لیکن خیر.. نئی گرل فرینڈ کیساتھ تعلق بن رہاہے جو کہ بہت جلد بن جائیگی اور پھر عمران خان اور ان کی پارٹی بھی قصہ پارینہ بن جائیگی. قصہ پارینہ کی بات پر یاد آگیا کہ جو لوگ پی ڈی ایم کے جلسے میں ناچتے تھے ایک زمانے میں پی ٹی آئی کے جلسوں میں ناچتے تھے . ان ناچنے والوں پر جانے کی بجائے.. پاکستان کی سالمیت ، اقتصادی صورتحال اور عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے اگر عملی اقدامات کئے جائیں تو شائد عوام دوبارہ اٹھ کھڑے ہو ورنہ تو حکمرانوں اور اپوزیشن والوں نے عوام کا وہ حال کردیا ہے کہ وہ نعروں پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لیتے ہیں. کیونکہ یہ سب کھیل صرف کرسی اقتدار کیلئے ہے جس کیلئے ہرکوئی نئے سے نیا نعرہ لگاتا ہے..
|