خوشی بدلتا ہے اداسی میں

شیرخان بلوچ

جب کبھی یاد کرتا ہوں اس کہانی کو جو کہیں مہینوں سے میرے آنکھوں کے سامنے ایک کتاب میں دکھا ہی دی تھی جو آجکل ہمیشہ وہی کہانی میرے ذہن میں دن سو بار آتا رہتا ہے۔ کبھی سوچتا ہوں تو ہمیشہ رونے کی دنیا میں گھومتا ہوں۔

ہر طرف محبت اور قوم کی دوستی لوگوں کے دلوں میں چایا ہوا تھا لوگ ہمیشہ اپنے زندگی کے جڈے ہوئے کہانیوں کی تعریف میں مصروف تھے۔ زمیندار اپنے زمین میں کھیتی باڑی میں مصروف تھے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ہمیشہ اپنوں کے خوشی کے لیے باہر ملک چلے گئے تاکہ کچھ اپنے بچوں کے لیے کما سکیں۔ کہیں سال گزر گئے اچانک ایک ایسا وقت آیا لوگوں کے خوشیوں کو چین کر ہمیشہ مظلوم عوام کے رستے میں کانٹا رکھتے تھے۔ meerism اور Nawabismکا دور تیزی کے ساتھ ایسے ہوئے کہ ہر امیر شخص نواب ہونے کی خواب میں گھومتا رہتا تھا آخر کار سارے انتہا پسند لوگوں کو سامراج کی طاقت ملا، اور اپنے طریقے پورے قوم کو اپنے قبضے میں لیے گئے اگر کوہی باہر ملک میں تھا تو اس کی جان کو خطرہ تھا۔

عدالتوں میں یہی انتہا پسند لوگوں کے قانون چلتا تھا۔

اس وقت باہر کی دنیا بلکل الگ تھا لوگ ہمیشہ خوف کا شکار تھے ، ہر قدم پر انتہا پسند لوگوں کے راج چلتا تھا اور کوہی راستہ نہیں تھا۔ ایسا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ دنیا میں کوہی اکیلا بھی ہوسکتا ہے۔۔بے ماں باپ۔۔۔گھر اور کوہی رشتہ دار بھی نہیں،کچھ بھی نہیں بلکل ہی بے یاور اور بےیارا۔۔۔

سات افراد کے خاندان جو بہت خوش مزاج اور ان لوگوں کے زندگی بہت اچھے طریقے سے گزر رہا تھا نہ جانے کس کی نظر لگ گئی اس خاندان کو اچانک اس خاندان جس نے ایک ساتھ خود کشی کی اسی طرح آج بھی لوگ اس وقت کے زندگی سے اچھے زندگی نہیں گزار رہے ہیں جہاں بے گناہوں کو لاپتہ کرکے پھر ان لوگوں کے ساتھ خبر نہیں کیا کیا تشدد کرتے ہیں۔ ایک ملزم جس حد تک فردجرم کے پڑھے جانے کی آواز نہ پہنچ رہی ،جس فریاد سوئے ہوئے منصبوں کو بیدار کرنے میں ناکام ہوچکی ہو،اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ خود کو ممکن بنا کر کسی حد تک فردجرم کے قریب جانے کی کوشش کرے۔

کہیں مہینوں کے بعد اس کہانی کا ہر تفصیل میرے یادوں میں ہے ان خودکشی کرنے والوں میں ایک بچپن سا لہ عورت ،اس کا چھتیس سالہ بیھٹا تیس سالہ بہو، گیارہ سالہ پوتی اور آٹھ سالہ پوتے شامل تھے۔ اس کے بیٹھے کو انتہا پسند کے لوگوں نے اٹھا لیا اسے ایسے گرفتار کیا جیسے آجکل لوگوں کو گرفتار کرکے کوہی بولنے والا نہیں ہوتا ہے۔ اس پر تشدد کیا ایک ایسی چوری کا اعتراف کرلے جو اس نے کی نہیں تھی ،تشدد سے بچنے کے لیے وہ چوری کا اعتراف کر تھا لیکن لاکھوں روپے کی اس چوری کا سامان اور اس کی فروخت سے حاصل ہونےوالی رقم وہ کہاں سے لاتا اس لیے اس نے اعتراف نہیں کیا۔ تشدد کرنے والوں نے اس پر کیے جانے والے تشدد کو ناکافی سمجھتے ہوئے اس کی ماں اور بیوی سمیت بچوں اٹھا لیا۔ پھر اس کی بیوی، اور ماں بچوں کے سامنے اس پر تشدد کیا گیا۔ آپ شاید اس پر یقین نہ کریں یہ ایک سچ واقعہ ہے جو روز ہمارے اردگرد ہو تے رہتے ہیں لیکن کوہی بولنے والا نہیں۔ نئے طریقے کے تحت دونوں عورتوں کو اس مرد کے سامنے برہنہ کیا گیا، حلانکہ اس میں سے ایک ماں اور دوسرا اس کا بیوی تھی۔ حیران ہونے میں انسان کو دیر نہیں لگتی لیکن حقیقت کو بولنے میں بہت دیر لگتی ہے۔ اس کے سامنے جو بیھٹا بھی تھا اور شوہر بھی ،ان عورتوں کے پشتونوں کو نوچاگیا اور ان کی شر مگاہوں میں انگلیاں اور لکڑیاں ڈالی گئی۔اس جھوٹی دنیا میں انصاف کو اتنا محفوظ کیا ہے کہ جہاں کوہی انصاف تک پہنچنے کی جرت نہیں کر سکتا ہے۔

یہ سب اس لیے کیے گئے وہ شخص ایسی حرکت کی اعتراف کرلے جو اس نے کیا ہی نہیں تھی۔ہر ملزم کو اپنے بارے میں تمام الزامات سے واقف ہونے کا پورا حق ہے۔

اس روز اس آدمی پر اتنا تشدد کیا کہ اس کی حالت بگڑ کر مزید خراب ہو گئی پھر اس سارے خاندان کو گھر پہنچادیا اور دوسرے دن پھر حاضر ہونے کا ہدایت کی۔

جب کبھی آپ کے سامنے لوگوں کو اٹھا کر پھر لاش دکھا ہی دیتے ہیں کیا اس پر تشدد نہیں کرتے ہیں؟
تشدد اور بے رحمی شکار ہونے والے ان لوگوں نے کسی ادارے سے شکایت نہیں کی،کسی کو کچھ نہیں بتایا اور سرف اتنا کیا کہ اپنے رات کے کھانے میں زہر ملا لیا۔ جب انسان کے دل کے زخم پکارتے ہیں تو انسان باہر کی دنیا کو پکارنے میں گونگا ہوجاتا ہے۔

درد ناک عذاب سے گزرہوئے لوگوں کو زہر ایسے میٹھا لگتے ہیں جیسے قاضی اور شراب ایک ساتھ ہوتے ہیں۔

خود کھا کر اور اپنے بچوں کو بھی کھلادیا۔

ان بچوں میں سے ایک سب سے چھوٹا بچہ وہ گھر آتے ہی سو گیا وہ کم کھانے کی وجہ سے بچ گیا۔

کیسا گزر جاتے ہیں وہ راتیں جب کوہی انسان اکیلا اپنا بچپن اداسی کی زندگی میں گزار دیں!

لوگوں کے خیال میں وہ کمزور اور نالائق کہلاتے ہیں لیکن اصل میں ان محسوم انسانوں کے ذمہ دار صرف اور صرف امیر و اور نواب ہوتے ہیں جو کہیں لوگوں کو مار کر کہیں کے گھروں کو جلا کر ،اور کہیں کے بچوں کو لاپتہ کرکے مسلمان کام نام پر لوگوں کی جذبہ قوم کے لیے ختم کرتے ہیں ۔

اسی کی وجہ سے آخر کار اس سارے واقعے کا انکشاف ہوا۔

عدالتوں میں جاتے ہوئے لوگوں نے انصاف کی میٹھا ہی کا تام محسوس نہیں کیا ہے۔ ایسے کہیں واقعہ روز ہوتے ہیں لیکن کچھ سوشل میں اور کچھ صرف لوگوں کے خاموشی میں محدود ہیں۔

اس بچے کے بارے میں سوچیں، آپ ان اسے کیسا انسان بنے کی امید کرتے ہیں؟

امید لوگ اپنے جیت کے لیے رکھتے ہیں لیکن آج جیت کو رستہ میں لوگ چین کر آپ تک پہنچانے سے پہلے تو یہاں ایسے لوگ کیا کرسکتے ہیں؟

انسان اور وطن کی محبت اور قانون کے احترام کے لیے اس کے دل میں کیسے جذبات پیدا ہونگے ؟ سامراج اور میر و نوابوں کے بارے میں وہ کیسی سوچ لے کر بڑا ہوگا ؟



 

Shair Khan Baloch
About the Author: Shair Khan Baloch Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.