ایک طاقتور اور تباہی پھیلانے والے ہتھیار ایسا ہے جو
جنوبی ایشیا میں آئیندہ چند برسوں میں ایٹم بم سے بھی زیادہ موثراسلحہ کے
طور پر متعارف ہو رہا ہے۔جدوجہد آزادی کو کچلنے کی سرتوڑ کوشش اورمسلہ
کشمیر کی ہئیت تبدیل کرتے ہوئے پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں کا پانی
روک کر یا ان کا رخ موڑ کر بھارت یہ ہتھیار پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا
ہے۔ مگرکشمیر کی آزادی پانی سے بہت زیادہ اہم ہے۔کشمیر کی آزادی ہی پاکستان
کو بنجر بنانے سے روک سکتی ہے۔اسی دوران بھارتی سلامتی اور ترقی کے بٹن پر
چین کی انگلی جمی ہے۔ لداخ میں چینی اور بھارتی فوج کے درمیاں حالیہ جھڑپیں
ہلاکت خیز ثابت ہوئی ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا 8واں دور بھی
ناکام ہو چکا ہے۔چین نے پیش قدمی کرتے ہوئے بھارت کے زیر قبضہ لداخ کے کئی
علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کیا ہے۔ جہاں سے چین نے پیچھے ہٹنے سے صاف
انکار کیا ہے۔ گذشتہ دنوں بھارت اور چین کے فوجی افسروں کے درمیان اس
معاملے پر آٹھویں راونڈ کی بات چیت کی ناکامی ظاہر کرتی ہے کہ چین اپنے
موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آتا ہے۔ اگرچہ بھارت کی
بری فوج کے سربراہ جنرل نروانے ،نے ایک بیان میں امید ظاہر کہ لداخ کے
معاملے پر چین اور بھارت کے درمیان بات چیت کی کامیابی کے امکانات ہیں، مگر
یہ نئی دہلی کی خواب خیالی ہے۔زمین پر ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ بات چیت کے
دوران بھی چین نے اپنی فوج کے پیچھے ہٹنے کے سوال پر واضح طور پر کہہ دیا
کہ چینی فوج اس وقت جس جگہ ہے وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ اس دوران بھارت
نے الزام لگا دیا کہ چین اب بھارت کی جانب بہنے والے دریاؤں کا پانی روکنے
یا بہ الفاظ دیگر ان کا رخ موڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔اگر اس طرح کی خبروں
میں صداقت ہے تو اس سے جنوبی ایشیا میں صورتحال انتہائی دھماکہ خیز بن سکتی
ہے۔کیونکہ چین کی طرف سے تبت کے راستے جو دریا بھارت کی جانب بہتے ہیں ان
پر متعدد مقامات پر چین نے بجلی پروجیکٹ قائم کئے ہیں اس طرح ان دریاوں کا
وہ پانی کافی حد تک کم ہوگا جو بھارت کی طرف بہتے ہیں۔بھارت نے بھی پاکستان
کی جانب بہنے والے دریاؤں کا رخ موڑنے کا عمل شروع کیا ہوا ہے۔ برفانی وسعت
اور شفاف پانی کے وسیع ذخائر کی وجہ سے تبت کو قطب شمالی اور قطب جنوبی کے
بعد ''تیسرا قطب'' کہا جاتا ہے۔ چین کو تبت کے پانیوں پر واضح ملکیت حاصل
ہے، اسی وجہ سے چین جنوبی ایشیاء کے سات تیز ترین دریاؤں یعنی دریائے سندھ،
گنگا، برہما پیترا، اراواڈی، سالوین، یانگسی اور میکونگ کا کنٹرولر ہے۔ یہ
دریا پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، میانمار، لاؤس اور ویتنام میں بہتے
ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تبت کے سطح مرتفع اور چین کے زیر انتظام علاقوں
سنکیانگ اور اندرونی منگولیا سے ہر سال 718 بلین مکعب میٹر سطح کا پانی
پڑوسی ممالک کی جانب بہتا ہے۔اس میں سے بھی تقریباًنصف پانی، 48فیصد براہ
راست انڈیا میں جاتا ہے۔
لاہور میں دریائے راوی میں کشتیاں چلتی تھیں، وہاں آج صرف ریت دکھائی دیتی
ہے۔بھارت نے خطے میں پانی کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کی پہل کی
ہے۔دریائے جہلم، دریائے چناب اور دریائے نیلم پر پہلے لا تعداد ڈیم تعمیر
کئے اور پھر ان دریاؤں کا رخ موڑنے کا سلسلہ شروع کیا۔ سندھ طاس معاہدے کی
خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کا پانی بھی بند کردیا۔ اس معاہدے کی
آڑ میں پاکستان کی جانب بہنے والے تین دریا مکمل خشک کر دیئے گئے۔ادھر لداخ
میں چین اور ہندوستان کے درمیان حالیہ جھڑپوں نے چین بھارت کشیدگی اور دیگر
وسائل کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی راہیں ہموار کی ہیں۔چین کے
بڑے انفراسٹرکچر پروجیکٹس جیسے ساؤتھ شمالی واٹر ڈائیورژن پروجیکٹ اور ویسٹ
ایسٹ پاور ٹرانسفر پروجیکٹ دریاؤں کا رخ موڑتے ہوئے قائم ہو رہے ہیں۔ اس کے
علاوہ، اس کی آبپاشی اور بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پانچ سالہ
منصوبے کے مطابق چینی حکومت سالوین، اپر میکونگ، اپر یانگزی اور برہما پترا
پر 120 گیگا واٹ نئے پن بجلی گھر تعمیرکر رہی ہے۔آزاد کشمیر میں، چین پانچ
ڈیموں کی مالی اعانت اور تعمیر کررہا ہے۔ ان ڈیموں سے نچلے سمندری علاقوں،
خاص طور پر غیر مون سون مہینوں میں پانی کے بہاؤ پر منفی اثر پڑے گا، بلکہ
یہ زرخیز مٹی کے بہاؤ کو بھی روکیں گے جو زراعت کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتی
ہے۔چین برہما پترا ندی پر پانچ ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔اگر چین نے برہم پترا
کو شمال میں رخ موڑنے کے لئے استعمال کیا تو اروناچل پردیش ریگھستان بن
جائے گا۔ للھوہ ہائیڈل منصوبے کے لئے، چین نے پہلے ہی برہما پیترا کے تبتی
معاون دریاؤں میں سے ایک، ژیبوق دریا کے بہاؤ کو روک دیا ہے۔ مئی 2020سے
وادی گلوان میں انڈیا اور چین کے مابین سرحدی جھڑپوں کے بعد، چین نے دریائے
گلوان کے بہاؤ کو روک دیا، جو دریائے سندھ کا معاون ہے جو چین کے زیر
کنٹرول اکسی چن علاقے میں واقع ہے۔ یہ دریا بھی بھارت میں داخل نہ ہو سکے
گا۔پانی کے اشتراک سے متعلق باہمی طے شدہ تنازعات کے حل کے میکانزم کی
موجودگی، اور بین الاقوامی تنازعات کے حل سے انکار کے ساتھ، بھارت کے پاس
کون سے سفارتی حل دستیاب ہو سکتے ہیں۔ چین نے بھارت کی طرح بین السرحدی
دریاؤں کو آلودہ کرکے ان کوناقابل استعمال کرنے جیسی تخریب کاری نہیں کی
ہے۔ سیانگ دریا جو برہما پترا کی تشکیل کے لئے لوہت اور دیبنگ کو ملاتا ہے،
تین سال قبل کیچڑ کی شکل اختیار کر گیا اور 2017اور اس کے پانی کا رنگ بھی
سیاہ ہو گیا تھا۔۔ یہ پانی انسانی استعمال کے قابل نہ رہا۔اس سے وادی
سیانگ،جسے اروناچل پردیش کے چاولوں کا ایک پیالہ کہا جاتا ہے، میں زراعت کی
پیداوار بری طرح متاثر ہوئی، ، اور اس کا ماہی گیری پر بھی نقصان دہ اثر
پڑا ۔دریا کا رنگ سیاہ نومبر 2017 میں آنے والا زلزلہ تھا تاہم بھارت نے
پروپگندہ کیا کہ زلزلے کے جھٹکے محسوس ہونے سے پہلے ہی دریا کے پانی میں
بدلاؤ آگیا تھا۔چین کو قیمتی اعداد و شمار تک رسائی ہے جو سیلاب اوربہاؤ کے
اتار چڑھاو میں معاون ہو سکتی ہے۔ بھارت اور چین نے مشترکہ آبی ذخائر کا
بہتر طریقے سے انتظام کرنے کے لئے ستلج اور برہماپوترا کے اعداد و شمار کے
تبادلے سے متعلق 2008 سے دو معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ اگرچہ ان معاہدوں نے
پانی کے انتظام پر مثبت اثر ڈالا ہے، اور سیلاب سے پہلے کی کمی اور سیلاب
پرقابو پایاہے، مگر چین چاہے تومعلومات روک کر بھارت کو کافی نقصان پہنچا
سکتا ہے۔ بھارت اور چین کے مابین 73 روزہ ڈوکلام تنازعہ کے بعدنئی دہلی نے
الزام لگایاکہ چین نے برہم پترا اور ستلج دریاؤں کے ہائیڈروولوجیکل اعداد و
شمار کو روک لیا ہے - جس کی وجہ سے آسام اور اتر پردیش ریاستوں میں سیلاب
نے تباہی مچا دی۔جس سے مشترکہ آبی گزرگاہوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ جب
دریائے پریچو پر ایک جھیل بننا شروع ہوئی، جو ستلیج کی معاون ہے اورتبتی
ہمالیہ میں واقع ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان کی ستلج وادی میں سیلاب کا خطرہ
پیدا ہو گیا۔مگر، اس وقت چین نے بھارت کے ساتھ تعاون کیا اور اعداد و شمار
کا تبادلہ کیا ۔
بھارت کی طرح چین نے سائنسدانوں اور انجینئروں کو سائٹس پر بھیجنے کی
درخواست کو مسترد نہیں کیا۔جب پاکستان کے ماہرین کشن گنگا ڈیم کا جائزہ
لینے سائٹ پر گئے تو اس کے فوری بعد بھارت نے پلوامہ دھماکے کئے جس میں
اپنے ہی 50سے زیادہ فوجیوں کا ہلاک کر دیا گیا۔ پلوامہ کو مودی نے اپنی
سیاست اور سفارتکاری کے لئے خوب استعمال کیا۔ اس کے بعد پاکستان کے ماہرین
کے دوروں پر روک لگا دی اور کشن گنگا ڈیم تعمیر کر لیا۔ دریا کا رخ بھی
موڑا گیا۔ اگر چین بھی مصنوعی جھیل نما پانی کا بم بنائے توبھارت کے کئی
علاقے زیر آب آکر تباہ ہو سکتے ہیں۔ پریچو جھیل کے جون 2020 میں اس وقت
ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہوا جب دریا میں 12 سے 14 میٹر تک اضافے کا مشاہدہ کیا
گیا۔بھارت نے بھی تعمیر کردہ ڈیموں کو ضرورت سے زیادہ اونچا کیا ہے۔ کشمیر
اور آبی تنازعات کو بین الاقوامی تنازعہ کے تصفیے کے طور پر حل کرنے سے
گریز کی راہ اختیار کی ہے۔ پاکستان اس صورتحال میں بہنے والے ندی نالوں،
بارش کے پانی اور سمندر کے پانی کو پینے اور آبپاشی کے لئے بروئے کار لانے
کی طرف ہنگامی طور پت توجہ دے۔ پاکستان ایسے ممالک کے اتحاد کی رہنمائی کر
سکتا ہے جنھیں مشترکہ پانی سے متعلق ایسی صورتحال کا سامنا ہے۔اس طرح کا
اتحاد اجتماعی طور پر کسی بھی طرح کی خلاف ورزیوں پر معاشی پابندیاں عائد
کرسکتا ہے۔ مشترکہ آبی وسائل کے باہمی تعاون اور مساویانہ استعمال کے لئے
بھارت، جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیاء کے دیگر ممالک پانی کو جنگی ہتھیار کے
بطور استعمال نہیں کریں گے۔
اگر چین نے بھارت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے واقعی بھارت کی جانب بہنے والے
دریاؤں کے پانی کا رخ تبدیل کیا یا ڈیم تعمیر کر کے پانی کو روکا تو جنوبی
ایشیا میں صورتحال انتہائی دھماکہ خیز ثابت ہوسکتی ہے۔ بھارت کا پہلے ہی
پاکستان کے ساتھ آبی تنازعہ چل رہا ہے اور سندھ طاس معاہدے کے باوجود دونوں
ملک ایک دوسرے پر شدید نوعیت کے الزامات عائد کررہے ہیں۔ یہ جیو پولیٹیکل
شطرنج ہے جس میں پانی ایک ہتھیار بن رہا ہے۔بھارت کا ڈیمز بنانے کا پروگرام
ماحول کو بھی تباہ کر رہا ہے اور اسے اپنے ہمسایہ ممالک کو زیر کرنے کے
قابل بنا رہا ہے۔کئی صدیوں پہلے، عظیم چینی فلسفی سن زو نے مشاہدہ کیا کہ
فوج کی شکل پانی سے ملتی ہے۔ دشمن کی تیاریوں سے فائدہ اٹھائیں۔ اس پر حملہ
کرو جب اسے امید نہ ہو۔ اس کی طاقت سے بچو اور اس کے خالی پن پر حملہ کرو
اور پانی کی طرح کوئی بھی آپ کا مخالف نہیں ہوسکتا۔چین نے لاؤس، کمبوڈیا،
ویتنام اور تھائی لینڈ پر آبی جنگیں مسلط نہیں کیں۔ قوی میکونگ دریا کی
ابتدا تبتی سطح مرتفع سے ہوتی ہے۔جس سے نچلی میکونگ بیسن ناقابل یقین حد تک
زرخیز اور جنوب مشرقی ایشیاء کے چاولوں کا کٹورا بنتا ہے۔یہ دریا اس کے
نچلے حصے میں رہنے والے تقریبا 60 ملین لوگوں کو رزق فراہم کرتی ہے۔ یہ
مچھلی، پرندوں اور جنگلی حیات کے ساتھ مل کر دنیا کے سب سے فائدہ مند
دریاؤں میں سے ایک ہے۔اسی طرح2019 میں، میکونگ خشک ہونا شروعہوا۔ سوکھے کی
وجہ سے 100 سے زیادہ سالوں میں پانی کی سطح اپنی نچلی سطح پر آگئی۔ اگرچہ
میکونگ ڈیلٹا میں زبردست فصل تھی، لیکن خشک سالی اس زرخیز خطے میں پانی کی
قلت ظاہر کرتی ہے۔خشک سالی نے چاول کی فصل کو متاثر نہیں کیا ہے، لیکن اس
نے تھائی لینڈ کی چینی کی پیداوار کو ختم کردیا ہے۔ برازیل کی طرح تھائی
لینڈ بھی بہت زیادہ گنے اگاتا ہے۔مگرگزشتہ سال کے 14.57 ملین ٹن کے مقابلہ
میں یہاں چینی کی پیداوارصرف 9.55 ملین ٹن ہوئی۔ج، میکونگ ڈیلٹا کو شدید
خطرہ لاحق ہے۔بھارت کے پاس چین کی طرح معاشی اور فوجی عضلہ ہے۔ دوسرے ممالک
کوبھارتی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہے۔بھارت نے چین کی طرح بیلٹ اینڈ روڈ
انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے ذریعہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں بھاری
سرمایہ کاری نہیں کی ہے۔ وہ بحیرہ جنوبی چین میں مصنوعی جزیرے بھی نہیں
تعمیر کر سکتا۔اس لئے نئی دہلی خود کوچین کا ہم پلہ نہیں کہہ سکتا۔چین کی
تبت پر فتح ہونے کے بعد سے، یہ جنوب اور جنوب مشرقی ایشیاء میں سے گزرنے
والے کچھ بڑے دریاؤں کو کنٹرول کرتا ہے۔اس نے بڑے پیمانے پر پن بجلی ڈیمز
تعمیر کیے ہیں۔اب یہ بات مشہور ہے کہ ڈیموں سے ندیوں کا بہاؤ بند ہوجاتا
ہے، زلزلے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، قیمتی ماحول تباہ ہوجاتا ہے اور لاکھوں
افراد کی زندگی تباہ ہوتی ہے۔ وہ خشک سالی اور سیلاب دونوں کو بڑھاتے ہیں۔
انہوں نے دریا کے ماحولیاتی نظام کا خاتمہ کیا، ''آزاد بہہ رہے آبی
گزرگاہوں کو بے جان جھیلوں میں تبدیل کیا، پودوں اور درختوں کو ہلاک کیا،
مچھلیوں کی نقل مکانی اور افزائش کو روکا، انواع کو ناپید کردیا، اور
انسانی زندگی کے تباہ کن نمونوں کو تباہ کیا۔بھارت کے ڈیم ماحول کے لئے
خوفناک ہو سکتے ہیں۔میکونگ کے علاوہ، چین نے تبت کے سب سے لمبے دریا یارلنگ
سانگپو پر ڈیم بنائے ہیں۔ یہ دریا پہلے مشرق میں بہتا ہے اور پھر ڈرامائی
انداز میں ہمالیہ کے راستے جنوب کی طرف مڑتاہے تاکہ مغرب میں بہہ جائے جیسے
ہندوستان میں برہما پترا ہے۔ یہ طاقتور دریا بنگلہ دیش اور ہندوستانی ریاست
مغربی بنگال پر مشتمل گنگا کے ساتھ مل کر دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا تشکیل
دیتا ہے۔ چینی حکومت نے یارلانگ سانگپو سے صوبہ سنکیانگ میں واقع تکلمکان
ریگستانی علاقے میں پانی موڑنے کے لئے سرنگ تعمیر کی تو کیا ہو گا۔بھارت کو
پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے سے روکنا ہے۔ بارش کے موسموں میں سیلاب
کے راستے کھولناخوفناک سیلاب کا سبب بن سکتا ہے۔ کوویڈ 19 وبائی بیماری سے
پتہ چلتا ہے کہ بھارت کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو معلومات کا اشتراک کرتا ہو
یا بین الاقوامی اصولوں کا احترام کرتا ہو۔جہلم، چناب، نیلم پر تعمیر کردہ
بھارتی ڈیم جیو پولیٹیکل ہتھیار ہیں۔
بھارت نے نیلم پر کشن گنگا ڈیم تعمیر کیا۔چناب اور جہلم پر درجنوں ڈیم
تعمیر کئے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کی طرف بہنے والا پانی کم ہوگیا ہے ۔
پنچاب میں ہزاروں ایکٹر زمین کے لئیآبپاشی ناممکن بن کر رہ گئی ہے اور اس
طرح یہ زمین بنجر ہوتی جارہی ہے۔ غرض دونوں ملکوں کے درمیان دوسرے تنازعات
سمیت آبی تنازعہ دیرینہ اورسرفہرست ہے جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ پانی سے
زیادہ کشمیر کی آزادی اہم ہے۔اگر اس اہمیت کا ادراک نہ کیا گیا تو یہاں کے
عوام کو سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔پھر چین بھی بھارت کے خلاف آبی
ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔ان سب تنازعات کا بس ایک واحد علاج ہے اور وہ ہے
بامعنی اور سنجیدہ بات چیت۔جس کا واحد آپشن کشمیر کی آزادی ہے۔کوئی دوسرا
آپشن یا ہدف طوالت یا بہکاوے کے سواکچھ نہیں۔گو کہ افہام و تفہیم کے بغیر
کوئی بھی مسلہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔مگر بات چیت کی بھیک یا احتجاج، بیانات،
ریلیاں، دھرنے ، دو منٹ کی خاموشی سے آزادی نہیں مل سکتی بلکہ صرف بھارت کے
خلاف افغان طرز کی مسلسل اور منظم عسکری اور سفارتی جدوجہد ہی کار آمد ہو
گی۔اس لئے بھارت کو چاہئے کہ وہ افغانستان میں بیرونی قابضین کے عبرتناک
انجام کو دیکھ لے، کشمیر میں بھی بھارت کا ایسا ہی حشر ہو سکتا ہے۔کشمیری
سمجھ چکے ہیں کہ بھارت بھیک مانگ کرانہیں آزادی میز پر سجا کر نہیں دے
گا۔بھارت بھی جان سکتا ہے کہ وہ کشمیر پر قبضہ کر کے پھنس چکا ہے۔وہ تباہی
سے پہلے ہی حتمی مذاکرتی عمل شروع کرنے کی مہلت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے تاکہ
جنوبی ایشیا میں امن و شانتی اور سکون کا دور شروع ہو اور لوگوں کو جنگ و
جدل،لڑائی جھگڑوں ،آنے والی بڑی تباہی سے نجات مل سکے۔ |