بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(عالمی برادری کی طرف سے اقوام متحدہ کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی)
قصہ آدم و ابلیس سے ایک سبق یہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ شیطان خیرخواہ کے
روپ میں حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آیا تھا اور ہمدردری کی آڑ میں ان
سے دشمنی کی ریت ڈالی۔شیطان کی یہ صفت آج تک باقی ہے اورماضی بعید سے
ماضی قریب تک اور تادم تحریر انسانی تاریخ گواہ ہے کہ دشمن کبھی بھی
دشمن کے روپ میں ہویدانہیں ہوتااور ہمیشہ خیرخواہ بن کردشمنی کا حق
اداکرتاہے۔ جبکہ سادہ لوح لوگ آستین کے سانپ کی اس خیرخواہانہ نما
دشمنائی کو کم ہی سمجھ پاتے ہیں اوراپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔مغربی
سیکولر تہذیب کے استعمارکی اسی خیرخواہانہ دشمنائی کاایک اسلوب لڑاؤ
اور حکومت کرو کی پالیسی آج تک جاری ہے۔دنیاکی طاغوتی طاقتیں ایک ہی
اندرون سے چہرے بدل بدل کرمدمقابل اقوام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرتی
ہیںاور پھرسیکولر جمہوریت کے الاؤ سے غداری کی بھٹی کو تپش دے کرگلے
سڑے ہوئے ہوئے سیاہی مائل قلب و نظر کے مالک غداران ملک و ملت کوقوم و
ملک کی کم سے کم قیمت کی بولی میں باہم دست و گریبان کر تے ہیں اور پھر
جومیر جعفرومیرصادق سب سے کم قیمت کی نیلامی پر آمادہ رضا ہو،اسی
ضمیرفروش کوپتلی تماشاکے تیارکردہ اسٹیج پر براجمان کرکے توپس پردہ
اپنی ڈوریاں ہلاتے رہتے ہیں جبکہ اس کے مدمقابل کوبھی ہشیارباش رکھ
کراس کے سر پر سے بھی ہاتھ نہیں اٹھاتے کہ ایک کو امید کی ڈور بندھی
رہے تو دوسرامنفعت اقتدارکی محرومی سے خائف رہے۔اسلام نے تو محض ایک
فرد کو غلام بنانے کی اجازت دی تھی لیکن اس مغربی سیکولر تہذیب نے تو
ان ذہنی مفلوج ومعذورحکمران طبقوں کی مصنوعی قوت سے قوموں کی قوموں
کوتاریخ انسانی کی بدترین غلامی میں ناک تک جکڑ رکھاہے کہ انہیں سانس
لینے کا یارا نہیں۔
گزشتہ صدی میں تقسیم مشرق وسطی کے شرمناک کھیل کو آج لیبیا میں ایک بار
پھر دہرایا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ کاادارہ اگرچہ سیکولرمغربی تہذیب کے
فاشسٹ اقدامات کو قانونی و آئینی تحفظ فراہم کرنے کے فرائض ہی سرانجام
دیتا ہے اور جمہوریت کے نام پر چند بڑی طاقتوں کی جبری برتری اور
انسانوں پرحیوانی و خونی وجنگلی تسلط کاجوازفراہم کرتاہے ،اس کے باوجود
لیبیامیں موجودہ سیکولرمغربی طاقتوں کی طالع آزمائیاں ان کے اپنے
پروردہ اس ادارے کے قوانین کی کھلی کھلی خلاف ورزیاں ہیں۔دوسری جنگ
عظیم کے بعد جب ”لیگ آف نیشنز“بری طرح ناکام ہو گئی اور دنیانے
سیکولرازم کے ثمرات بد بہت قریب سے مشاہدہ کرلیے تو انسانوں کو
مکروفریب کے ایک اور جال میں پھانسنے کے لیے خداوندان یورپ 21اگست
1944کو”ڈمبرٹن اوکس“نامی ہارورڈ یونیورسٹی کے تحقیقی ادارے کی لائبریری
میں سرجوڑ کر بیٹھے جوامریکہ کے مشہور شہر واشنگٹن ڈی سی کے جوار میں
واقع ہے۔طویل غوروحوض کے بعد”اقوام متحدہ “نام کے ادارے پر اتفاق
ہواجسے عالمی امن کاذمہ دار بنایاگیااور اس کے لیے بعد کے بہت سارے
اجتماعات میںقوانین سازی کی گئی۔”یالٹا کانفرنس“فروری 1945اور”سان
فرانسسکو کانفرنس“اپریل جون 1945ءمیںبلآخر”سیکورٹی کونسل“کی قانون سازی
بھی عمل میں آ گئی اوراقوام متحدہ کے تحریری دستورکو اسی کانفرنس میں
حتمی شکل دی گئی جس میں ”سیکورٹی کونسل“کے مستقل ارکان کو”ویٹو“کاحق
بھی دے دیاگیا۔اقوام متحدہ کے قوانین کی دفعہ نمبر42میں سیکورٹی کونسل
کو یہ حق دیاگیاہے کہ وہ نقص امن و انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کسی
ملک کے خلاف فوجی کاروائی کی اجازت دے سکتی ہے۔اس قانون کو بھی صرف امت
مسلمہ کے خلاف ہی بے دریغ استعمال کیا گیاہے لیکن اب کی بار لیبیاکے
معاملے پر تواس تکلف کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔
ہرفرعون راموسی کے مصداق اپنے ہی پروردہ لوگ جب آنکھیں دکھانے لگیں
تومتبادل قیادت کے طور پردوسرے لوگوں کو سامنے لے آیاجاتاہے۔چنانچہ
لیبیامیں بھی یہی کھیل کھیلا جارہاہے اورایک آمر کو ہٹانے کی غرض سے
27فروری 2011کو بن غازی کے شہر میں ایک نام نہاد”عبوری قومی
کونسل“(المجلس الوطنی الانتقالی)بنائی گئی جسے مغربی استعماری طاقتوں
کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔اس کونسل میں :
1۔مصطفی محمدعبدالجلیل، صدرہیں،1952میں ”بیادہ“میں پیداہوئے 1975میں
یونیورسٹی آف لیبیاسے تعلیم مکمل کی،عملی زندگی میں زیادہ ترعدلیہ سے
وابسطہ رہے اور 2007میں لیبیاکے وزیرانصاف بھی رہے۔
2۔عبدالحفیظ غوجا:یہ نائب صدر ہیں،پیشے کے اعتبار سے وکیل رہے ہیں اور
بن غازی کے وکیلوں کی کونسل کے صدر بھی رہے ہیں اور اب لیبیاکی قومی
عبوری کونسل کے سپوکس مین بھی ہیں۔
3۔فتح تربال،نوجوانوں کے نمائندہ ہیں موجودہ تحریک کے اولین مظاہروں
میں گرفتار بھی رہ چکے ہیں۔
4۔زبیراحمدالشریف،1958میں عراق کی ملٹری اکیڈمی سے گریجوئیشن
کیاتھا،1973میں گرفتار ہوئے اور31برسوں تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت
کرتے رہے۔ان کی اس طویل استقامت کے نتیجے میں قومی عبوری کونسل میں
سیاسی قیدیوں کے نمائندے کے طور پر لیاگیاہے۔
عمرالہریری کونسل کے عسکری نمائندے ہیں،ڈاکٹر فتح محمدجاجہ سیاسی امور
کے نگران ہیں،ڈاکٹر سلوی فوازی قانوی امور وامور خواتین کی نگران
ہیں،ڈاکٹر عبداﷲموسی المیہوب ،یہ بن غازی یونیورسٹی کے ڈین رہے ہیں اور
اب کونسل میں اپنے شہر ”قبہ“کی نمائندگی کرتے ہیں،احمدالعبارکونسل کے
معاشی مشیر ہیں،اسی طرح ان سمیت تیتیس(۳۳) افراد پر مشتمل قومی عبوری
کونسل مہیب سازشوں کی مشروط کامیابی کے نتیجے میں لیبیاکے مستقبل کی
ضامن ہو سکتی ہے۔اس کونسل میں ایک حکومت کو درکار تقریباََ تمام کارندے
یامشیر موجود ہیں سوائے کسی جید عالم دین کے۔کسی دینی عالم کی
غیرموجودگی سے اس کونسل کے بنانے والوں کے ارادے مکمل طور پرسمجھے
جاسکتے ہیں۔قذافی نے لیبیاکانام”اشتراکی عوامی لیبیاعرب
جمہوریہ“رکھاتھااور یہ کونسل اپنے ملک کانام ”جمہوریہ لیبیا“رکھنا
چاہتی ہے۔عوام کی اکثریت جو ملت اسلامیہ کے وجود کاحصہ ہے ان کی ملی و
دینی شناخت کاان دونوں ناموں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ملکی و قومی سلامتی
کے ساتھ ان کاکتنا لگاؤ ہے اس کااندازہ عبدالحفیظ غوجاکے اس بیان سے
لگایا جاسکتاہے کہ لیبیاپر اقوام متحدہ کی افواج کی یلغار کو بیرونی
کاروائی نہیں سمجھاجائے گا۔اس بیان سے خوب خوب اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ
پس پردہ کون سی فکر کارفرماہے۔
کرنل معمر قذافی اور اسکی حکومت کے خلاف بننے والی یہ کونسل سیاسی
انقلاب کے نعروں کی امین ہے۔27فروری2011کوبننے والی اس کونسل نے 5مارچ
2011کو اپنے ایک بیان میں کل لیبیاکے عوام کی نمائندہ
قراردیا۔23مارچ2011کو اس کونسل نے ایک عبوری حکومت بھی ترتیب دے دی اور
”محمود جبریل“اس کے وزیراعظم مقرر ہوئے۔انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا
حکومت ایک انتظامی ادارہ ہے جب کہ کونسل کی حیثیت مشاورتی ہوگی۔کونسل
نے اپنے اہداف میں آٹھ نکات بیان کیے ہیں جن میں ملک کے لیے آئین کی
تیاری،آزاد و منصفانہ انتخابات،آئینی وجمہوری اداروں کاقیام،سیاسی و
شخصی آزادیاں،دہشت گردی و انتہاپسندی کا خاتمہ اور آزاد خارجہ پالیسی
شامل ہیں،ان تمام نکات میں بھی کہیں دین،شریعت،امت یااسلام اور
مسلمانوں کا ذکر نہیں دیکھاگیا۔کمال مہربانی و شفقت و محبت میں فرانس،
قطر، مالدیپ، اٹلی، کویت، گیمبیا، اردن اور مالٹا کی ریاستوں نے اس
عبوری حکومت کو تسلیم بھی کر لیاہے جبکہ روس نے اسے صرف ایک سیاسی
تحریک کے طور پر ہی ماناہے۔کچھ ممالک نے اس کونسل کے ساتھ سفارتی
تعلقات بھی باندھ لیے ہیں۔جبکہ کونسل کے نمائندہ کا کہنا ہے اقوام
متحدہ کے رکن ممالک کی اکثریت نے انہیں تسلیم کر لیاہے لیکن اعلان
ہنوزنہیں کیا۔یورپی یونین،عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل نے اپنے اپنے
بیانات میں قذافی کو کونسل کے حق میںمستعفی ہونے کامطالبہ کیا
ہے۔لگتاہے امریکہ بہادرابھی پردے کے پیچھے سے ڈوریاں ہلاتے ہوئے بھی
انتظار کررہا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے کیونکہ افغانستان اورعراق
میں اسی طرح کی حکومتوں کے تجربے اب اس کی سا لمیت کے درپے ہیں۔
جب تک امت مسلمہ کے سپوت نہیں اٹھیں گے ان کی قسمت کے فیصلے دیارغیرکے
ایوانوں میں ہوتے رہیں گے۔لیبیاکے عوام کس حال میں ہیں یہ کسی سے ڈھکی
چھپی بات نہیں ہے،لیکن اتنا یقین سے کہاجاسکتاہے کہ ایک آمر کے خلاف
اٹھنے والی قوم آمریت کی کسی اور شکل کو برداشت نہیں کرے گی خواہ وہ
سیکولرازم کی شکل میں ہو،نیشل ازم کی شکل میں ہو یا پھر نام نہادسیکولر
مغربی جمہوریت کی شکل میں ہو۔لیبیااس وقت عالمی سازشوں کاگڑھ بن چکاہے،
بدنام زمانہ نیٹوکی دہشت گرد افواج آسمان اور زمین سے لیبیائی مسلمانوں
پر آگ برسارہی ہیں اور قذافی کی جابرانہ حکومت کے استبدادکے باعث سالوں
سے اندر کی خبر باہر نہیں آپاتی۔شہیدوں کا خون وطن کی سرزمین پر ایک
امانت ہوا کرتاہے اور یہ امانت ہمیشہ سرسبزوشاداب اور باد نسیم کی شکل
میں اپنے نتائج سے انجام پزیر ہوا کرتی ہے۔مشرق سے ابھرنے والا سورج
امت کے قاہروجابر حکمرانوں سے نجات کی خوشخبری سنارہاہے اور وہ وقت دور
نہیں جب استعمار کی بنائی ہوئیں فرضی سرحدیں مٹ جائیں گی اور امت مسلمہ
ایک ہو کرکل انسانیت کی قیادت کا فریضہ سرانجام دے گی،انشاءاﷲتعالیٰ۔ |