ملکی سلامتی اور قومی خود مختاری کا تحفظ

جس جگہ انسان مقیم ہوتا ہے۔انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس جگہ امن و سلامتی کے ساتھ ساتھ اسے مکمل آزادی بھی میسر ہو. اسے ہر طرح سے تمام اختیارات حاصل ہوں اور وہ بہ آسانی من چاہی و خود مختاری اور بے فکری زندگی بسر کرسکے۔انسان اپنے آپ کو اپنے گھر میں نہایت پرسکون، آزاد، محفوظ اور خود مختار سمجھتا ہے. بالکل اسی طرح ملک و وطن بھی ایک گھر کی مانند ہیں، جہاں انسان ہر طرح کی آزادی سکون اور تحفظ چاہتا ہے. ہمیں اﷲ پاک کا بارہا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اس عظیم وطن سے نوازا۔ اسی لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ملک اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے۔ جو اﷲ پاک نے عظیم الشان بزرگوں اور نوجوانوں کی قربانیوں کے صدقے ہمیں عطا کیا ہے.

اس ملک کو پانے کے لیے ہمیں بہت کچھ کھونا پڑا، ہمارے بزرگوں کی بے پناہ قربانیوں کے بعد اس ملک کی بنیاد رکھی گئی، بے شمار عورتوں کے سہاگ اجڑے۔ ہزاروں ماؤں نے اپنے لخت جگر کھوئے؛ لا تعداد بچے یتیم ہوگئے؛مگر سلام ہے ان مسلم ماؤں پر اور ان شیر دل بہادر جوانوں اور شہیدوں پر جنہوں نے ہمیشہ جان پر وطن کو ترجیح دی، حوصلہ نہیں ہارا، کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ہر حال میں ڈٹے رہے اور ہمیں آزادی کی نعمت سے بہرہ ور کیا۔آج باشندگانِ پاکستان اپنے گھروں میں محفوظ ہیں۔ خود مختار ہیں۔ بیٹیوں بہنوں کی عزتیں محفوظ ہیں، اس کا سہرا ان بزرگوں اور نوجوان کے سر جاتا ہے، جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اس ملک کی پاکیزہ اسلامی بنیاد قائم کی...جب ہم اس ملک کی تاریخ کا بہ نظرِ غائر جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کی ایک ایک اینٹ میں اقبال اور قائد جیسے بزرگوں کی محنتیں قربانیاں اور جوانوں کا لہو موجود ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اسلامی جمہوریہ، خود مختار آزاد ملک، پاکستان کا وجود قائم کیا.. اور اس ملک کی آزادیء دفاع کے لیے جنہوں نے دن رات ایک کرکے اپنا آپ فنا کرکے اس ملک کی بنیاد رکھی۔ تا کہ اس ملک کو اسلامی ریاست بنایا جا سکے.. جہاں ہر طرح کی دینی آزادی ہو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزار سکیں. ہمارے ان جوانوں, بزرگوں کی جستجو تڑپ اور لگن نے ہی اتنے عظیم الشان وطن کی بنیاد رکھی کہ جس کو کوئی بھی نہ گرا سکا اور ان شاء اﷲ نا ہی کوئی گرا سکے گا...!آج جو ہم اپنے وطن، اپنے گھر میں سلامتی سے زندگی بسر کر رہے ہیں، یہ ان جوانوں کی بہ دولت یے، جو قائد کے فرمان کو تھامے ہوئے ہر وقت اپنی زباں پر نعرہ تکبیر بلند رکھتے ہیں اور اس ملک کے دفاع کے لیے جب جب ضرورت پڑتی ہے، اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔پاکستانی فوج کے جوان اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر وطن کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی وہ جوان ہیں جن کی بہ دولت ہم سخت جنگی حالات میں بھی بے فکر ہوکر سکون سے رہتے ہیں۔ سلام ان جوانوں کو جو ہمارے لیے اپنی جانے دیتے ہیں۔

قارئین! آئیے کچھ ان جوانوں کا ذکر کرتے ہیں، جن کی بہ دولت ہم امن و سلامتی سے اپنے ملک میں مقیم ہیں تاریخ کا اک اک صفحہ گواہ ہے کہ کس طرح ایک ایک فوجی اپنے ملک کے لیے قربانیاں دیتے ہیں اور کبھی بھی ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جاتیں اور یہ کبھی بھی ملک و قوم کی خدمت سے پیچھے نہیں ہٹتے
''راشد منہاس'' ایک مشہور و معروف نام۔ جس کو سنتے ہی ایک عظیم و باہمت، نڈر و بے باک، جرأت مند و حوصلہ مند اور حفاظتِ وطن کے لیے خود کو قربان کردینے والے معزز جوان کی تصویر ذہن کی اسکرین پر آجاتی ہے۔جس کی خدمات سے بچہ بچہ واقف ہے. جس کی بہ دولت پاکستان کو خوب نصرت و کام یابی حاصل رہی،راشد منہاس نے 17 فروری 1951ء میں ائیرفورس ہسپتال کراچی میں آنکھ کھولی۔ ان کا بہن بھائیوں میں چوتھا نمبر تھا۔ وہ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ہوائی جہاز سے کھیلنا ان کا خاص مشغلہ تھا۔ جب چھوٹے تھے تو کاغذ کے ہوائی جہاز بنا کر اڑایا کرتے تھے۔ نشانِ حیدر حاصل کرنے والے یہ ملک کے سب سے کم عمر پاک فضائیہ کے افسر تھے. ان کے بھائی بتاتے ہیں کہ بچپن سے ہی انہیں ہوائی جہازوں سے خاص لگاؤ تھا۔ گھر سے جتنے پیسے ملتے ان سے ماڈلز کی دکان سے ہوائی جہازوں کے ماڈلز خرید لاتے اور انہیں بنایا کرتے۔ بہت کم عمری میں ہی انہیں جہازوں کے نام، قِسمیں اور ان کی رفتار ازبر تھیں۔ ان کی والدہ بتاتی ہیں کہ چھٹی جماعت میں ہی انہیں پکا یقین ہو گیا تھا کہ میں ائیر فورس میں ہی جاؤں گا۔ سترہ سال کی عمر میں ہی پاک فضائیہ میں جنرل ڈیوٹی پائلٹ کی حیثیت سے گریجویشن کیا اور اے ایف بیس میں مسرور پہ اپوائنٹ کیا گیا تاکہ آپ پائلٹ کی تعلیم حاصل کر لیں. راشد منہاس پاکستان کا وہ نام ہے جس کو سنتے ہی سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے کہ ہماری پاک فوج میں ایسے عظیم اور وطن کے نام پر جان نثار کر دینے والے لوگ موجود ہیں. راشد منہاس کو اپنی کم عمری میں شہید ہو جانے کے باعث دو ہی سولو فلائٹس کا موقعہ ملا تھا۔ پہلی سولو فلائٹ کے دوران جہاز سے تیل لیک ہونے لگا تھا۔ کنٹرول ٹاور سے ہدایت ملی کہ آپ بیل آؤٹ کر جائیں۔ راشد نے بیل آؤٹ کرنے کے بجائے جہاز کو کریش لینڈ کر دیا تھا۔ اس کے بعد انہیں بیس کمانڈر کی جانب سے کیموڈیشن سرٹفکیٹ ملا تھا۔ 20/اگست/1971ء بہ روز جمعہ راشد منہاس کو مسرور بیس کراچی سے اپنی زندگی کی دوسری تنہا پرواز کرنی تھی۔ ان کے حوصلے بلند و پختہ ہونے کے ساتھ دل میں شہادت کی آرزو راسخ تھی۔ راشد منہاس کی دوسری تنہا پرواز آخری ثابت ہوئی۔

ان کا بنگالی فلائنگ انسٹرکٹر ان کے لیے ایک سازش تیار کر چکا تھا۔ اس نے کلوروفارم کے ذریعے راشد کو بیہوش کیا اور انہیں اغوا کر لیا۔ راشد نے ہوش میں آتے ہی زخمی ہونے کے باوجود جدوجہد شروع کر دی۔ دشمن کی سرحد قریب آتے دیکھ کر انہوں نے اپنی کوشش سے جہاز کو زمیں بوس کر دیا۔ راشد منہاس نے دشمن کی قید پر شہادت کو ترجیح دی۔ راشد منہاس نے 20 سال کی عمر میں ہی وطن کی محبت و خدمت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا. راشد منہاس کو بعد از وفات پاکستان کا سب سے اعلیٰ فوجی اعزاز نشان حیدر دینے کا اعلان اس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان نے کیا اور آپ کو اس عظیم نشان حیدر سے نوازا گیا. راشد منہاس کی طرح ہمارے ملک کا ہر جوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
اے راہ حق کے شہیدو! وفا کی تصویرو!
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

اس ملک کو تا قیامت قائم و دائم رکھنے کے لیے ابھی بھی ان جیسے جوانوں کی قربانیاں جاری ہیں. جن کی بہ دولت پاکستان میں ہر اک اک شخص محفوظ اور آزاد ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں عورت کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے اور اس کے تمام حقوق ادا کیے جاتے ہیں اور ہر فرد کو عزت کی نگاہ سے دیکھا, سمجھا جاتا ہے....؛لیکن ان سب کے باوجود ایک ایک فرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے ملک و وطن کی سلامتی کے لیے ہر وقت تیار رہے. فرداً فرداً اپنی ذمے داریاں ادا کرنی ہوں گی. ہمارے ملک کی بنیاد ہی اسلامی نظریوں پر رکھی گئی ہے...؛لہذا ان موجودہ حالات میں اپنے ملک کی سلامتی اور مکمل تحفظ کے لیے کچھ خاص اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اس سے متعلق فرمانِ قائد ہے۔''ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے اتنی ہی زیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے... جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن ہو جاتا ہے۔اس بات کو اپنانے کی آج کے دور میں بھی بہت ضرورت ہے۔ تاکہ اس ملکِ پاکستان کا وجود ہمیشہ امن و سلامتی کے ساتھ برقرار رہے.؛لہذا قرآن و سنت کو تھامے ہوئے ہمیں آگے قدم بڑھانے ہوں گے... اپنی قوم کے جوانوں کو بتانا ہوگا کہ بہ ظاہر اب یہ جنگیں وسائل کی نہیں، طاقت کی نہیں، تیل کی نہیں، علاقوں کو فتح کرنے کی نہیں ہیں... اب یہ اسلام اور کفر کی جنگ ہے جو ابھی بھی جاری ہے، دشمنوں کی صفیں سیدھی ہو رہی ہیں دشمن تیاری میں آچکا ہے. باطنی طور پر ہمیں پاکستانیوں کو اپنا آپ مضبوط کرنا ہوگا.. سرحدوں پر کھڑے شیر جیسے جوان تو ہر پل اپنی دھرتی ماں کی حفاظت و سلامتی کے لیے چٹان کی مانند ہر طوفان سے لڑنے کے لیے تیار کھڑے ہیں..؛لیکن ان سب کے باوجود ہمیں اپنے ملک و قوم کی سلامتی کے لیے اپنے تحفظ کے لیے باطنی طور پر بھی لڑنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے بڑوں نے جو قربانیاں دے کر اس ملک میں امن و سلامتی پاکیزگی اور سکون بھرپا کیا ہے اس کو برقرار رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی نہایت ضرورت ہے۔دشمن کو معلوم ہے کہ پاک فوج کے ہوتے ہوئے پاکستان کے امن و سلامتی کو تباہ نہیں کیا جاسکتااس لیے وہ نت نئے طریقوں سے ہمارے وطن کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے کوشاں ہیں. ہماری نئی جنریشن کو اسلام سے دور کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر ہماری بنیادوں کو کمزور کرنے میں لگے ہیں لیکن ان شاء اﷲ کبھی کمزور نہیں کر پائیں گے یہ ملک ہمارے پاس قائد کی امانت ہے. اس کی ہر طرح سے حفاظت ہمارے ذمے ہے. قرآن و حدیث کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنا ہے ناکہ ان باتوں کو محض مذاق میں لینا ہے. جسے ہم مذاق سمجھ رہے ہیں جسے ہم محض دقیانوسی باتیں سمجھ رہے ہیں.ایسا نہیں ہے۔ یہ مذاق نہیں یہ باتیں نہیں ہیں ہماری نسلوں کو جان بوجھ کر برباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ہمیں جان بوجھ کر ہمارے ملک و مذہب کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے۔تاکہ ہم اپنے وطن کی اصل کھو بیٹھیں.. لیکن اب یہ ہمارے اوپر عائد ہوتا ہے کہ ہم کس طرح اس امن کو برقرار رکھتے ہیں. بے شک پاکستان کے نام سے ہماری پہچان ہے۔ اس کی سربلندی ہمارا مشن ہے۔ آج کے دن ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کو ہم کیا دے رہے ہیں؟
اس کی ترقی میں انفرادی طور پر ہمارا کیا کردار ہے؟
یہاں حکمران بالا جیسے بھی ہوں، عام فرد کیا اپنا فرض نبھا رہا ہے؟

ہم سب میں سے ہیں، تو ملک کو سدھارنے، بنانے کے لیے کون آئے گا؟اچھائی کا آغاز اپنی ذات سے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اﷲ ہم سب کو پاکستان کی قدر کرنے کے قابل بنائے اور ہمارے دلوں میں یہ احساس اجاگر فرمائے کہ ہم خود کو اس دھرتی کا قرض اتارنے کے قابل کر سکیں، آنے والی نسلوں کو ایک آزاد وطن کی فضا ہمیشہ میسر رہے
 

Malika Mubeen Khalid
About the Author: Malika Mubeen Khalid Read More Articles by Malika Mubeen Khalid: 5 Articles with 5931 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.