ایران پر کاری ضرب ․․․․!

ایران کے لئے بری خبر تھی ،دشمنوں نے ان کے جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر کاری ضرب لگا دی ۔ایران کے صدر حسن روحانی نے جوہری سائنسدان کو قتل کرنے کا الزام اسرائیل اور امریکہ پر لگایا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر’’ عالمی مغرور‘‘ کے فاسق ہاتھ غاصب صہیونی حکومت کی بطور زرخرید مدد سے قوم کے بیٹے کے خون سے رنگے ہیں (ایران عالمی مغرور امریکہ کو کہتا ہے )۔محسن فخری کودماوند کے علاقے ابسرد میں گولیوں سے نشانہ بنایا گیا۔ایران کا کہنا تھا کہ وہ اپنے جوہری سائنسدان کی ہلاکت کا بدلہ لے کر رہیں گے۔

محسن فخری زادہ ایران کے جوہری سائنسدان جنہیں مغرب طویل عرصے سے مشتبہ طور پر ایرانی خفیہ ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کے ماسٹر مائنڈ کہتا رہا ہے۔بیرون ممالک کے نزدیک 2003 میں بند کئے گئے ایک پوشیدہ ایٹمی بم پروگرام کے قائد کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ۔محسن فخری زادہ واحد سائنسدان تھے جن کا نام 2015 میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی جانب سے ایرانی ایٹمی پروگرام کی حتمی جانچ میں شامل تھا۔دو سال قبل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایران کے جوہری ذخیرے تک پہنچ چکے ہیں ،اسی وقت نیتن یاہو نے محسن فخری زادہ کا نام لے کر انہیں دھمکی دی تھی۔اب اسی ذہین ترین سائنسدان کو شہید کر دیا گیا ہے ۔محسن فخری زادہ کا نام کوئی ڈھکا چھپا نہیں تھا،ایران کے خفیہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں بار بار ان کا نام اہم شخصیت کے طور پر لیا جاتا رہا ہے،مغربی میڈیا ان کا موازنہ نظریاتی طبیعیات کے سائنسدان رابرٹ اوپن اور 84 سالہ معروف سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے کرتے ہیں، جو اپنے ملک کے لئے ایٹم بم بنانے میں کامیاب رہے ۔چوں کہ محسن فخری ایٹمی طبیعیات کے شعبے میں با صلاحیت مفکر اپنا آپ تسلیم کروا چکے تھے اور خاص طور پر ایرانی ایٹمی پروگرام عمد کے سربراہ بھی تھے،اور ایرانی دشمنوں کے مطابق ایران کا ایٹمی پروگرام خفیہ طور پر کام ہو رہا ہے،پھر وہ کیوں کر محسن فخری کو زندہ چھوڑ سکتے تھے ،ایران کے لئے یہ نا قابل تلافی نقصان اور ان کے دشمنوں کے لئے بڑا اطمینان کی خبر ہے۔لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اتنے بڑے سائنسدان کو دارالحکومت تہران کے نواح میں مسلح حملہ آوروں نے پہلے گاڑی کو دھماکے سے اڑایا اور اس کے بعد انہوں نے فخری زادہ اور ان کی سیکورٹی پر مامور اہلکاروں کی گاڑی پر فائرنگ کی۔گو کہ حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا، لیکن محسن فخری زادہ کو نہ بچایا جا سکا،وہ اس حادثے میں شدید زخمی ہوئے،پھر بعد میں دوران علاج دنیا فانی سے چل بسے ۔

یہ ایران کے لئے معمولی سانحہ نہیں ہے،اسے بچایا جا سکتا تھا ،کیوں کہ حالیہ برسوں میں کئی دیگر ایرانی سائنسدانوں کو بھی شہید کیا جا چکا ہے،ان میں مسعود علی محمدی جنہیں 12جنوری 2010 کو تہران میں ایک ریموٹ کنڑول بم سے نشانہ بنایا گیا تھا، ماجد شہریاری کو 29نومبر 2010 کو ایک کار بم دھماکے میں ہلاک کیا گیا،جبکہ اس حادثے میں ان کی اہلیہ زخمی ہو گئی تھیں۔فریدون عباسی دوانی اور ان کی اہلیہ ٹھیک اسی روز ایک کار بم حملے میں زخمی ہو گئے تھے ،جس روز ماجد شہریاری بم حملے میں ہلاک ہوئے ،داریوش رضائی کو 35برس کی عمر میں 23جولائی 2011 کو تہران میں مسلح حملہ آور نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا اور اسی طرح 32 سالہ مصطفیٰ احمدی روشن کو جنوری 2010میں تہران میں بم حملے میں ہلاک کیا گیا تھا،بم ایک موٹر سائیکل سوار نے انہی کی گاڑی میں نصب کر رکھا تھا ۔یہ تمام حادثات ایران کے قلب عینی تہران میں رونما ہوئے،اس لئے غالب امکان ہے کہ کارروائی میں ایران کے اپنے باشندے ملوث ہیں۔اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اس حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔وہ دشمنوں کو ایسے ممالک میں جا کر بھی ٹھکانے لگاتی ہے ،جس سے اسرائیل کے سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں ۔دو برس قبل ملائیشیا کے دارحکومت کوالالمپور میں ایک فلسطینی انجینئر فادی البطش کو قتل کر دیا گیا تھا۔ملائیشین پولیس کے مطابق فادی کے دو قاتل یورپی ملک سے آئے تھے ۔بعد میں یہ الزام اسرائیلی موساد پر لگا تھا۔اسی طرح تیونس میں ایک اسلام پسند انجینئر کو بھی پر اسرار طریقے سے قتل کر دیا گیا تھا ۔تحقیقات سے اس قتل کا ذمہ دار بھی موساد ٹھہری تھی ۔موساد اپنے اہداف کو ٹارگٹ کرنے کے لئے مقامی طور پر اپنے ایجنٹ بھرتی کرتی ہے ۔یہ سب کچھ واضح ہونے کے باوجود ایران اپنے دارالحکومت میں اتنے بڑے ایٹمی سائنسدان کی حفاظت کو آخر کیوں یقینی نہ بنا سکا ،جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم نام لے کر دھمکی بھی دے چکا تھا۔یہ ایرانی سیکورٹی ایجنسی کا بہت بڑا فیلیر ہے ۔بادی النظر میں یہی لگ رہا ہے ایران کی توجہ اندرونی حساس معاملات سے زیادہ پڑوسی ممالک پر ہے ۔یہ ایرانی فوج کے لئے بہت بڑا سوالیہ نشان بھی ہے کہ دشمن ان کے قلب میں آ کر اتنی بڑی کارروائی کرنے میں کیسے کامیاب ہوگیا۔ ایران کو یمن ، عراق اور شام کی فکر چھوڑ کر اپنے اندرونی معاملات پر توجہ دینی چاہئے تھی ،مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا اور آج اسے اتنے بڑے نقصان سے دو چار ہونا پڑا۔ایٹمی سائنسدانوں کی سیکورٹی ملکی سربراہوں سے بھی زیادہ فول پروف اور ان کی نقل و حرکت انتہائی پوشیدہ ہوتی ہے۔اب ایران کو سوچنا ہو گا کہ ایسی خفیہ ترین باتوں تک دشمن نے کیسے رسائی حاصل کر لی ؟

اس واقعہ سے پاکستان کو بھی سبق سیکھنا چاہیے کہ حکومت ،فوج اور سیکورٹی ایجنسیز کو اپنے فرائض بروئے کار لانے چاہیے ،اپنی توجہ غیر ضروری باتوں کی بجائے ملکی حساس معاملات پر رکھنی چاہیے ۔کیوں کہ ہم بھی ایک ایٹمی پاور ہیں ،جو ہمارے دشمنوں کو کھٹکتا ہے ۔ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کسی طرح سے پاکستان کے ایٹمی قوت کو نقصان پہنچا سکیں ،اس کے لئے انہوں نے بار بار کوششیں بھی کی ہیں،مگر ہمارا ایٹمی دفاع مضبوط ہے ،مگر جہاں میر جعفر اور میر صادق جیسے کریکٹر عام ہوں،وہاں کسی پر اسرار واقع کی توقع کی جا سکتی ہے۔اس لئے اپنی تمام تر طاقت اور توجہ کو منتشر نہیں ہونے دینا چاہیے ۔ورنہملک کو بڑے نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے،جن کی تلافی کسی صورت ممکن نہیں ہوسکتی ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109498 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.