قصر ابیض سے زنداں کی سلاخوں کا منظر

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بابت کچھ بھولے بھالے لوگوں کا خیال ہے کہ شکست کے صدمہ سے ان کا دماغی توازن بگڑ گیا تھا اس لیے وہ دیوار پر لکھی یہ تحریر پڑھنے سے قاصر تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خوفزدہ تھے۔ان کا اڑیل رویہ انتخابی عمل کو ناکارہ کرنے کی سازش کا حصہ تھا۔حقیقت یہ ہے عدل و مساوات کابلند بانگ دعویٰ کرنے والی جمہوریت میں ایک عام شہری کو اقتدار پر فائز ہوتے ہی تمام فوجداری اور دیوانی مقدمات سے استثنیٰ حاصل ہوجاتا ہے۔ پچھلے چار سالوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان مراعات کا بھرپور فائدہ اٹھا مگر اب یہ ان سے چھن کر دشمنوں کو ملنے والی ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اپنے مخالفین پر اقتدار کے سبب جو زیادتیاں وہ کرتے تھے اب اس کا شکار خود ہوں گے۔ ٹرمپ کو انتقام کا خوف نے باولا کردیا ہے ۔ وہ جانتے ہیں صدرات کے ختم ہوتے ہی ان کی دنیا بدل جائے گی۔تحقیقات پر قدغن لگانے کے صدارتی اختیار سے وہ محروم ہوجائیں گے۔ ان کے لیے اپنی ذات اور اپنے تجارتی اداروں کے جرائم کا دفاع کرنا مشکل ہوجائے گا۔ صدر ٹرمپ کے خلاف مختلف النوع مقدمات کی فہرست بہت توانا اور طویل ہے۔ ان میں اقرباء کی حق تلفی اور بدعنوانی سے لے کر جنسی ہراسانی تک کے سنگین الزامات ہیں۔

دورانِ اقتدار عام طور پر رشوت لینے کا الزام لگتا ہے جیسا کہ رافیل معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی پر لگا لیکن صدر ٹرمپ پر دینے کے دلچسپ الزامات ہیں۔ فحش فلموں میں کام کرنے والی اداکارہ سٹرامی ڈینیل کے مطابق 2006 میں اس سے ڈونلڈ ٹرمپ سے جنسی تعلق قائم کیا تھا۔ اسی طرح کا معاملہ فحش جریدے پلے بوائے کی ماڈل کیرن میکڈوگل کے ساتھ بھی تھا۔ ان دونوں خواتین کا دعویٰ ہے کہ 2016 کے صدارتی انتخاب سے قبل انہیں چُپ رہنے کے لیے پیسے دیئے گئے تھے۔ ان لوگوں نے 2018 میں لب کشائی کرکے ٹرمپ کو مشکل میں ڈال دیا۔ ان جرائم سے متعلق تفتیش میں یہ پتہ چلانے کی کوشش کی گئی اس معاملے میں کسی وفاقی قانون کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی؟اس بات ٹرمپ کے سابق نجی سکریٹری مائیکل کوہن نے تسلیم کرلیا کہ انھوں نے دونوں خواتین کورقم کی ادائیگی کی تھی جو انتخابی مہم کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس جرم کی پاداش میں 2018 کے اندرکوہن کو تینسال قید کی سزا سنائی گئی یعنی جرم ثابت ہوچکاہے۔ مائیکل کوہن یہ کہہ چکے ہیں انہوں نےاپنے آقاکے ایماء پر یہ رقم ادا کی لیکن صدر ہونے کے سبب ٹرمپ بچ گئے ورنہ ان کو بھی سزا ہوتی لیکن جب صدارت کی کرسی نہیں ہوگی تب کیاہوگا؟ استغاثہ اگر ثابت کر دے کہ ٹرمپ نے واقعی مائیکل کوہن کو ادائیگیکا حکم دیا تھا توسابق صدر پر فرد جرم عائد ہو جائے گی اور اس کے لیے وافر مقدار میں شواہدمل جائیں گے۔

صدر ٹرمپ کے خلاف دوسرا متوقع مقدمہ ان کی کمپنی کے حساب کتاب میں فراڈ کاہے۔ اس معاملے کی تفتیش مینہٹن ضلع کے اٹارنی جنرل سائرس وانس کر رہے ہیں۔ نیو یارک کے قوانین میںکاروباری ریکارڈ میں رد و بدل کےجرم کی سزا ایک سال قید ہےلیکن اگر یہ خرد برد ٹیکس فراڈسے جڑ جائے توسنگین جرم بن کر مجرم کی سزاکو طویل کردیتا ہے۔ اٹارنی جنرل وانس نےصدر ٹرمپ اور ان کے تجارتی ادارے سے کا آٹھ سال کا فنانشل ریکارڈ طلب کرکے ان کی مشکلات میں اضافہ کردیاہے۔صدر ٹرمپ نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرکے مذکورہ دستاویزات کو پیش کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سوال یہ ہے اگر سب کچھ صاف و شفاف ہے تو اسے کیوں چھپایا جارہا ہے؟ صدر ٹرمپ انتخابی نتائج کی مانند ٹیکس چوری کے الزامات کو بھی فیک نیوز کہہ کر رد کر دیا تھا۔ انھوں نے اسے عدالتی ہراسا نی کا نام دیا لیکن وفاقی جج نے اس موقف کو تسلیم نہیں کیا ۔ صدر ٹرمپ کے ٹیکس کے گوشواروں کی تفتیش کے بعدہی یہ پتہ چلے گا کہ ان کے خلاف کیامقدمہ بنتا ہے ؟ لیکنان کا خوف چور کی داڑھی میں تنکے کے مترادف ہے۔

ٹرمپ کا ماضی سیاسی نہیں بلکہ تجارتی ہے۔ تعمیرات کا کاروبار ان کو وراثت میں ملا ہے۔بشمول ممبئی دنیا کے مختلف بڑے شہروں میں ٹرمپ ٹاور موجود ہے۔ ان کا شماردنیا کے بڑے ریئل اسٹیٹ ٹائیکونس ( سرمایہ داروں) میں ہوتا ہے ۔ اٹارنی جنرل لتیتیا جیمزان کی رئیل اسٹیٹ کمپنی کے خلاف ممکنہ فراڈ کی تحقیق کررہی ہیں ۔نیویارک کی یہ اٹارنی جنرل مارچ 2019 سے صدر ٹرمپ کے اثاثوں کی مالیت کے حوالے سے ممکنہ غلط بیانی کا پتہ لگانے میں مصروف ہیں؟ صدر ٹرمپ کے وکیل مائیکل کوہن کے مطابق انہوں قرضوں کے حصول کی خاطر اپنی جائیدادوں کی قیمت بڑھا چڑھا کر پیش کی جبکہ ٹیکسچرانے کے لیے ان کی مالیت کو کم کر کے بتائی گئی یعنی ڈبل کا میٹھا (دوہرا فائدہ)۔ امریکی کانگریس (پارلیمان) کے سامنےمائیکل کوہن کی گواہی نے اثاثوں کے حوالے سے متوقع بدعنوانی کی جانب واضح اشارہ کیا ہے۔ اس ادارے کے نائب صدر ایرک ابن ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے والد کی مانند اس کارروائی کو سیاسی عداوت پر مبنی بتایالیکن اس کے باوجود انہیں نیویارک اٹارنی جنرل کےدفتر میں جاکر اپنا بیان درج کرانا پڑا۔

ٹرمپ پر چوتھا معاملہ دورانِ صدارت مالی فوائد کے حصول کا ہے ۔ امریکی آئین کے مطابق صدر سمیت کسی بھی وفاقی عہدیدار کو دوسرے ملک سے مالی فائدہ قبول کرنے سےقبل کانگریس (ایوان) کی اجازت لازمی ہے۔ ٹرمپ پر ایک کے بجائے تین تین ایسے مقدمات درج ہیں جن میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ مذکورہ اجازت کے بغیربیرونی ممالک سے فوائد حاصل کیے گئے مثلاً دارالخلافہ واشنگٹن میں ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل کے اندر غیر ملکی اہلکاروں کو ٹھہرانے کا معاملہ وغیرہ ۔صدرٹرمپ اس دستوری خلاف ورزی کو خاطر میں نہیں لاتے اوراسےبیہودہ الزام کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ماضی میں امریکی صدور اپنے دور اقتدار میں اس طرح دولت کماتے رہے ہیں۔ ٹرمپ کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ وہ نہ تو اس الزام کی تردید کرتے ہیں اور نہ کوئی توجیہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں بلکہ دوسروں کی قانون شکنی کو اپنے حق میں نظیر بناکر پیش کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے ۔ ملک کا سربراہ مملکت ہی اگر آئین کو ببانگ دہل پامال کرنے کے لگے تو پھر عوام سے کیا توقع کی جائے؟
صدر ٹرمپ کا پانچواں سنگین ترین معاملہ جنسی ہراسانی کا ہے۔یہ دراصل امریکی معاشرے کے اخلاقی انحطاط کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ مسلمانوں پرمغرب کا یہ اعتراض ہے کہ وہ اپنی خواتین کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھتے ہیں ۔ گورے بڑے فخر سے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ یوروپ اور امریکہ میں عورتیں محفوظ و مامون ہوگئی ہیں ان کا عزت و وقار بحال ہوگیا ہے اس تناظر ان الزامات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔صدر ٹرمپ پر جنسی بے راہ روی کےکئی مقدمات ہیں جنھیں وہ کو فیک نیوز کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔ 2016 میں جب صدر ٹرمپ صدارتی مہم چلا رہے تو کئی عورتوں نے ان پر دست درازی کا الزام عائد کیا تھا۔ ٹرمپ نے ان الزامات کو بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی قرار دے کر رد کردیا اور عوام نے بھی یقین کرلیا۔ اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انہوں الزام لگانے والی خواتین کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی دھمکی تک دے دی مگر اس کی جرأت نہیں کرسکے،الٹا ان عورتوں نے ٹرمپ کے خلاف مقدمات دائر کر دئیے ۔

اس طرح کے سنگین معاملات میں ٹرمپ کی غلیظ ذہنیت کا اندازہ ان کےمعروف صحافی جین کیرول کو دیئے جانے والے جواب سے لگایا جاسکتا ہے ۔ کیرول نے الزام عائد کیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 1990 میں مینہٹن کی ایک دوکان کے ڈریسنگ روم میں ان کی عصمت ریزی کیتھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایسا اس لیے نہیں ہو سکتا، کیونکہ ان جیسی (عورتیں)کو وہ پسند نہیں کرتے یعنی اگر وہ پسندیدہ ہوتی تو اس کی عصمت کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا۔ کیرول نے اس بیان کو بنیاد بنا کر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ اسی طرح کا مقدمہ سمر زرواس نے بھی دائر کیا ہواہے ۔ان کا الزام ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ملازمت کی تلاش کے دوران ان کی عزت تار تار کی ۔ صدر ٹرمپ اس الزام کو مس زرواس کے ذریعہ شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں۔ دورانِ صدارت ٹرمپ کے وکلا نے صدارتی استثنیٰ کا فائدہ اٹھایا مگر 20 جنوری 2021 کے بعد جب وہ عام شہری بن جائیں گے تو یہ تحفظ ختم ہوجائے گا اور شواہد کے جمع کرنے کا آغازہوجائے گا۔

صدر ٹرمپ کے خلاف غیروں کے علاوہ ان کی بھتیجی مییری ٹرمپ نے بھی مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں اپنے الزامات کی تفصیل درج کردی ہے۔ مییری کا الزام ہے کہ ان کے والد کی وفات کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے بھائیوں نے خاندانی کاروبار میں ان کا حصہغصب کر لیا۔مییری ٹرمپ اس فراڈ خاندانی پیشہ ہی نہیں بلکہ طرزِزندگی قرار دیتی ہیں ۔ وہ نرگسیت کا شکار چچا کو دنیا کا خطرناک ترین آدمی گردانتی ہیں ۔مییری کی شکایت ہے کہ جب ان کے42سالہ والد فریڈ ٹرمپ جونیئر کا 1981 میں انتقال ہوا ْ تو ان کی عمر16 برس کی ہونے کے سبب وہ چچا کی کفالت میں تھیں مگرڈونلڈ ٹرمپ نے جھوٹ اور فراڈ کے ذریعہ انہیں مالی نقصان پہنچایا۔ مییری ٹرمپ نے پانچ لاکھ امریکی ڈالر کے ہرجانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔صدر ٹرمپ نے ان الزامات کو جھوٹ کا پلندہ کہہ کر مستردتو کردیا لیکن ہنوز مقدمے میں جواب نہیں داخل کیا۔اب اگر عدالت سے دستاویزات کی درخواست آتی ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی استثنیٰ کا سہارا نہیں لے سکیں گے اور الزامات کےدرست ہونے صورت میں ہرجانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔ صدر ٹرمپ پر لگنے والے ان الزامات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نظام جمہوریت کی مدد سے کیسے کیسے بدترین لوگ اقتدار کی کرسی پر فائز ہوجاتے ہیں۔ یہ نظام ان کواقتدار میں آنے سے روک تو نہیں پاتا لیکن ہرطرح کا تحفظ ضرور فراہم کرتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے کہا تھا ؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
(۰۰۰۰۰۰۰جاری )
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1207391 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.