چھانگا مانگا کی سیر

21جولائی 1994 کو نیشنل کمپیوٹر کالج آف ایجوکیشن کی جانب سے چھانگا مانگا کی سیر کا ایک ہنگامی پروگرام ترتیب دیا گیا، تاکہ کالج کے طلبا کو کمپیوٹر کالج اور شہر کی آلودہ فضا سے باہر نکل کر کسی خوشگوار مقام کی بھی سیر کروا دی جائے چنانچہ اس مقصد کے لئے طلبہ سے مالی حصہ بھی طلب کیا گیا طلبہ کے ساتھ ساتھ دو خواتین بھی اس ٹیم میں شامل تھیں جبکہ پرنسپل الطاف گوہر ناسازی طبع کے باوجود اپنی اہلیہ سمیت اس قافلے کی رہنمائی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

خوش قسمتی سے پچھلی رات سے ہی بارش کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا جس کی بنا پر موسم اور بھی خوشگوار ہو گیا بلکہ سیرو تفریح کے لئے انتہائی موزوں ہو چکا تھا۔ ہمیں یہ خدشہ تھاکہ اگر بارش مسلسل جاری رہی تو ہم بروقت صبح سات بجے کالج کیسے پہنچیں گے جہاں سے بس نے چھانگا مانگا کے لئے روانہ ہونا تھا بہر کیف قدرت خدواندی نے ہماری سن لی اور صبح چھ بجے کے بعد بارش بند ہوگئی۔ اب ہمارے راستے میں کوئی دیوار نہ تھی چنانچہ تیار ہو کر ساڑھے سات بجے ہم سب کالج پہنچ گئے۔ چونکہ مجھے اس کالج کے زیادہ تر طلبہ سے شناسائی نہیں تھی اس لئے تھوڑا سا حجاب ضرور تھا اسکی وجہ یہ تھی کہ میں جب کالج میں سٹڈی کے لئے پہنچتا اس وقت خاتون استقبالیہ سمیت سبھی لوگ جا چکے ہوتے اگر کسی سے ملاقات ہو تی بھی تو جاوید صاحب اور خالد صاحب سے جو میری ہی طر ح دیر سے آنے والے طلبہ کی تربیت پرمامور تھے لیکن مجھے یہ حوصلہ ضرور تھا کہ میرے پسندیدہ دوست اور استاد شفاقت صاحب بھی اس قافلے میں شریک ہیں جبکہ افتخار، جاوید اور خالد صاحب سے بھی خاصی شناسائی تھی ابھی چند دن پہلے ہی احمر سے جان پہچان ہو چکی تھی اس لئے کچھ زیادہ اجنبیت کا احساس نہ تھا۔

جیسے ہی میں کالج میں داخل ہوا تو افتخار صاحب گٹار سینے سے لگائے ہوئے نظر آئے شاید وہ بجا بھی رہے ہوں لیکن مجھ تک گٹار کی آواز نہیں پہنچی تھی۔ شفاقت صاحب بہت گرم جوشی سے بغلگیر ہوئے، شفاقت صاحب کی گرمجوشی اس بات کا یقین دلا رہی تھی کہ اگلا سفر بھی ہمارا ایسے ہی گزرے گا۔ چند لڑکے جو کالج کی حدود میں کرکٹ سے انجوائے کررہے تھے۔ کالج کے پرنسپل الطاف گوہر صاحب کی آمد کی خبر سنتے ہی دبک کر بیٹھ گئے۔ اس سے پہلے جو ہنگامہ جاری تھا وہ کچھ دیر کے لئے رک گیا۔ الطاف صاحب اپنی اہلیہ اور دوسری خواتین کے ہمراہ اپنے کمرے میں چلے گئے اور خالد صاحب اور عامر صاحب جن کے ذمے قافلے کی انتظامات تھے وہ سرگرم ہوگئے۔ ویگن آ چکی تھی، چند ساتھیوں کا انتظار تھا باقی دوست احباب تو آٹھ بجے تک آگئے لیکن طارق صاحب مالی حصہ دینے کے باوجود بھی نہ آئے چنانچہ ان کے مزید انتظار کو مناسب نہ سمجھا گیا۔

ٹھیک آٹھ بجے ویگن میں سوار ہم اس شہر کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے چھانگا مانگا کی جانب روانہ ہوگئے۔ فرنٹ سیٹ پر خالد صاحب اور عامر صاحب برا جمان تھے جبکہ سب سے آخری نشت پر پرنسپل صاحب تینوں خواتین کی رفاقت میں بیٹھے ہوئے تھے جبکہ درمیانی نشستوں پر طلبہ موجود تھے جو آج اپنے موڈ کو خوشگوار بنانے کے لئے بطور خاص اس پروگرام میں شریک ہوئے تھے۔ جیسے ہی ویگن لاہور سے باہر نکلی تو آہستہ آہستہ دبکے ہوئے لڑکوں میں جنبش پیدا ہونے لگی۔ ان کے دلوں میں دبی ہوئی شرارتیں انگڑائیاں لینے لگیں لیکن الطاف صاحب کی موجودگی میں کسی کو بھی ہمت نہ تھی کہ وہ اپنی شرارت سے دوسروں کو محظوظ کرے۔ کچھ دیر اسی کشمکش کے بعد احمر نے شرارت کا پہلا پتھر مارا حالانکہ اس کا نشانہ کوئی لڑکا ہی تھا لیکن خاموشی کے سمندر میں یہ پہلا پتھر ضرور تھا۔ الطاف صاحب کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میرے قریب بیٹھا ہوا منور بھی شرارتوں کے سمندر میں گود پڑا، ایسیحالت میں کالج میں بالکل نو وارد طالب علم عباس کیسے خاموش رہ سکتا تھا جو پہلے پہل تو احمر کی آغوش میں شرارت کرتا رہا اور پھر آہستہ آہستہ ایسا کھلا کہ اسے بند کرنا یعنی روکنا ایک مسئلہ بن گیا۔ زبردست شرارتوں کے عالم میں سفر بہت تیزی سے کٹ رہا تھا لیکن بعض اوقات شرارتیں بے حیائی کا روپ بھی دھار لیتی تھیں جو اس ویگن میں بیٹھی ہوئی خواتین کی طبیعت پر گراں گزر رہی تھیں جبکہ الطاف صاحب بھی جن کی گفتگو ہمیشہ شائستگی سے لبریز ہوتی تھی۔ یوں کہئے کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں لیکن یہاں فرشتوں کے وضو کرنے کا کوئی موقعہ نہیں تھا نوجوان بپھر چکے تھے اور ان کی شرارتیں عروج پر تھیں، اب نہ اساتذہ کا امتیاز باقی رہا تھا نہ ہی طالب علموں کا ۔ ان تین چار شرارتی لڑکوں نے سب کے ناک میں دم کر دیا میرے جیسے عمر رسیدہ طالب علم تو اپنی عزت بچائے خاموشی سے تماشے دیکھ رہے تھے کیونکہ جہاں اساتذہ کا تمسخر اڑایا جا رہا تھا وہاں میری کیا حیثیت تھی۔ میرے قریب ہی بیٹھا ہوا منور بار بار پان طلب کر رہا تھا لیکن اس کی آواز خالد صاحب کو متاثر نہیں کر پارہی تھی اس لئے وہ چلاتا ہی رہا۔

دس بجے کے قریب ہم چھانگا مانگا جنگل کے ٹرام اسٹیشن پر پہنچ گئے ۔ سب شرکا کی خواہش تھی کہ ٹرام کے ذریعے جھیل تک پہنچا جائے اس طرح جنگل کی سیر بھی ہو جائے گی اور ساتھ ساتھ موسم کا مزا بھی آ جائے گا۔ لمبی لمبی قطاروں کے درمیان میں بنی ہوئی سڑک پر جب ویگن رکی تو ٹرام اسٹیشن پر تالے لگے نظر آئے جو حیرانگی کا باعث بنے۔ چند نوجوانوں نے وہاں موجود لوگوں سے پوچھا کہ ٹرام کب آئے گی تو انہوں نے بتایا کہ قریب قریب اس کے آنے کے امکانات نہیں۔ شاید دوپہر کے بعد جھیل تک پہنچے گی۔ الطاف صاحب کے مشورے سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ مہتابی جھیل تک بذریعہ ویگن ہی سیسفر کیا جائے شام کو واپسی ٹرام کے ذریعے ہو جائے گی۔

چنانچہ اس فیصلے کے پیش نظر ہم اس سڑک پر چل پڑے جو مہتابی جھیل کی جانب جاتی تھی۔ سڑک کے دونوں جانب سر سبزو شاداب درختوں کی لمبی قطاریں تھیں پھر جب ہم شمال کی جانب مین سڑک سے مڑ گئے تو بائیں جانب ایک اجڑی اور اداس سی نہر بہنے لگی اور ساتھ ساتھ جنگل کے سوکھے ہوئے درختوں کی قطار چلنے لگی۔ ایک مرتبہ بھولنے کے بعد جب ہم مہتابی جھیل پر پہنچے تو گیارہ بج چکے تھے اور جھیل کے ارد گرد بہت کم لوگ دکھائی دے رہے تھے اور وہ بھی شاید مقامی ہی ہوں۔ چونکہ آج جمعرات تھی اس لئے بہت کم لوگ یہاں سیر و سفریح کی غرض سے آئے تھے۔

سامان ایک جگہ رکھنے کے بعد تصاویر بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب ہم گروپ کی شکل میں مہتابی جھیل کے ’’جھولا پل‘‘ سے گزرنے لگے تو شرارتی لڑکوں نے جھولے کو اس قدر زور سے ہلایا بعید نہیں تھا کہ ہم میں سے کوئی جھیل میں گر جائے۔ پل پر موجود خواتین کی تو چیخیں نکل گئیں جن سے متاثر ہو کر قریب ہی بیٹھے ہوئے افراد نے ان شرارتی لڑکوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔ بہر کیف جھیل کے ارد گرد چکر لگا کر تصاویر بنا لی گئیں پھر واپس آ کرکرکٹ کھیلنے کا پروگرام بنا۔ اس مقصد کے لئے دو ٹیمیں تشکیل دی گئیں جن میں سے ایک کا کپتان خالد اور دوسری کا عامر تھا۔ مقابلہ شروع ہو چکا تھا اس انوکھے کرکٹ میچ میں دو خواتین بھی حسب توفیق حصہ لے رہی تھیں ولسن اور عامر کی بیٹنگ نمایاں رہی جبکہ بہترین کیپنگ افتخار نے ہماری جانب سے کی۔ پرنسپل صاحب کو بھی بیٹنگ کا موقع دیا گیا جو اپنی بیگم کی موجودگی میں بیٹنگ کرنے سے ہچکچا رہے تھے لڑکوں کے مجبور کرنے پر وہ پگڈنڈی پر ، جس پر باؤلنگ اور بیٹنگ ہو رہی تھی کھڑے ہو کر کھیلنے لگے لیکن ان کے کھیل میں حجاب کا عنصر غالب تھا ایسی صورت حال میں حجاب ہوتا بھی ہے کیونکہ ایک طرف بیگم بیٹھی ہوئی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی اور دوسری جانب کالج کے تمام طالب علم موجود تھے بلکہ وہ باؤلنگ کے ساتھ ساتھ فیلڈنگ کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔ بہر کیف وہ چند گیندیں کھیلنے کے بعد ریٹائر ہو گئے۔ اس کے بعد ہماری ٹیم کے کھیلنے کی باری آئی ہماری جانب سے بھی لڑکے خوب کھیلنے لگے بالخصوص شفاقت صاحب کو میں نے کرکٹ کے میدان میں جوہر دکھاتے ہوئے پہلی مرتبہ دیکھا۔ یہاں پر موجود دو خواتین بھی اپنی بساط سے بڑھ کر اچھل کود کر کے انجوائے کر رہی تھیں لیکن چونکہ کرکٹ کے کھیل میں ہماری خواتین کی شرکت جزوی تھی کیونکہ انہیں تھکاوٹ کا جلد احساس ہونے لگتا۔

ہماری ٹیم ابھی اپنی باری لے ہی رہی تھی کہ ہمارے کپتان خالد صاحب نے مخالف ٹیم کے غلط فیصلوں سے تنگ آ کر بقیہ میچ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ جس پر چند لڑکوں نے بالخصوص جاوید صاحب اور میں نے احتجاج بھی کیا کیونکہ ہمارے ارمان تو ابھی دل میں ہی تھے کہ تمام لڑکے کھانے پر جھپٹ پڑے۔ خالد صاحب اور عامر صاحب اچھے منتظم کی طرح سب میں کھانا تقسیم کر رہے تھے پرنسپل صاحب نے کھانا اپنی اہلیہ کے ساتھ کھایا جبکہ عمرانہ اور حسیبا نے اکھٹے کھانا کھایا۔ میرے ’’رفقائے طعام‘‘ شفاقت صاحب اور ولسن تھے چونکہ مجھے شفاقت صاحب سے خاصا قلبی لگاؤ تھا اس لئے میری بھی کوشش تھی کہ میں ان کے قریب رہوں اور شفاقت صاحب بھی مجھ سے دور نہیں جانا چاہتے تھے چنانچہ اس ہم آہنگی نے ہمیں ایک دوسرے کے بالکل قریب کر دیا۔

جب کھانا کھا چکے تو لڑکے مختلف ٹولیوں کی صورت میں وسیع و عریض میدان میں بکھر گئے۔ چند جھولا پل کے قریب تاش کھیلنے میں مصروف ہوگئے۔ افتخار ، منور اور عمرانہ تھوڑی ہی دور درختوں کے نیچے بیٹھ کر اپنی گٹار سے دھنیں بجانے اور سننے مشغول ہوگئے۔ جس جگہ پر کھانا اور پھل پڑا ہوا تھا وہاں صرف میں اور کالج کا ملازم سلیم ہی رہ گیا تھا میں چونکہ کرکٹ کھیل کر نہیں، صرف دیکھ کر ہی تھک چکا تھا اس لئے چہل قدمی کی جانب زیادہ توجہ نہ دی بلکہ ایک ہی جگہ بیٹھ کر آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہیں ایک دیہاتی بزرگ بانسری بجا رہے تھے جس کی آواز نے جنگل میں منگل کا سماں پیدا کر دیا بانسری کو قریب سے سننے کو جی چاہ رہا تھا۔ بہرکیف بانسری سے بہت محظوظ ہوئے۔

اس بات سے تو میں بالکل بے خبر تھا کہ شفاقت صاحب، چند دوسرے ساتھی موٹر بوٹ پر مہتابی جھیل کی سیر کر رہے ہیں جب اچانک ان کی بوٹ ہمارے قریب سے گزری تو میرے پاس موجود لڑکے خراب ’’آلو بخارے‘‘ ہاتھوں میں لئے ان کو مارنے کے لئے بھاگے بلکہ کئی مونہہ زور لڑکوں نے تو یہ دیکھے بغیر کہ بوٹ میں کئی اور لوگ بھی سوار ہیں جارحانہ فائرنگ شروع کر دی۔ تھوڑی ہی دور بیٹھے ہوئے الطاف صاحب بھی لڑکوں کی اس حماقت پر مسکرار رہے تھے ہمارے لئے تو یہ محض مذاق تھا لیکن جن کو آلو بخارے لگے وہ یقنا اس جگہ کو سہلاتے ہوں گے ۔ اس کے بعد لڑکوں نے پیش بندی یہ کی کہ جب دوبارہ کشتی ادھر سے گزرے تو نصف کریٹ آلو بخاروں سے بھرا ہوا ان پر فائر کر دیا جائے۔ چنانچہ کسی دوسری کشتی کو ادھر آتے دیکھ کر لڑکے وہ کریٹ اٹھا کر جھیل کی جانب دوڑ پڑے لیکن قریب جا کر انہیں احساس ہوا کہ وہ جس کشتی کے منتظر ہیں یہ وہ نہیں ہے۔ اگر بغیر دیکھے ہی وہ حملہ کر دیتے تو یقینا جھگڑا ہو نے کا امکان تھا۔

آج لنچ کے منتظمین اتنا کھانا اور پھل لے کر آئے تھے کہ اسے دیکھ کر ہمارا پیٹ بھر گیا خواہش اور تمنا رکھنے کے باوجود بھی کوئی چیز گلے سے اترنے کا نام نہ لیتی تھی۔ آم اتنے میٹھے تھے کہ جی چاہتا تھا کہ مسلسل کھاتا رہوں لیکن پیٹ میں گنجائش نہ تھی آڑو چونکہ کڑوے تھے اس لئے اسے کھانے میں عافیت نہ سمجھی۔ ہاں آلو بخارے وہ بھی موٹے موٹے لذیذ لگ رہے تھے۔

اتنے میں دو بجے دوپہر کا وقت ہوچکا تھا قریب ہی مسجد ہونے کے باوجود اذان کی آواز نہ سنائی دے رہی تھی چنانچہ اس ڈر سے کہ کہیں میری سستی اور کاہلی کی وجہ سے نماز ظہر ہی قضا نہ ہو جائے میں خود بخود قافلے کے رہنما عامر سے اجازت لے کرمسجد کی جانب چل پڑا۔ مسجد کی طرف جاتے ہوئے مجھے خاصی تھکاوٹ کا احساس ہورہا تھا جب میں مسجد میں پہنچا تو نماز پڑھنے کے لئے سر پر مسجد کی ٹوپی رکھی تو اس میں کچھ ہلچل سی محسوس ہوئی۔ جب بات حد سے بڑھ گئی تو میں نے ٹوپی اتار دی تو اس سے چپکلی کا بچہ نکلا۔ فوراً خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے بہت بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے۔ مسجد میں ہر طرف ویرانی سی دکھائی دے رہی تھی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے یہاں کوئی انسان آیا ہی نہیں۔ مسجد کے صحن میں ہر طرف گردو غبار سا جما ہوا تھا تنکے دور و نزدیک بکھرے پڑے تھے۔ بہر کیف جب میں نماز کے بعد واپس اپنے مسکن کی جانب آ رہا تھا تو ٹرام ٹرین آ چکی تھی اس کی اداس کوگ سے پورا جنگل گونج اٹھا تھا معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ ٹرام شام ساڑھے پانچ بجے واپس جائے گی اس کی فوری روانگی کی ایک ہی صورت ہے کہ اس کے خالی ڈبے بک کروا لئے جائیں۔ اسی اثنا میں آسمان پر بادلوں کے آوارہ ٹکڑے دکھائی دیئے ان کی وجہ سے دن کے وقت بھی اندھیرے کا احساس ہونے لگا۔ جب میں اس جگہ پہنچا جہاں سب مل کر آم کھا رہے تھے تو بارش شروع ہوگئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بارش نے اپنی رفتار بڑھا لی۔ ہم تو بھیگ ہی رہے تھے ہمارے پرنسپل صاحب اور ان کے ساتھ تین خواتین بھی بارش کی زد میں تھیں۔ حالات کا مشاہدہ کرتے ہوئے پرنسپل صاحب نے یہاں سے کوچ کرنے کا حکم دیا اور پناہ کے لئے جھولا پل کے اس پار کینٹین کو منتخب کیا گیا جب ہم بھیگتے ہوئے پل کے اس پار پہنچے تو بارش تھم گئی اب کینٹین میں جانا فضول تھا اور جی چاہا کہ کھلی فضا میں موسم کی خوشگواری کا لطف اٹھایا جائے۔ چنانچہ ہم سامان لے کر ٹرام کے پلیٹ فارم پر آگئے اور خواتین مزید چہل قدمی کے لئے جھیل کے ساتھ ساتھچلنے لگیں، جب ٹرام کی بکنگ مکمل ہوگئی اور چلنے کے امکانات پیدا ہوگئے تو چہل قدمی میں مصروف خواتین کو بھی بلوالیا گیا۔

ٹرام میں بیٹھتے ہی زور داربارش ایک بار پھر شروع ہوگئی چھت تو یقینا ہمارے سر پر موجود تھی لیکن دونوں اطراف سے بارش ہمیں ٹرام میں بیٹھے ہوئے بھی بھیگو رہی تھی۔ ہمارے ڈبے میں کوئی خاتون نہیں تھی لیکن اگلے اور پچھلے ڈبے خواتین سے بھرے پڑے تھے۔ عباس نے یہاں بھی بعض ایسی نازیبا حرکات کیں جس پر مجھے اسے کچھ سمجھانا پڑا۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے شفاقت صاحب کے کپڑے مسلسل بھیگ رہے تھے کیمرہ ان کے ہاتھ میں تھا وہ تیزی سے اٹھے اور ٹرام سے نیچے اتر کر تصویر بنانے لگے ۔ تصویر بنا کر تیزی سے بھاگتے ہوئے ٹرام پر سوار ہوگئے۔ اس دیکھ کر عباس سے بھی نہ رہا گیا اس نے بھی ٹرام سے چھلانگ لگادی اور انجن پر سوار ہو کر سگریٹ سلگانے لگا۔ میرے بائیں جانب بیٹھے ہوئے منور کو کہاں چین تھا پسینے سے شرابور وہ بھی اپنی ہانکے جار ہا تھا اتنے میں جاوید صاحب اور ولسن صاحب نے مشاعرے کی محفل جمالی۔ پھر کیا تھا ڈبے میں موجود دوسرے لڑکے بھی اس مشاعرے میں کود پڑے اور اوٹ پٹانگ شعروں کی بارش شروع ہوگئی۔ ادھر ٹرام چھک چھک کرتی ہوئی زبردست بارش میں جنگل کے درمیان سے گزر رہی تھی میں تو دونوں جانب نظر دوڑا کر جنگل کا خوب نظارہ کررہا تھا کہیں کہیں جانور دکھائی دے رہے تھے لیکن جنگل میں انسانوں کا کوئی وجود نظر نہ آیا۔زندگی میں پہلی بار جنگل کی سیر کرنے کا موقعہ میسر آیا تھا اس لیے خوب انجوائے کرنا چاہتا تھا۔ جب ٹرام اپنے اسٹیشن پر آ کر رکی تو اس وقت بھی ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ سامان اٹھا کر ہم سب ٹرام اسٹیشن کے برآمدے میں آ پہنچے جہاں پہلے سے چند اوباش قسم کے لوگ تاش کھیلنے میں مصروف تھے ابھی ہم ویٹنگ روم کا دروازہ کھولنے کے لئے ذمہ دار افراد کی تلاش میں تھے کہ ایک ذمہ دار نے خود ہی ویٹنگ روم کا دروازہ کھول دیا اور ہم بہت سکون سے اندر داخل ہو کر بینچوں پر بیٹھ گئے جن کو جگہ نہ ملی وہ ٹرام اسٹیشن کے باہر برآمدے میں بارش کا نظارہ کرتے رہے۔ اس اسٹیشن کے بالکل سامنے سے چونیاں جانے والی سڑک گزرتی ہے جس پر ٹریفک بارش کی پروا کئے بغیر جاری وساری تھی ارد گرد سبزہ ہی سبزہ تھا سڑک کے دونوں جانب دراز قد درختوں کی لمبی قطار تھی جن کے پتے بارش کی وجہ سے دھل کر اور بھی سبز ہو چکے تھے۔

میرے اور الطاف صاحب کے مشورے سے یہاں پر دو گروپ فوٹو بنائے گئے۔ پھر ویٹنگ روم میں آ کر الطاف صاحب نے افتخار کی گٹار کو دیکھ کرکہا کہ سارے دورے میں اس کا استعمال نہیں دیکھا اگر تم اسے ساتھ لائے ہی ہو تو کوئی گانا گا کر سناؤ، شاید افتخار، الطاف صاحب کے اشارے کا ہی منتظر تھا وہ گانے کے لئے فوراً مان گیا اور دھیمی آواز میں گٹار کو بغل میں دبائے گانے لگا اس کی آواز اور گٹار کی گنگناھٹ میں بہت کم فرق محسوس ہو رہا تھا کبھی کبھی کوئی لفظ سمجھ آ جاتا ورنہ افتخار کی بند آنکھوں اور چہرے پر اداسی دیکھ کر اس کے دل کی کیفیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا تھا شاید وہ گاتے ہوئے یہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کے سامنے اس کا محبوب بیٹھا ہوا ہمہ تن گوش اس کا مدھر نغمہ سن رہا ہے لیکن حقیقت میں محبوب تو سامنے نہیں تھا الطاف صاحب اور ہم موجود تھے۔ کچھ لڑکے افتخار کی کیفیت دیکھ نہ سکے اور کمرے سے باہر چلے گئے۔ اس کے بعد الطاف صاحب نے باقی لڑکوں کے اصرار پر ولسن کو گانے کی دعوت دی۔ ولسن کا نغمہ واقعی سوز میں ڈوبا ہوا تھا اس کے گیت میں بھرپور اعتماد تھا آواز میں میٹھا پن موجود تھا دو نغمے ولسن صاحب نے سنائے اور محفل کو لوٹ لیا۔ اگر یہ کہا جائے ولسن صاحب نے آج کے پروگرام کو اپنی میٹھی آواز کے ذریعے مزید خوشگوار بنا دیا تھا تو بے جانہ ہوگا۔

ادھر ویگن جس کے ذریعے ہم نے لاہور واپس روانہ ہونا تھا چار بجے کا وقت دیا تھا،پانچ بجنے کو تھے ویگن ابھی تک یہاں نہیں پہنچی تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد ویگن چونیاں کی طرف جاتی ہوئی دکھائی دی۔ ویگن ڈرائیور نے اشارے سے بتایا کہ وہ پندرہ منٹ تک واپس آ رہا ہے۔

بالآخر سوا پانچ بجے ویگن کے آنے پر ہم سب اس میں سوار ہو کر لاہور پہنچ گئے۔ یوں یہ خوشگوار سفر اختتام پذیر ہوا۔

یاد رہے کہ یہ آرٹیکل چھبیس سال پرانا تو ہے لیکن میں اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتا کیونکہ اس میں میری جوانی کے کتنے واقعات شامل ہیں ۔میں جب یہ کہانی پڑھتا ہوں تو جوان زندگی کی رعنائی ایک بار پھر شدت سے لوٹ آتی ہے۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 659924 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.