صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال کی تحصیل شکرگڑھ سے تعلق رکھنے
والے محسن انسانیت ، ماہرقانون اور بزرگ سیاستدان چودھری انورعزیز چند روز
قبل اس دنیا فانی سے پردہ کرگئے ۔ چودھری انور عزیز نے پاکستانی قوم کے نصب
العین کی پر خلوص ترجمانی کی۔ چودھری انور عزیز کی وفات اہل پاکستان کے لیے
بھی صدمے کا باعث ہے۔چودھری انور عزیز محسن انسانیت ، ایک دراز قد قانون
دان، بزرگ سیاست دان اور گوجربرداری میں اہم مقام رکھتے تھے۔ پیدائشی ذہین
اور یاداشت بے پناہ جو بسااوقات اکبر کے نورتن ،ابوالفضل، سے منسوب قصوں پر
اعتبار کرنے کومجبور کردیتی۔علم وادب سے جبلی محبت کے علاوہ چودھری صاحب
تیرا کی اور باکسنگ کے زبردست کھلاڑی بھی تھے۔ 1945ء میں گورنمنٹ کالج
لاہور میں داخل ہوئے۔قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ ملک کی اولمپک کھیلوں
میں نمائندگی کے لئے جو ٹیم تیار ہوئی چودھری صاحب اس کے نمایاں رکن تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ امریکہ میں قانون کی تعلیم مکمل کی تو محض اپنی قابلیت
اور علم کی بدولت یہ ’’دیسی‘‘ ریاست کیلیفورنیا کا ڈسٹرکٹ اٹارنی منتخب
ہوگیا۔ اس ریاست کے مکینوں کا دیرینہ گلہ تھا کہ امریکی دریا Coloradoکے
پانی میں انہیں ان کے حق کے مطابق حصہ نہیں دیا جارہا۔چودھری صاحب ان کی
شکایت امریکہ کے سپریم کورٹ کے روبرو لے گئے۔وہاں کے ججوں نے 27سالہ وکیل
کو درشتی سے ’’اطلاع‘‘ دی کہ اس کے پاس تو سپریم کورٹ کے روبرو دلائل دینے
کے اہل بنانے والالائسنس ہی موجود نہیں ہے۔بالآخر ’’سینئر وکلا‘‘ پر مشتمل
ایک نئی ٹیم تیار کرنا پڑی۔ کیلیفورنیا کو اس کے حق کے مطابق پانی کے حصول
کی حمایت میں تمام تر دلائل مگر چودھری انور عزیز صاحب ہی نے بطور
Consultantتیار کئے۔ ریاستوں کے مابین دریائی پانی کی تقسیم کے حوالے سے وہ
دلائل اب امریکہ کی نصابی کتابوں میں درج ہوچکے ہیں۔ایسے شاندار آغاز کے
ساتھ چودھری انور عزیز یقینا امریکی سیاست میں کملا ہیرس سے کئی دہائیاں
قبل ہی ’’تاریخ‘‘ بناسکتے تھے۔
1960ء کی دہائی شروع ہوتے ہی وہ مگر چھٹی گزارنے پاکستان آئے تو ان کے والد
نے بہت پریشانی سے چند تلخ حقائق کا ذکر کیا۔ان کا بنیادی دْکھ یہ تھا کہ
شکر گڑھ کے چند بااثر افراد اپنے تسلط کو توانا تر بنانے کے لئے غریب
ولاچار لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسوادیتے ہیں۔ انور عزیز کو لہٰذا اپنی
وکالت کیلیفورنیا کے باسیوں کو ان کا حق دلوانے کے لئے نہیں بلکہ شکرگڑھ کے
غریبوں کے تحفظ کے لئے بروئے کار لانا چاہیے۔ چودھری صاحب نے عاجزانہ فریاد
کی کہ محض وکالت ہی بے بسوں کے کام نہیں آئے گی۔ انہیں سیاست میں بھی حصہ
لینا ہوگا۔ اپنی امریکی اہلیہ سمیت وہ فی الفور شکرگڑھ منتقل ہوگئے۔نازونعم
میں پلی Cathyبی بی نے حیران کن انداز میں خود کو مقامی پسماندگی کے ساتھ
خوش دلی سے Adjustکرلیا۔ ان کی ٹھیٹھ پنجابی اور لہجہ اجنبیوں کو شسدر
بنادیتا۔
اپنے والدکی اجازت سے چودھری صاحب نے 1962ء میں ان دنوں کے مغربی پاکستان
کی صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔نواب امیر محمد خان
آف کالا باغ ون یونٹ کے بہت ہی بااختیار گورنر ہوا کرتے تھے۔ ان کی مرضی کے
بغیر کم از کم آج کے پنجاب میں پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا تھا۔چودھری صاحب
ان کی منشاء اور سرپرستی کے بغیر ’’نمودار‘‘ ہوگئے۔کالا باغ کے نواب جلال
میں آگئے ۔ نوجوان امیدوار کو جھوٹے مقدمات کے قیام سے قابو میں لانے کی
کوشش ہوئی۔ریاستی جبر کا جبلی دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے چودھری صاحب مگر
صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ اس کے بعد حقیقی معنوں میں صرف ایک بار
1970ء میں وہ پیپلز پارٹی کے طلسم کی وجہ سے انتخابی شکست سے دو چار ہوئے۔
1990ء اور 93ء میں ان سے ’’جیت‘‘ چرائی گئی تھی۔ اپنے فرزند دانیال عزیز کو
لیکن انہوں نے 1997ء کے قومی اسمبلی کے انتخاب کے دوران نواز شریف کے
’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کے مقابلے میں بطور ’’آزاد‘‘ امیدوار منتخب کروالیا۔شکرگڑھ
سے ان کی دائمی محبت کامیاب وکامران رہی۔ یہ محبت 2018ء کے انتخاب کے دوران
ان کی بہو مہناز دانیال عزیز کی کامیابی کی بدولت مزید اجاگر ہوئی۔
چودھری انور عزیز صاحب کی جبلت میں متاثر کن قوت سے موجود دلیری سے حقیقی
آشنائی میری 1985ء میں ہوئی۔8 برس تک پھیلے تادیبی مارشل لاء کے بعد جنرل
ضیاء نے اس برس ’’غیر جماعتی انتخابات‘‘ کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلیاں
بحال کرنے کا فیصلہ کیا تو چودھری صاحب قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔حلف
اٹھانے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں بتایا کہ نوجوان اور کسی
بھی ایوان میں پہلی بار منتخب ہوئے افراد کی بے پناہ اکثریت دنیا کو کسی نہ
کسی صورت یہ دکھانا چاہ رہی ہے کہ وہ جنرل ضیاء کی کٹھ پتلیاں نہیں۔
بزرگ کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء فیصلہ کرچکے تھے کہ ان کی جانب سے مجلس شوریٰ
کے چیئرمین لگائے خواجہ صفدر مرحوم ہی بحال ہوئی قومی اسمبلی کے سپیکر ہوں
گے۔چودھری صاحب نے وفورِ جذبات میں اعلان کردیا کہ ’’ہم اپنا سپیکر‘‘ منتخب
کروائیں گے۔ان کی بڑھک کو میں نے سیاست دانوں کی روایتی یاوہ گوئی شمار
کیا۔ چودھری صاحب مگر انتہائی استقامت سے اپنے عہد پر ڈٹ گئے۔نئے سپیکر کو
منتخب کروانے کی کاوش میں بلکہ مجھے بھی اپنا ’’شریک جرم‘‘ بنالیا۔ یٰسین
وٹو کے بجائے بالآخر سید فخر امام ’’ہمارے امیدوار‘‘ کیوں ہوئے یہ کہانی
پھر سہی۔ سید فخر امام تاہم بھاری اکثریت سے منتخب ہوگئے۔جنرل ضیاء نے ان
کے انتخاب کو ’’بغاوت‘‘ شمار کیا اور چودھری صاحب اس ضمن میں ’’مرکزی
سرغنہ‘‘ قرار پائے۔
جنرل ضیاء کو میسر معلومات کی بنیاد پر چودھری انور عزیز محمد خان جونیجو
مرحوم کی بنائی کابینہ کا اہم ترین رکن ہونے کی حیثیت میں مزید ’’ناقابلِ
برداشت‘‘ محسوس ہونا شروع ہوگئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد
جب اپریل 1986ء میں وطن لوٹیں تو جونیجو حکومت کو ان کے جلسوں اور جلوسوں
کوکشادہ دلی سے برداشت کرنے کو مائل کرنے میں چودھری صاحب نے کلیدی کردار
ادا کیا تھا۔شریف الدین پیرزادہ کی ’’جادوگری‘‘ کو بروئے کار لاتے ہوئے
منتخب اراکین کو آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے ذریعے ’’نااہل‘‘ کروانے کی قوت
بھی ان ہی دنوں آزمانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ ہائی کورٹ نے جہلم سے منتخب ہوئے
راجہ افضل کو ’’نااہل‘‘ ٹھہراکر چودھری الطاف حسین مرحوم کو حلف اٹھانے کا
اہل ٹھہرایا۔ چودھری انور عزیز نے تن تنہا دن رات ایک کرتے ہوئے اس ’’وار‘‘
کو بے تحاشہ سیاسی اور قانونی حربے استعمال کرتے ہوئے ناکارہ بنادیا۔ان
دنوں کے سپریم کورٹ نے ’’صادق اور امین‘‘ والی شرائط کی محدوددات کو تسلیم
کیا۔ افتخار چودھری کی بطور چیف جسٹس بحالی کے بعد مگر شریف الدین پیرزادہ
کا ایجادکردہ یہ ہتھیار بے دریغ انداز میں استعمال ہونا شروع ہوگیا۔ خود کو
’’ریٹائر‘‘ سیاست دان کہتے چودھری صاحب اس کی بابت مرتے دم تک تلملاتے رہے۔
چودھری انورعزیز کی وفات پاکستانی قوم کے لئے ایک مخلص بھائی اور عزیز دوست
کا بچھڑنا ہے۔ اﷲ تعالیٰ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور
انہیں جنت الفردوس میں انبیا، صدیقین، شہدا ء اور نیک لوگوں کا ساتھ عطا
کرے۔ چودھر ی انور عزیز کی وفات پاکستانی قوم کے لیے ناقابل تلافی نقصان
ہے۔
|