خدا کا شکر ہے میں صحافی نہیں ہوں

حال ہی میں پراسرار طریقے سے اسلام آباد کے مضافات میں قتل ہونے والے صحافی سلیم شہزاد سے میری آخری ملاقات چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں نہیں بلکہ تقریباً بارہ سال پہلے ہوئی تھی جب میں نے تازہ تازہ صحافت چھوڑی تھی اور وہ نیا نیا دنیائے صحافت میں آیا تھا، روزنامہ اسٹار جب اس نے جوائن کیاتھا تو میں اسٹار چھوڑ کر سرکاری ملازمت شروع کرچکا تھا اور اب تک ایک سرکاری ادارے میں ہی ہوں-

وہ اکثر میرے دفتر میں آتا تھا اور دھانسو قسم کی خبر کا تقاضہ کرتا تھا جو ظاہر ہے سرکاری شعبے میں نووارد ہونے کے باعث اُس وقت میرے پاس بالکل نہیں ہوا کرتی تھی کچھ عرصے وہ میرے پاس آتا رہا اس کے بعد اپنی صحافتی ذمہ داریوں میں بہت زیادہ مصروف ہوگیا، دو تین سال بعد پتہ چلا کہ وہ اسٹار کے نمایاں رپورٹرز میں شمار کیا جانے لگا ہے پھر میں نے سنا کہ وہ اسلام آباد شفٹ ہوچکا ہے اور عالمی سطح کی صحافت کرنے لگا ہے-

اس کے بعد میں اپنی سرکاری ملازمت میں اتنا مصروف ہوا کہ کبھی بات چیت کا بھی موقع نہ ملا، ایک ہفتہ پہلے اس کے غائب ہونے کی خبر پڑھی تو یہی سوچا کہ حسب معمول جس طرح صحافیوں کو تفتیش کے لیے اُٹھایا جاتا ہے ایسا ہی کچھ اس کے ساتھ ہوا ہوگا اور یہ کہہ کر دل کو تسلی دی کہ اللہ خیر کرے گا-

دو تین روز بعد جب اس کی موت کی خبر پڑھی تو پیروں تلے زمین نکل گئی، یہ تو میں جانتا تھا کہ وہ انتہائی حساس موضوعات پر بڑی بے باکی سے لکھنے لگا تھا لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ سزا اتنی سنگین ہوگی، جس دن سے وہ اس دنیا سے گیا ہے اُس کا ایک ہی جملہ بار بار یاد آرہا ہے کہ کوئی دھانسو سی خبر دو یار۔

آج میں ایک پکی نوکری کے مزے لوٹ رہا ہوں جہاں جتنا کم سچ بولا جائے اتنا ہی بندہ کامیاب ہے جبکہ وہ سچ کو گلے لگائے اگلے جہاں جا چکا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں صحافیوں کے پے درپے قتل کے بعد میں یہی سوچنے لگا ہوں کہ اگر میں آج دنیائے صحافت میں ہوتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا کا شکر ہے اب میں صحافی نہیں ہوں-
Mujtaba Baig
About the Author: Mujtaba Baig Read More Articles by Mujtaba Baig: 2 Articles with 1421 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.