کسانوں کے آگے سرکار کی شرمسار

سال 2014کے انتخاب سے قبل ایک ویڈیو بنائی گئی تھی اس میں ایک بزرگ اپنے سامنے بیٹھے نوجوان سے پوچھتا ہے بیٹے آگے کیا ارادہ ہے؟نوجوان جواب دیتا ہے کسان کا بیٹا ہوں کھیتی کروں گا ۔ اس پر بوڑھا باپ کہتا ہے کسان تو صرف جوجھنے کے لیے پیدا ہوا ہے۔اسے اپنی محنت کا پھل نہیں ملتا ۔ اس پر نوجوان بڑے جوش وخروش میں بولتا ہے بہت جلد ملے گا ۔ فصل اگانے کا صحیح گیان(معلومات) بھی ، فصل کا صحیح دام بھی اور کسان ہونے کا صحیح مان (احترام) بھی۔ اچھے دن آنے والے ہیں بابا۔ بزرگ حیرت سے پوچھتا ہے وہ کیسے؟ تو جواب ملتا ہے۔ اچھے دن آنے والے ہیں بابا ،مودی جی کو جتائیں گے ۔ بی جے پی کو اکثریت دلائیں گے تبھی اچھے دن آئیں گے ۔

اشتہاری ایجنسی سے ویڈیو بناکر آئی ٹی سیل کے ذریعہ اسے وائرل کرادینا جس قدر آسان ہے اچھے دن لانا اتنا ہی مشکل ہے۔ اس لیے کہ مودی جی توجیت گئے ، بی جے پی کو اکثریت بھی مل گئی لیکن اچھے دنوں کا کہیں دور دور تک نام و نشان دکھائی نہیں دیتا ۔ اچھے دن تو دور اب کسان اپنے وجود کی جنگ لڑنے پر مجبور کردیا گیا ہے ۔ اس کے سامنے سرمایہ داروں کی غلامی منہ کھولے کھڑی ہے۔ اس کو اپنے ہی کھیت میں مالک سے بندھوا مزدور بنانے کی سازش رچی جارہی ہے اوراس کے خلاف وہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ وزیر اعظم بن جانے کے بعداقتدار کی کرسی کے ساتھ اپنے بیاہ کا ہنی مون رچانے کے لیے مودی جی دنیا بھر کی سیر پر نکل کھڑے ہوئے اور یہ سلسلہ ایک سال تک چلا ۔ اس کے بعد جن سرمایہ داروں نے جہیز کا انتظام کرکے یہ بیاہ رچایا تھا وہ اپنا قرض وصول کرنے کا تقاضہ کرنے لگے تو مودی جی نے کسانوں کے کھیت پر ڈاکہ ڈال کر اسے لوٹانے کی کوشش کی ۔

یہ 2015کی بات ہے جب کھیتی خرید و فروخت کے قانون میں زبردست ترمیمات پیش کی گئیں ۔اس طرح سوٹ بوٹ والی سرکار کا سرمایہ دار کے ساتھ گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آیا ۔ مندسور میں کسان احتجاج کرنے کے لیے میدان میں آئے تو شیوراج چوہان کی انتظامیہ نے ان کو گولیوں سے بھون دیا۔ اس کے خلاف ملک بھر کے کسانوں کو میدان میں آنا پڑا۔ پارلیمانی انتخابات میں جوق در جوق بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ دے کر کامیاب کرنے والا کسان یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ وہ ایک ایسا وقت تھا جب بارش نہ ہونے سبب ملک میں قحط سالی منڈلا رہی تھی ۔ ایسے برے وقت میں کسانوں کے زخموں پر مرہم رکھ کر انہیں راحت دینے کے بجائے ان کو اپنی زمین سے بے دخل کرنے کا نیا قانون بناکر نمک پاشی کی گئی۔ دیہی زمینوں پر نئے شہروں کی آبادکاریاور صنعتیترقی کا بہانہ بنا کر زمین کی سرکاری خرید کے قوانین میں تبدیلیاں کی گئیں ۔ اس کے خلاف سڑک سے لے کر سنسد(ایوان پارلیمان ) تک حکومت کو متحدہ اپوزیشن کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اوربالآخر سرکار کو اس کے آگے جھک گئی ۔مودی سرکار نے رسوا ہوکر سارینجی زمینکے بِل سے نئی ترمیمات ہٹا تو دیں لیکن حالیہ واقعات شاہد ہیں کہ اس ذلت سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔

عوام کو سمجھانے بجھانے کے لیے اس وقت اپنے من کی بات میں وزیراعظم نریندر مودی نے کسانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ زمینوں کی خرید کے حکومتی بل کی مخالفت نہ کریں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صنعتی ترقی کے لیے کسانوں کی زمین کی خریدنا آخری حربہ ہے لیکن اس جھانسے میں کوئی نہیں آیا ۔ اس لیے کہ مودی حکومت کے مجوزہ بل میں زرعی زمین کو صنعتی مقصد کے لیے فروخت کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔ اس قانون کی زد میں ملک کے 80 فیصد کسان آسکتے تھے ایسے میں غریبوں کے مفادات کی بلی چڑھا کر حاصل ہونے والی اقتصادی ترقی سرمایہ داروں کے تو مفاد میں تھی لیکن عوام الناس کے لیے سمِ قاتل سے کم نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ راہل گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ یہ غریبوں کی نہیں بلکہ صنعت کاروں کیحکومت ہےکیونکہ مودی جی نے ان سے ہزاروں کروڑ کا قرض لے کر انتخاب جیتا ہے۔ اس قرض کو ملک کی بنیادیں کمزور کر کے چکا نے کی ناکام کوشش کی گئی ۔۔

پانچ سال پہلے جو صورتحال تھی وہی پھر سے لوٹ آئی ہے فرق صرف یہ ہے کہ اب بی جے پی والے کہہ رہے ہیں کسانوں کے اچھے دن کا وعدہ تو 2014 میں تھا 2019 میں نہیں اس لیے اب ہم اس کے پابند نہیں ہیں گویا اب انہیں کسانوں کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ ہے۔ ابتدا میں جس ویڈیو کا ذکر کیا گیا اس میں سب سے پہلے گیان کا ذکر تھا۔ مودی جی بہت گیانی آدمی ہیں اور اپنا گیان موقع بے موقع بانٹتے رہتے ہیں ۔ 2015 کے بدنام زمانہ قانون کو واپس لینے کے بعد بنگلورو میں انہوں نے فرمایا تھا جھوٹ پھیلا نے والوں کو نہیں پتہ کہ کسانوں کے مفادات کی حفاظت کیسے کی جائے؟ کسان اپنی زمین کیسے گنواتا ہے؟ اور وہ کہاں جاتی ہے؟ مودی جی شاید یہ کہنا چاہتے تھے وہ دوسرے کسان کے پاس چلی جاتی ہے اور اب ان کے دوست سرمایہ داروں کے پاس چلی جائےگی اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ وہ آگے بولے میں آسمان سے نہیں ٹپکا بلکہ گاوں میں پلا بڑھا ہوں ۔ میں ان کے مسائل جانتا ہوں ۔ مجھے پتہ ہے کہ ایک کسان اپنے بیٹے کو اردلی یا ڈرائیور کی ملازمت دلانے کے لیے رشوت کی خاطر کھیت بیچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ مودی جی یہی صورتحال اب بھی ہے اور ان کے راج میں حالیہ بین الاقوامی جائزے مطابق رشوت خوری کے باب میں ہندوستان نے ایشیا کے سارے ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
مودی جینے اپنی مذکورہ تقریر میں سوال کیا تھا کسان حکومت کو زمین فروخت کرنے پر مجبور کیے جاتے ہیں کیا ان کی کا تحفظ نہیں ہونا چاہیے ؟ان کے تحفظ کا طریقہ پیدوار بڑھانے کے لیےدرست مشورہ دینا، سینچائی کا بندوبست کرنا اور بہترین بازار کا اہتمام کرنا ہے۔ یہ ساری باتیں درست ہیں لیکن ایسا کرنے کے بجائے وہ کسانوں کا گلا کاٹنے کے لیے نت نئے قانون بنانے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں ۔ وزیر اعظم کو کسانوں کے مسائل کا علم تو ہے لیکن وہ انہیں حل کرنے کے بجائے اپنے محسن سرمایہ داروں کو اس سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ سجھاتے ہیں یا ان کے تجویز کردہ منصوبوں کوعملی جامہ پہناتے ہیں۔ پہلے بھی یہی ہوا اور اب پھر سے یہی ہورہا ہے ۔ بہترین بازار کا دوہرا معیار اس نئے بل میں سامنے آیا کہ سرکاری منڈی میں ٹیکس وصول کیا جائے گا اور باہر اس سے استثنیٰ حاصل ہوگا حالانکہ الٹا ہونا چاہیے کہ جس سرکاری منڈی میں کم ازکم بازار بھاو کالحاظ کرکے کسانوں کو زیادہ قیمت دی جاتی ہے وہاں چھوٹ دی جانی چاہئے اور باہر استحصال کرنے والوں پر ٹیکس لگایا جانا چاہئے لیکن یہاں تو سب کچھ الٹا پلٹا چلتا ہے۔

مذکورہ ویڈیو میں گیان اور دام کے ساتھ سماّن (احترام) کا بھی ذکر ہے۔ اب آئیے دیکھیں کہ بی جے پی کسانوں کاکیسے احترام کرتی ہے۔ پنجاب کے کسان دو ماہ تک مرکزی حکومت کے نئے قانون کی مخالفت میں احتجاج کرتے ہیں تو انہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ وہ یومِ آئین کے موقع پر دہلی میں آکر مظاہرہ کرنے کے لیے نکلتے ہیں تو ہریانہ کی سرحد پرخار دار تار لگا دی جاتی ہے۔ یعنی ملک کے اندر بین الاقوامی بارڈر کا منظر پیش ہوتا ہے۔ اس کے بعد راستے کھود دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ آگے نہ بڑھ سکیں ۔ مرکزی سرکار کی اس قبر کو پھلانگ کر کسان جب آگے بڑھتے ہیں تو ان کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں ۔ سردی کی ٹھنڈی راتوں میں ان پر پانی کی بوچھار ماری جاتی ہے اورنودیپ سنگھ نامی نوعمر کسان جب گاڑی پر چڑھ کر ’واٹر کینن‘ بند کر دیتا ہے تو اس پر قتل کی کوشش کا معاملہ درج کردیا جاتا ہے۔ یعنی کسانوں کو ٹھنڈ سے مرنے سے بچانا قتل کوشش قرار پاتا ہے۔ اس پر بھی مشتعل ہوئے بغیر نڈر نودیپ سنگھ جواب دیتا ہے کہ انھیں اندیشہ ہے حکومت کسانوں کو بڑے کارپوریٹس کے بھروسے چھوڑ دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سبھی کسان سڑکوں پر اتر گئے ہیں اور اپنے حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔

پولس کے عتاب کا شکار ہونے والا انوپ تنہا نہیں ہے۔ ہریانہ پولیس نے کروکشیتر میں دہلی کوچ کرنے والے کسانوں کے خلاف کیس درج کیا ہے۔ ان کے خلاف باریکیڈ توڑنے کے علاوہ ڈیزازٹر منیجمنٹ ایکٹ کی دفعہ کے تحت بھیمقدمہ کیا گیا ہے۔ان اقدام قتل کی دفعات میں 11 کسان رہنماؤں کو نامزد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پہوا علاقہ میں بھی 6 کسان رہنماؤں پر بیریکیڈ توڑنے کے ساتھ ساتھ افسران پر گاڑی چڑھانے اور راستہ روکنے کے الزام بھی لگایا گیا ۔ ان معتوب لوگوں میں بھارتیہ کسان یونین کے ریاستی سربراہ گرنام سنگھ چڈھونی اور ریاستی ترجمان راکیش بینس کے علاوہ چار افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔پنجاب سے احتجاج میں شامل ہونے والے بلبیر سنگھ راجو سمیت ہزاروں نامعلوم کسانوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 114، 147، 148، 149، 186، 158، 332، 375، 307، 283، 120 بی اور ڈیزاسٹر منیجمنٹ ایکٹ کی دفعات 51 بی اور پی ڈی پی کی دفعہ 3 عائد کرکے سرکار نے خود اپنا تمسخر اڑایا ہے ۔ ویسے جانباز کسانوں نے کھٹر یا شاہ کی یہ غلط فہمی ضرور دور کردی ہے کہ وہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ڈرنےیا جھکنے والے ہیں ۔
)۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2075 Articles with 1279403 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.