میرے عہد کے لوگ ناصر کاظمی

 دل تو میرااداس ہے ناصر
شہرکیوں سائیں سائیں کرتاہے
دلوں کو تڑپا دینے والی اداس شاعری کا ذکرہوتو بے ساختہ ہونٹوں پر ناصرکاظمی کا نام مچل مچل جاتاہے بلاشبہ سیدناصرکاظمی نے اردو غزل کو نیا پیرہن عطا کیا برصغیرکے مایہ ناز اور قادرالکلام شاعر8 دسمبر 1925 کو بھارت کے شہر امبالہ میں پیدا ہو ئے تھے، زمانہ طالب علمی سے ہی انہوں نے اپنے تخلیقی سفرکی ابتدا کردی ۔ آپ صحافت اور ریڈیو پاکستان سے بھی منسلک رہے۔ قیام پاکستان کے دوران ہونے والے فسادات اور خصوصاًسقوط ڈھاکہ نے ان کی حساس طبیعت پر گہرے اثرات مرتب کئے جس کااظہار ان کی شاعری میں جابجا بخوبی نظر آتا ہے ۔ ناصر کاظمی نے غزل میں چھوٹی بحر کی شاعری کی روایت کو پروان چڑھایا، ان کی شاعری میں شدت اور کرختگی نہیں بلکہ احساس کی ایک دھیمی جھلک ہے جو روح میں اترتی محسوس ہوتی ہے جو دلوں میں محبت کی جوت جگاتی ہے ۔ ناصر کاظمی نے اپنی ذات جو دکھ محسوس کئے وہ سارے دکھ ہمارے آس پاس بیشتر انسانوں میں موجودہیں انہیں جدید دور کے دکھ بھی قراردیاجاسکتاہے ، ناصرکاظمی نے اپنی شاعری میں استعاروں سے فصاحت و بلاغت کے دریا بہادیئے ا نہوں نے لفظوں کے پیمانوں کی بنیاد عشق پررکھی لیکن اس کے باطن میں اسے ہم آسانی سے محسوس کرسکتے ہیں۔ جب ان کے اشعار سر اور تال کے ساتھ مل کر سماعتوں تک پہنچتے ہیں تو ایک خوش گوار احساس دلوں کوچھو چھو جاتا ہے۔ان کا دردسننے اور محسوس کرنے والوں کو اپنا لگتاہے یہی ان کی شاعری کی معراج ہے۔ ناصرکاظمی کے والد محمد سلطان کاظمی سرکاری ملازم تھے جس کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گزرا تھا۔ انہوں نے میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کیا پھر ان کے والدکا تبادلہ لاہورہوا تو انہوں نے اسلامیہ کالج میں داخلہ لے لیا آئے روز نقل مکانی کے خوف سے انہوں نے ہوسٹل میں رہنے کا فیصلہ کرلیا کہ کم از کم وہ سکون سے تعلیم تو مکمل کرلیں آپ کے استادِ خاص رفیق خاور ان سے ملنے اکثر اقبال ہاسٹل میں جاتے اور دونوں میں گھنٹوں شعر و شاعری پر بات ہوتی اردو اوب اور شاعری میں بڑھتی دلچسپی کے باعث ان کا دل تعلیم سے اچاٹ ہوگیا اور ناصرکاظمی نے بی اے کئے بغیر تعلیم ترک کردی۔ پاکستان معرض ِ وجودمیں آیا تو ناصرکاظمی نے لاہورمیں مستقل ڈیرے ڈال دیئے کیونکہ ان کے خیال میں لاہورکے سیاسی و معاشرتی حالات اور اوبی ماحول انہیں موزوں خیال ہوا جلد ہی انھیں یکے بعد دیگرے والدین کے چل بسنے کا غم بھی جھیلنا پڑا۔ ناصر کاظمی نے عملی زندگی کا آغازہی پہلے ادبی رسالہ ’’اوراق نو‘‘ کی ادارت سنبھال کرکیا پھرآپ 1952ء میں رسالہ‘‘ہمایوں’’کی ادارت سے وابستہ ہوئے۔ 1957ء میں‘‘ہمایوں’’کے بند ہونے پر ناصر کاظمی محکمہ دیہات سدھار سے منسلک ہو گئے۔نہوں نے ریڈیو پاکستان میں اسٹاف ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ وہ ٹی ہاؤس میں بیٹھتا تھا اور اپنے دوستوں کے ساتھ مال روڈ ، لاہور میں گھومتا تھا۔ اسے کھانے ، گھومنے اور زندگی سے لطف اٹھانے کا شوق تھا۔ عام طور پر لوگ اسے ایک اداس شاعر کی حیثیت سے دیکھتے ہیں لیکن ان کی زیادہ تر شاعری رومانوی خوشی اور امید کے پہلو پر مبنی ہے۔ ان کی آخری چار کتابیں ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی تھیں ۔اب وہ مشہورہوچکے تھے پاکستان ٹیلی ویڑن ( پی ٹی وی ) ٹی وی شو کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی بالی ووڈ کئی فلموں میں گیت مقبول ہوئے تو چہارسو ان کی شہرت کے ڈنکے بجنے لگے۔انہوں نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں اپنا لوہا منوایا 1990 میں وہ انگلینڈ میں مقیم ہوگئے جہاں انہیں 1992 میں نارتھ ویسٹ پلے رائٹس ورکشاپ ایوارڈ سے نوازا گیا اور اردو اور انگریزی دونوں شعری اشعار کے ساتھ ان کے طویل ڈرامے بیسات (جس کا عنوان "The Chess بورڈ" ہے) کا ایک مختصر ترجمہ شائع کیا گیا۔ اس وقت وہ چیسٹر یونیورسٹی میں رائل ادبی فنڈ کے فیلو تھے ناصرکاظمی نے شاعری میں خاص طور پر "استعارے" اور "چھوٹی بہر" کے استعمال کو ترجیح دی جو خاصی مقبول ہوئی وہ ریڈیو پاکستان ، لاہور اور دیگر ادبی اشاعتوں اور تنظیموں سے وابستہ رہے۔ ناصر کاظمی کی شاعری کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتاہے وہ شاعر ِ رومان اختر شیرانی سے ہت متاثر نظرآتے ہیں انہوں نے اسی انداز میں رومانوی نظمیں اور سنیٹ لکھیں بعد میں انہوں نے حفیظ ہوشیارپوری کی رہنمائی میں غزلیں لکھنا شروع کیں اس کے بعد ان کا اپنا جداگانہ اسلوب بن گیا وہ میر تقی میر کے بہت بڑے مداح تھے اور غالبا. ان کی شاعری میں خلوت اور "احسان مہرمی" اس کا براہ راست نتیجہ تھا۔ شاعری میں ان کے استاد حفیظ ہوشیارپوری تھے ، جو خود بھی اپنی نظموں میں فطرت سے بہت سی علامتیں استعمال کرتے تھے۔ ناصرکاظمی نے ا پنی وفات سے کچھ دن قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا ، 'گھوڑے پر سوار ہونا ، شکار کرنا ، کسی گاؤں میں گھومنا ، دریا کے کنارے چلنا ، پہاڑوں کی سیر کرنا وغیرہ میرا پسندیدہ مشغلہ تھا اور شاید یہ وہ وقت تھا جب فطرت سے پیار کرنے اور اظہار خیال شاعری کے قریب ہونے کے لئے میرے دماغ کو یہ تحفہ ملا۔ میرے تمام مشاغل فنون لطیفہ سے وابستہ ہیں جیسے گانا ، شاعری ، شکار ، شطرنج ، پرندوں سے پیار ، درختوں سے پیار وغیرہ ... میں نے شاعری کا آغاز اس لئے کیا کہ میں ان تمام خوبصورت چیزوں کی عکاسی کرتا تھا جو میں دیکھ رہا ہوں ، اور فطرت میں میرے ہاتھ میں نہیں ہیں ، اور وہ مجھ سے چلے جاتے ہیں۔ کچھ لمحے ، وہ وقت جو مرجاتا ہے ، اسے زندہ نہیں کیا جاسکتا۔ میرے خیال میں شاعری زندہ ہوسکتی ہے ، اسی لئے میں (ناصر) نے شاعری کا آغاز کیا! ' آج کل ، بہت کم لوگوں کو یہ یاد ہوگا کہ ناصر اپنی شعروں کو گنگنانا بہت زیادہ راغب تھا ۔ وہ 2 مارچ 1972 کو پیٹ کے کینسر کی وجہ سے لاہور میں انتقال کر گئے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے انگریزی شاعروں کے کچھ بڑے ترجمے کیے ، خاص طور پر والٹ وہٹ مین کے "بروکسل گھاٹ کے پار" کے عنوان سے "کراسنگ بروکلین فیری" کا ان کا ترجمہ ایک اصلی شاہکار اور پڑھنے کے قابل ہے۔ ناصر کاظمی کی تصنیفات : بارگِ نے (1952) دیوان (1972) پہل Ba باریش (1975) نشاط ۔ خداب (مجموعہ ناظموں ، 1977) سور کی چھیا (منظور ڈرامہ ، کتھا 1981) خوشک چشمے کے کنارے۔(نثر ، 1982 میں ترمیم شدہ بصیر سلطان کاظمی اور حسن سلطان کاظمی ، نیا ایڈیشن 1990 ، مضامین ، ریڈیو فیچرس ، مکالمے ، ادارتی ، آخری انٹرویو وغیرہ۔ ناصر کاظمی ڈیری (چاند پریشان کاغاز) (خودنوشت ، 1995 مرتب حسن سلطان کاظمی) انتخاب- ای میر (شاعری 1989) انتخاب ِ النظیر (شاعری 1990) انتخاب-ولی دقنی (شاعری 1991) انتخابِ انشا (شاعری 1991) شامل ہیں نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں بال سنواروں کس کے لئے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لئے
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لئے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لئے
اب شہر میں اس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جان غزل ہی نہیں
ایوان غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لئے
مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لئے
بہت مشہور غزل ہے اسی طرح ناصر کاظمی کی نظموں نے بھی بہت داد سمیٹی
خوشگوار پانی بہتا ہوا
گنگناہٹ پرانی پرانے داستانیں۔ یہاں آبادی سے پہلے ایک جنگل تھا۔
تو میں نے لوگوں کو کہتے سنا ہے۔
نقصان
ٹائمز نے ہماری وفاداری کو پھاڑ دینے کی آزمائش پر ڈال دیا ہے۔
آئیے ، پھر ہم اپنے ہاتھ کاٹ لیں۔ آئیے ہم اپنے ہونٹوں کو سلاتے ہیں۔
واقعات نے مجھے بے روح زومبیوں کے درمیان پھینک دیا ہے۔
ان کی آنکھیں چمک نہیں رہی ہیں۔ ان کی باتیں ان کی اپنی نہیں ہیں۔
جوش
ستاروں کی آنکھوں سے آنسو بہنے تک لڑیئے
اے دل ، ابھی تک اپنے گوشت کے پنجرے میں سختی سے شکست دے!
گندگی ہوس وفا کے نایاب جواہرات کے ساتھ ملتی ہے۔
ابھی تک عہد وفاداری کے سامان کی جانچ پڑتال کریں۔
برداشت
اے غم کی فضول خرچی کرنے والے ، صبر کرو!
علیحدہ ہونے والے کارواں کل ملیں گے۔ برداشت!
کوئی نشان سفر کی رہنمائی نہیں کرتا ہے۔ پھر بھی ، ابھی پوری رات باقی ہے۔
ہر لمحے میں ایک آواز بہتی ہے… برداشت کرو!
آرزو
میں اپنے نام پر آپ کے اعلان کا انتظار کروں گا ..
میرے انکار کے جرم کا جرمانہ۔

بے مثل شاعر ناصر کاظمی 1972 میں معدے کے کینسر میں مبتلا ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن ان کے الفاظ آج بھی ہر سو خوشبو پھیلارہے ہیں۔ "برگِ نَے" ’’دیوان‘‘ اور ’’پہلی بارش‘‘ ناصر کاظمی کی غزلوں کے مجموعے اور ’’نشاطِ خواب‘‘ نظموں کا مجموعہ ہے۔ سر کی چھایا ان کا منظوم ڈراما ہے۔ برگِ نَے ان کا پہلا مجموعہ کلام تھا جو 1952ء میں شائع ہوا۔ 2 مارچ، 1972ء کو ناصر کاظمی کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کی قبرپرلگے کتبے پر انہی کا شعرلکھا ہواہے
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہم ساہوگا

2013میں ، پاکستان پوسٹ نے ناصر کاظمی کی یاد میں 15 روپے مالیت کا ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ان کا بیٹا بصیر سلطان کاظمی (پیدائش 1955 ، پاکستان) ایک شاعر اور ڈرامہ نگار ہے سچ یہ ہے کہ ناصر کاظمی جیسے شاعر اردوشاعری کا سرمایہ ہیں ان کانام اور شاعری تاقیامت زندہ رہے گی ان غزلیں پوری دنیا میں آج بھی مشہور ہیں اتنا ترو تازہ کلام ہمیشہ لوگوں کے حافظے میں محفوظ رہتاہے ادبی دوستی کا تقاضاہے کہ اس شاعر بے مثل کے درجات کی بلندی کے لئے اﷲ کے حضور دعاکریں۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 338363 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.