علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ اور ان کی خدمات

آج یعنی 13؍دسمبر کو شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کا یوم وفات ہے۔مرحوم نے تحریک آزادی اور تحریک خلافت میں نمایاں طور پر حصہ لیا اور قیام پاکستان کے لئے بے پناہ خدمات انجام دیں۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح آپ کی خدمات کے بڑے معترف تھے۔ چنانچہ 14؍ اگست 1947ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو قائداعظم کی فرمائش پر پاکستان کی پرچم کشائی کا سہرا آپ ہی کے ہاتھوں سرانجام پایا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی علامہ شبیر احمد عثمانی پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ مارچ 1949ء میں پاکستان کی مجلس دستور ساز نے جو قرارداد مقاصد منظور کی تھی اس کی تیاری میں بھی انہوں نے بڑابھرپور حصہ لیا تھا۔قراردادِ مقاصد علامہ شبیر احمد عثمانی کا عظیم کارنامہ ہے جو تاریخ پاکستان میں ہمیشہ زریں حروف میں لکھا جائے گا۔

آپ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے اس لیے پاکستان میں اسلامی آئین کے نفاذ کے لیے آپ نے عملی اقدام کیا۔ 1949ء کی قائد اعظم محمد علی جناح کی وصیت کے مطابق ان کی نماز جنازہ بھی آپ نے پڑھائی۔

علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ ۱۰ محرم الحرام 1305ھ بمطابق 1889ء میں یوپی کے شہر بجنور میں پیداہوئے۔ وہ دَارُالعلوم دِیوبند کے فارِغُ التحصیل بھی تھے اور ایک طویل عرصہ تک دَارُالعلوم دِیوبند میں دَرس و تدرِیس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ آپ کے وَالد محترم کا نام مولانا فضل الرحمن عثمانیؒ تھا جو دہلی کالج کے تعلیم یافتہ اور اُردُو و فارسی کے بہترین اَدِیب و شاعر تھے۔ وہ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ بانیِ دَارُ العلوم دِیوبند کے رفیق خاص تھے۔ علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن ؒ کے اَرشد تلامذہ میں سے تھے۔ دَارُالعلوم سے سند فراغت ملنے کے بعد اَساتذہ کے حکم اور اَپنی خداداد صلاحیتوں کی وَجہ سے وہیں دَارُالعلوم دِیوبند ہی میں پڑھانا شروع کیا۔

علامہ عثمانی ؒ نے تحریک خلافت اور عدم تعاون تحریک میں حصہ لیا اور ان تحریکوں میں بڑے نمایاں رہے۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کو اَپنے اُستاد شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن ؒ سے سیاست گویا ورثے میں ملی تھی۔ چنانچہ علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ نے بھی دِینی و علمی خدمات کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں بھی اَپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ علامہ شبیر اَحمد عثمانیؒ نے 1911ء سے باقاعدہ طور پر سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ آپ نے اَپنی سیاسی زِندگی کا آغاز جمعیت الانصار کے پلیٹ فارم سے کیا۔ آپ نے تحریک خلافت کے لیے بھی بہت کام کیا۔ ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں آپ کے خطاب نے مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی بیداری میں مرکزی کردار ادا کیا۔ آپ ایک بلندپایہ عالم، خطیب اور مفسر بھی تھے۔ تحریک خلافت کے بعد 1919ء میں جمعیت علمائے ہند کی بنیاد رکھی گئی۔26 اکتوبر1946ء کو علامہ عثمانی نے تحریک پاکستان کے حامی علماء کے ساتھ مل کر جمعیت علمائے اسلام قائم کی جو مسلم لیگ اور اس کے مطالبہ پاکستان کی حامی تھی۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے سرگرم ممبر بھی تھے۔ مسلم لیگ کی آئین ساز کمیٹی کے تین سال تک ممبر رہے۔

آپ قائداعظم محمد علی جناح مرحوم کے دست راست تھے، چنانچہ آپ نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر سرحد ریفرنڈم کے موقع پرصوبے کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا،لوگوں کو قیام پاکستان کی اہمیت سے آگاہ کیا، چنانچہ سرحد کے ریفرنڈم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں علامہ عثمانیؒ کا بنیادی کردار ہے۔ تحریک پاکستان، مسلم لیگ اور قائداعظم کے مشن کو تقویت پہنچانے کے لیے آپ نے ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں کا دورہ کیا اور اپنی بصیرت افروز تقریروں سے مسلمانوں کو بیدار کیا۔

بانی پاکستان کی ناگہانی وفات کے بعد حکومت میں شامل سیکولر لابی ملک کے آئین کو اسلام کے مطابق تشکیل کا وہ وعدہ پورا ہونے میں رکاوٹ ڈالنے لگی جو قائد اعظم کر گئے تھے۔ مولانا شبیراحمد عثمانی اور ان کے رفقاء نے سر توڑ کوشش کرکے اس سازش کا راستہ روکا۔ یہ کوششیں رائیگاں نہ گئیں اور 21 مارچ 1949ء کو مجلس دستور ساز نے قرار دادِ مقاصد منظور کرلی۔ مولانا شبیراحمد عثمانی نے اس کے فوراً بعد اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے اسلامی دستور کا خاکہ مرتب کرنے کی کوشش شروع کردی جس میں مفتی محمد شفیع اور مولانا ظفراحمد انصاری جیسے علماء ان کے معاون تھے۔ یہ کام جاری تھا کہ 13 دسمبر1949ء کو مولانا شبیراحمد عثمانی بھاولپور میں مختصر علالت کے بعد وفات پاگئے۔

آپ کی میت کراچی لائی گئی، جہاں اگلے روز 14؍ دسمبر 1949ء کو انہیں اسلامیہ کالج کے احاطے میں دفن کردیا گیا۔ ان کی نماز جنازہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ نے پڑھائی تھی۔
علامہ شبیر احمدؒ عثمانی ایک ایسی جامع الکمالات شخصیت تھے جو بیک وقت اپنے دور کے بہت بڑے محدث، مفسر، متکلم، محقق اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ بصیرت سیاستدان بھی تھے اور انہوں نے علم و فضل کے ہر شعبہ میں اپنی مہارت اور فضیلت کا لوہا منوایا۔

مولانا شبیراحمد عثمانی کی زندگی کا ایک پہلو خالص علمی و تحقیقی ہے۔ انہوں نے اپنے استاذ شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اﷲ کی مالٹا جیل میں سورۃ النساء تک لکھی گئی تفسیر کو اس خوبی سے مکمل کیا کہ بڑے بڑے علماء متحیر رہ گئے۔ آج علمی حلقوں میں قرآن کریم کے متداول تراجم اور حواشی میں جو حیثیت اور اعتماد تفسیرِ عثمانی کو حاصل ہے وہ علامہ عثمانی کی علمی عظمت کا زندہ ثبوت ہے۔وہ ایک عظیم محدث اور شارحِ حدیث بھی تھے۔ صحیح مسلم کی عربی شرح فتح الملہم ان کا لازوال کارنامہ ہے، جس کا تحقیقی معیار بہت اعلیٰ ہے۔
================





 

Shabbir Ibne Adil
About the Author: Shabbir Ibne Adil Read More Articles by Shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128376 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.