شہادت کو سلام!

سرزمین پاکستان کے پانچ دریاؤں کی زمین پنجاب کا ایسا بہادر لال جس سے آج کی نسل ناآشنا ہے.

زندگی کے وہ پل امر ہو جاتے ہیں جب انسان مفاد کی چکی سے نکل کر غیرت کی بھٹی میں کندن ہو جاتا ہے, پھر دنیا کی عزت ؤ دولت اسکی نظر میں اہمیت نہیں رکھتی بلکہ مقام انسانیت کی معراج کا مسافر ہو کر راستے میں آنے والے ہر زمینی طوفان کا مقابلہ اسکا مشن ہوتا ہے, ایسا ہی ایک کردار جو پنجاب کی سرزمین سے تتعلق رکھتا ہے, گزشتہ دنوں اہل علم کی قیادت میں انکے مزار پر حاضری کا موقع ملا, اللہ کریم مغفرت اور درجات بلند فرما کر اس سرزمین پاکستان ؤ پنجاب کو ایسے غیرت مند, عزت دار, خوددار, بہادر, آزاد انسانیت کا علم لیے لال عطا فرماۓ, چیچہ وطنی سے فاروق امجد بھٹی صاحب, رائٹر شاہد رضوان صاحب, مولوی بشیر صاحب کے ساتھ جھامرہ چک کے قبرستان میں جنگ آزادی شیر کی قبر پر فاتحہ کا لمحہ میری زندگی کا بڑا دن تھا, یہ نوجوان جھامرہ کا راۓ احمد خاں کھرل تھا, تاریخ آزادی کے اس بہادر لال ہماری نسل ناواقف ہے کیوں ؟ لیکن پھر میں خود ہی سوچتا ہوں کہ مغربی ترقی کے لالچ نے ہمارے ذہن بیمار کر دئیے ہیں اس لیے اپنا مقام دلدل کے سمندر میں تلاش کرتے ہیں, مختلف تاریخی کتب کی روشنی میں ایک مکمل تحریر اور تعارف سے پردہ چاک کرنے کا خیال میرے ذہن میں تھا جب سے راۓ احمد کھرل شہید کی قبر سے واپس آیا تھا تو آج اسکو مکمل کیا ہے لہذا آپکی نظر کر رہا ہوں تاکہ میری نوجوان نسل اپنے ماضی سے آشنا ہو کر مستقبل کا سفر کرے,
سے دریائے راوی لاہور سے ملتان کی طرف بہتا ہے اس لحاظ سے دریا کے بائیں کنارے پر نیلی بار کا علاقہ ہے جس میں اوکاڑہ، پاکپتن اور ساہیوال آتے ہیں، یہ علاقہ اس وقت ملتان ڈویژن میں تھا، اب یہ ساہیوال ڈویژن میں ہے، دریا کے دائیں کنارے پر اس وقت کا لائیلپور اور موجودہ فیصل آباد ڈویژن واقع ہے جس میں تھانہ باہلک، تاندلیانوالہ اور سمندری کا شہر قابل ذکر ہیں اسے ساندل بار اور پنجابی میں ساندڑ بار کہتے ہیں۔
اوکاڑہ سے فیصل آباد روڈ پر بیس کلومیٹر پہ بنگلہ گوگیرہ واقع ہے جو اسوقت انگریز سرکار کے ڈسٹرکٹ منٹگمری کا ہیڈکوارٹر تھا اور اس کے بالمقابل دریا کے اس پار موضع جھامرہ ہے جو رائے احمد خان اور کھرلوں کا آبائی مسکن تھا، انگریز یہاں آگئے تو پنجاب میں امن کا دور بھی لد گیا اور سب کچھ سر کے بل نیچے آگرا، اس دوران رائے صاحب اپنے قبیلے والوں سے مزاحمت کی صلاح کرتے رہے مگر بڑوں کا کہنا تھا کہ ابھی اس لڑائی کا وقت نہیں آیا، جب وقت آئے گا تو جم کر لڑیں گے۔

نارمن جی بیرئیر نے جان بمیز کے حوالے سے لکھا ہے:
“There was no law in the Punjab in those days. Our instructions were to decide all cases by the light of common sense and our own sense of what was just and right.”

جنگ آذادی کے ہیرو احمد خان کھرل شہید کے مزار پر حاضری ( جھامرہ ) میری زندگی کا خاص دن تھا,
راوی کنارے آباد جھامرہ کو اپنی غلامی کا طوق پہنانا انگریز کا خواب ہی رہا کیونکہ استقامت حسین رضی اللہ کی سنت کو پورا کرتے ہوۓ حق ؤ باطل کی جنگ کا شہزادہ راۓ احمد کھرل تھا, تاریخ انگریز جسکو سرفروش, خود سر, غدار کا لقب دے اسکا معیار حق پرستی کیا ہو گا یہ سمجھنا ہر بندے کے بس کی بات نہیں ,
پنجاب کا اصلی سردار نیلی بار کے عمائدین سے ملاقات کرتے ہوئے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اسے پہلی بار دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا، شائد وہ جان گیا تھا کہ پنجاب میں اس کے بعد انگریزوں کے خلاف اگر کوئی آخری چٹان ہے,اگر غلامی کے طوق کو توڑے گا تو وہ یہی نوجوان ہے، پھر اس نے اسی مجلس میں وہ مجلس اس حالت پر برخاست کی کہ اسے اپنا پگڑی بدل بھائی بنا کے علاقے کی سرداری کا تاج اسکے سر پر رکھ دیا اور کبھی اس کا لکھا ہوا نہیں مٹا سکا مگر وہ چاہتا تو رنجیت سنگھ کا لکھا ہوا مٹا دیتا تھا۔
پنجاب کا واحد زمیندار جس نے جنگ آزادی کیخلاف انگریزوں کو وسائل مہیا کرنے سے انکار کیا، منہ مانگا لگان نہ دینے والے سینکڑوں کاشتکاروں کو جیل توڑ کر چھڑایا, جنگ آزادی کی حمایت میں لاہور سے ملتان تک کا علاقہ میدان جنگ میں بدل دیا۔
جس نے جنرل منٹگمری اور اس کے چار کمشنروں کو ناکوں چنے چبوا دیئے اور بلآخر گشکوری کی جنگ میں جان دے دی مگر جیتے جی پنجاب دینے پر راضی نہ ہوا۔
قومی ہیر وز کے فکر اور قر بانیوں کے اسباب سے ہی قومیں اپنی بقا ء کی جنگ رہتی دنیا تک قائم و دائم رکھ سکتا ہے....شہیداں دی عظمت نوں سلام..
جنگ آزادی 1857ء دے عظیم مجاہد تے پنجابی قوم دے ہیرو "رائے احمد خان کھرل شہید" دی داستان خودی اختتام اسکی شہادت پر ہوا,
21 ستمبر 1857ء کو اپنے خالق کے سامنے پیش ہوا,
1857ء کی جنگ آزادی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑ گئی ہے, اور اس میں پنجابی قوم کے ہیرو "رائے احمد خان کھرل شہید" کا غیرت مند کردار تاریخ میں ایک علامت کے طور پر ابھرا ہے۔ نامساعد حالات اور قلیل ترین وسائل ہونے کے باوجود انہوں نے انگریز سامراج سے 81 سال کی عمر میں بغاوت کی۔
1776ء کو جھامرہ, ضلع فیصل آباد میں رائے نتھو خان کے گھر پیدا ہونے والے پنجابی شیر رائے احمد خان کھرل نے انگریزی سامراج کو للکارا اور ماننے سے انکار کردیا۔

اک واری مڑ. کے آویں. ہا
را نتھو خان دے احمد خانا ۔

راے احمد خان کھرل شہید 1857 کی جنگ آزادی کے عظیم ہیرو 1776 میں رائے نتھو خان کے گھر پیدا ہوئے جو کھرل قبیلے کے سردار تھےراے احمد خان کھرل نے 80 سال کی عمر میں اپنی ساوی یعنی گھوڑی کی لگام تھامی تو ہر طرف انگریز سامراج کے مسلمانوں پہ مظالم عروج پہ تھے راوی پار آباد قبائل جن میں فتیانے سیال اور وٹو بھی راے احمد خان کھرل کے ہمراہ تھے جنہوں نے پنجاب کے اس عظیم سپوت کی قیادت میں میں انگریزی سامراج کے خلاف جرأت بہادری عشق و وفا کی انمٹ داستانیں رقم کیں جون کی,
لارڈ برکلے کے ساتھ ایک بھرپور جنگ کر کے راوی کے دائیں کنارے بستی جھامرہ میں ابدی نیند سو گیا، اس کے کئی سال بعد جب لارڈ برکلے کا بھائی گوگیرہ کا کمشنر بن کے آیا تو حالات ابھی بھی اچھے نہ تھے۔
لارڈ نے شہید کے بیٹے محمد خان کو ملاقات کا پیغام بھیجا جسے رد کر دیا گیا، پھر اس نے دوبارہ کہلا بھیجا، آؤ ہم راوی کو آباد کرنا چاہتے ہیں، اس کیلئے ایک ملاقات بہت ضروری ہے۔
محمد خان جب گوگیرہ بنگلہ پہنچے تو ایک سرکاری اہلکار نے ان کا رستہ روک کے کہا، آگ اور پانی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، شیر اور بھیڑیئے کی کوئی دوستی نہیں، پھر آپ کا کیونکر آنا ہوا؟
محمد خان نے بتایا کہ لاٹ صاحب نے صلح کا پیغام بھیجا ہے، ایک میرے پیش ہونے سے راوی کا امن بحال ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، دست درازی ہم نے نہیں ان کے بھائی نے شروع کی تھی، اب یہ امن چاہتے ہیں تو ان کی بات بھی سن لینی چاہئے۔
اہلکار نے کہا، ہم روزی روٹی کے چکر زدہ اور غلامی کے زخم خوردہ لوگ تمہارے وقار کو دیکھ کر اپنے زخم سی لیتے ہیں، کوشش کرنا، دو آبے کا سر نہ جھُکے، مجھے تم سے بس یہی ایک توقع ہے، محمد خان نے اپنے شملہ دار سر کو اثبات میں جنبش دی، دونوں مٹھیاں بھینچیں اور تمکنت کیساتھ چلتا ہوا کمشنر آفس میں داخل ہو گیا۔
لارڈ نے اپنے سامنے اس تنومند جوان کو دیکھا تو حیرت سے دیکھتا رہ گیا، بلکل اسی طرح جیسے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پہلی بار جب اس کے باپ کو دیکھا تھا تو وہ بھی اس کی نظروں میں اٹک گیا تھا۔

ایک صبح منٹگمری کے اسسٹنٹ کمشنر پرکلے جس کو آزادی کی تحریک کو کچلنے کا حکم دیا گیا راے احمد خان کھرل سے گھوڑے مانگے جس پہ راے صاحب نے صاف انکار کر دیا جس پہ انگریزوں نے جنگ کا ارادہ کر لیا جب راے احمد خان کھرل شہیدوں کا لشکر تیار کر رہے تھے عین اسی وقت کچھ درگاہوں کے سجادہ نشین جاگیروں اور نقدی کے عوض قومی غیرت و ہمیت انگریزوں کے قدموں میں نچھاور کرنے میں مصروف تھے آخر کار کمالیہ سے ایک غدار کھرل نے رات کے گیارہ بجے پرکلے کو اٹھا کر تیار ہونے والے لشکر کے بارے مخبری کر دی صبح ہوتے ہی انگریز نے فوج لے کر توپ خانہ سمیت حملہ آور ہوا گھمسان کی اس لڑائی میں راے احمد خان کھرل بے جگری سے لڑتا ہوا تارا سنگھ کی گولی کا اس وقت نشانہ بنے جب وہ ظہر کی نماز کی دوسری رکعت ادا فرما رہے تھے انگریزی فوج نے راے احمد خان کھرل کا سر تن سے جدا کرنے کے بعد اپنے ساتھ لے گئے اس طرح پنجاب کے عظیم اور کھرل قبائل کے ہیرو مانے جاتے ہیں جو آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ و جاوید ہیں ۔
اک واری مڑ کے آویں ہا
را نتھو خان دے احمد خانا
پروفیسر سعید بُھٹہ صاحب لکھتے ہیں:
“گورے دی کامن سینس تے آزاد بندے دی سینس وچ لکھاں کوہاں دے پاڑے ہن، اوہدی کامن سینس ایہا ہا کہ ایس دیس وچوں دولتاں دے ڈھگ اکٹھے کیتے ونجن تے ایس کان غلاماں دی کنھی اتے گوڈا اینج منڈھیا ہا کہ ہر گل اتے آکھن جیہڑی نیت امام دی اوہا اساڈی”۔
اس مقصد کیلئے انگریز نے تحصیلداروں، پٹواریوں اور تھانیداروں کو اندھے اختیار دے رکھے تھے تاکہ لوگوں کو دبا کے رکھا جا سکے، ان کے اوپر انگریزوں کا ایک اسکاٹش افسر اسسٹنٹ کمشنر لارڈ لیوپولڈ اولیور فزرڈنگ برکلے اس علاقے میں خصوصی طور پر تعینات تھا تاکہ یہاں کے وسائل سے مرکز کو بھرپور فائدہ پہنچایا جاسکے، برکلے کا باپ ہنری جیمز بریلی کے کلکٹر آفس میں ہیڈ کلرک تھا، لارڈ برکلے 1829 میں بریلی میں ہی پیدا ہوا، 1830 میں اسے بپتسمہ ملا اور 1857 میں اٹھائیس سال کی عمر میں وہ گوگیرہ کا لارڈ متعین ہوا۔
رائے صاحب اور لارڈ برکلے کا پہلا ٹاکرا اس وقت ہوا جب برکلے ان کے روحانی پیشوا کی گھوڑی چھین کے لے آیا تھا، اس گھوڑی کی پھرتی اور رنگت بیمثال تھی، وہ صاحب گھوڑی بیچنے پر راضی نہ ہوئے تو اس نے چھین لی، رائے صاحب نے اس سے گزارش کی کہ ہمارے بزرگ کی گھوڑی واپس کر دیں، جب برکلے نہ مانا تو اسے چار ہزار روپے کے عوض خریدنے کی پیشکش بھی کی مگر وہ پھر بھی نہ مانا۔
لوک شاعر دادا پھوگی کے مطابق دوسرا ٹاکرا اس وقت ہوا جب دہلی اور میرٹھ میں بغاوت برپا ہوئی، اس موقع پر لارڈ برکلے نے رائے صاحب کو بلایا اور دہلی کی بغاوت کچلنے کیلئے درکار افرادی قوت اور اچھی نسل کے گھوڑے مہیا کرنے کا تقاضا کیا۔
سعید بُھٹہ صاحب لکھتے ہیں:
“اخیری کردیاں کردیاں احمد خان نوں وی جوش آیا بھئی ایس لڑائی اچ اساڈے ساندڑ بار دا حصہ وی ہونا چاہی دا، کیہ آکھسن، ایہہ نئیں لڑدے تے دوآ لوک لڑدا پیا ہے”۔
لارڈ برکلے نے کہا، رائے صاحب مجھے دہلی کیلئے بندے اور گھوڑے ہر صورت میں درکار ہیں، اس کے بدلے میں آپ کو لندن سے بڑا اہم سرکاری اعزاز لیکر دوں گا۔
رائے احمد خان نے جواب دیا:
“ہم کبھی بھی، کسی بھی حال میں اپنے گھوڑے، عورت اور زمین کسی کے حوالے نہیں کرتے”۔
رائے صاحب، ان کے دوست سارنگ فتیانہ اور دیگر ساتھی، لارڈ برکلے کو صاف جواب دے کر واپس اپنے گاؤں جھامرہ چلے آئے لیکن کچھ دنوں بعد ایک نئی اور ایسی گھمبیر صورتحال پیدا ہوگئی کہ رائے صاحب کو سرکار کے خلاف ہتھیار اٹھانا پڑ گیا۔
گوگیرہ کے ارد گرد نیلی بار اور ساندل بار میں لارڈ برکلے کی چیرہ دستیاں بڑھتی جا رہی تھیں، یہاں کے لوگوں کا روزگار دو تین بڑی حرفتوں کے ساتھ منسلک تھا جس میں زمیندار، کسان مزدور، خدمتگار طبقہ اور مال مویشی پال کر بیچنے والے شامل تھے، سیدوالہ اور گوگیرہ اسی اعتبار سے علاقے میں اناج، اجناس اور دیگر ضروریات کی مرکزی منڈی بھی تھا، یہ سارے طبقے ہی انگریز کے خلاف تھے لیکن اپنے عہد کی سپر پاور کے ساتھ ٹکر لینے کی ہمت کسی میں نہ تھی، ان میں لوہار بھی تھے جو زرعی آلات اور ہتھیار بنانے کے ماہر تھے، دیگر لوگ جنہیں عرف عام میں کمی کہا جاتا ہے وہ بھی ہتھیاروں کے استعمال سے بے بہرہ نہیں تھے، عام لوگ جو مال مویشی پال کر گزارا کرتے تھے لڑائی بھڑائی میں وہ بھی چست تھے جبکہ سردار طبقہ مالی اور دیگر وسائل سے مالا مال تھا، لیکن اس کے باوجود سرکاری تقاضوں کے سامنے انکار کی مجال یا مقابلے کا حوصلہ کسی میں نظر نہیں آتا تھا، اس سلسلے میں ہر کسی کی نظریں رائے صاحب کی طرف ہی اٹھتی تھیں۔
رائے صاحب جیسا آزاد منش شخص جس نے اپنے علاقے اور لوگوں کے مفاد کیلئے ہمیشہ دربار سرکار میں اپنی بات منوائی اب وہ تھانہ کچہری اور سرکاری نظام میں کافی بے بس نظر آتے تھے، ان مشکلات اور ملک میں انگریزوں کے خلاف اٹھتی ہوئی مزاحمت کو دیکھ کر رائے صاحب بھی مزاحمت کا فیصلہ کر چکے تھے۔
انگریز نے دس سال کے اندر پنجاب میں پچیس جیلیں اور تھانہ کلچر قائم کیا تاکہ جو سر اٹھائے اس کا سر نیہوڑایا جا سکے، اس کے عملی مظاہرے جا بجا ہو رہے تھے، نیلی بار میں اس کا بڑا مظاہرہ اس وقت ہوا جب تعلقہ سبوکا کی جوئیہ برادری نے مالیہ اور لگان وصول کرنے والے سرکاری عملے کو انگریز کی مرضی کا بھاری معاملہ دینے سے انکار کر دیا، اس کی پاداش میں انہیں “نابر” یعنی باغی قرار دے کر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
جنرل منٹگمری نے لارڈ برکلے کو خصوصی ہدایات بھیجیں:
“اس سے پہلے کہ یہ بغاوت پنجاب بھر میں سرایت کر جائے اسے وہیں کچل دو”۔

اس حکمنامے کے بعد اہلکاروں کے ہاتھ جو کچھ بھی لگا، ان سب عورتوں، بچوں اور مال مویشیوں کو ہانک کر وہ بنگلہ گوگیرہ لے گئے اور جیل بند کر دیا۔

اس موقع پر جھامرے کے قریب پتن پر ایک اجلاس ہوا جس میں وٹو برادری نے سیّدوالہ پولیس اسٹیشن پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن رائے صاحب نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ وہاں پیٹ کی خاطر نوکری کرنیوالے چند اپنے ہی لوگ ہوں گے جو مارے جائیں گے، اس میں انگریز کا کیا جائے گا؟
کام وہ کرو جو انگریز کے تابوت ثابت ہو…!۔

پھر 26 جولائی 1857 کی رات رائے صاحب نے ایک بھاری دستے کیساتھ گوگیرہ جیل پر حملہ کیا اور تمام باغیوں کو رہا کرکے لے گئے، ان مجاہدین کے علاوہ قیدی بھی بے جگری سے لڑے، اس مقابلے میں انگریز کے پونے چار سو سپاہی مارے گئے اور رائے صاحب خود بھی زخمی ہوئے، اس معرکے کے بعد سب لوگ راوی کے جنگلات میں روپوش ہو گئے۔

لارڈ برکلے نے ایک چال چلی اور رائے صاحب کے اہل خانہ کو یرغمال بنا کر گوگیرہ لے گیا، یہ اطلاع ملنے پر رائے صاحب نے گرفتاری دیدی لیکن وٹووں اور دیگر قوموں کے کُوبکو احتجاج سے عام سماج میں بھی شورش بلند ہونا شروع ہو گئی، ڈر تھا کہ بغاوت ایک نیا رخ اختیار کر جائے گی اور بات گلی محلوں تک بڑھ جائے گی اس لئے رائے صاحب کو رہا کر دیا گیا، رہائی کے بعد رائے صاحب اور ان کے مجاہدین نے کمالیہ، چیچہ وطنی اور ساہیوال تک کا سارا علاقہ گوریلا کاروائیوں سے تین ماہ تک متاثر کئے رکھا، پھر ایک فیصلہ کن جنگ کا منصوبہ ترتیب دیا۔

کارل مارکس برصغیر میں برطانیہ کی پالیسیوں اور نظام پر امریکی اخبار “نیویارک ڈیلی ٹریبیون” میں مسلسل مضامین لکھ رہا تھا جو مارکسزم کے نیٹ آرکائیو پر بھی موجود ہیں، مارکس 1857 کی جنگ آزادی پر بھی نظر رکھے ہوئے تھا، رائے صاحب کی اس جدوجہد کو مارکس بھی نظر انداز نہیں کر سکا، اس نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ “پنجاب میں انگریزوں کے لئے مجاہدین کی طرف سے ایک نئی مشکل کھڑی ہو گئی ہے جس سے پچھلے آٹھ دنوں سے ملتان سے لاہور تک آمدورفت کا راستہ بند ہوگیا ہے اور ان لوگوں نے انگریز کے سارے رابطے ختم کر دئے ہیں جو انگریزوں کیلئے سخت تشویش کا باعث بن چکے ہیں”۔

لارڈ برکلے، جو کل تک دہلی کی مدد کرنے میں جانفشانی سے جتا ہوا تھا، اب اسے اپنا علاقہ قائم رکھنے کیلئے مدد کی سخت ضرورت پڑ چکی تھی، برکلے کی درخواست اور علاقے کی صورتحال دیکھ کر ملتان اور لاہور سے دس عدد فوجی دستے گوگیرہ روانہ ہوئے جن کی کمان یہ افسران کر رہے تھے۔

Col. John Paton, Capt. Blake, Capt. Chamberlaine, Capt. McAndrew, Capt. Snow, Lt. Chichester, Lt. Neville, Lt. Mitchel & Assisstant Commissioner Lord Berkley
جبکہ ان کی پشت پر یہ چار بڑے افسران بھی موجود تھے۔
General Montgomery
Maj. G. W. Hamilton, Commissioner of Multan
Maj. A. A. Roberts, Commissioner Lahore
Mr. Elphinstone, DC Montgomery/Gogera

اتنی بڑی کاروائی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ان تین ماہ میں یہ بغاوت کمالیہ، پنڈی شیخ موسٰی، سیدوالہ، ہڑپہ، چیچہ وطنی، تلمبہ، سرائے سدھو، شورکوٹ، جھملیرا، ساہوکا، پاکپتن، قبولہ اور بہاولنگر کے پاس بہتے ہوئے دریائے ستلج کے کناروں تک پھیل گئی تھی، جس میں کم و بیش سوا لاکھ مجاہدین شامل تھے، گوگیرہ کی اپنی آبادی تقریباً تین لاکھ تھی اور ملتان تک کی کل آبادی تقریباً دس لاکھ کے قریب تھی، جس میں سے بڑی تعداد میں مجاہدین نکل کر سامنے آرہے تھے اور تحریک دن بدن زور پکڑتی جا رہی تھی۔

جولائی کے بعد اگست اور ستمبر میں بھی یہ چھاپہ مار کاروائیاں جاری تھیں، اس دروان لڑائی کا دائرہ مؤثر بنانے کیلئے علاقے کے سرداروں سے رابطے بھی جاری تھے، اس سلسلے میں مراد فتیانہ کے بھائی بہاول فتیانہ نے بہاولپور کے ایک معروف نواب کو ایک لاکھ مجاہدین کیلئے اسلحہ اور مالی امداد کیلئے خط لکھا، نواب نے امداد کیا کرنی تھی، الٹا وہ خط لیجا کر گورنر کو دے دیا جو پنجاب سیکریٹیریٹ کے آرکائیو ڈیپارٹمنٹ میں محفوظ ہے۔
(اکیڈمی آف پنجاب، نارتھ امریکہ)

انگریزوں کی تازہ جمع شدہ فوجی طاقت کو دیکھتے ہوئے جس مجلس میں انگریزوں کے ساتھ باقائدہ فیس ٹو فیس میچ۔لاک شروع کرنے فیصلہ ہوا اس میں کمالیہ کے سرفراز کھرل اور دیگر بہت سے سردار شامل تھے، رائے صاحب واپس جھامرے آئے اور حملے کیلئے دریا پار اترنے کی تیاری کرنے لگے جبکہ سرفراز کھرل اور جیوے خان مخبری کرنے رات گئے بنگلہ گوگیرہ میں ڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچ گئے۔

ڈپٹی کمشنر گوگیرہ الفنسٹون نے کمشنر ملتان میجر ہملٹن کو لکھا:

“جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، احمد خان کی سربراہی میں گوگیرہ جیل توڑی گئی ہے، اس موقع پر قیدیوں کی جانوں کا خاطرخواہ نقصان ہوا، میں نے برکلے کو بیس گھڑسواروں کے ساتھ احمد خان کے پیچھے روانہ کیا تھا تاکہ وہ اسے راوی پار کرنے سے پہلے پکڑ لائے لیکن برکلے کا جواب آیا کہ وہ راوی پار کرچکا ہے، پھر اس نے خود گرفتاری دی اور کہا کہ وہ تاج برطانیہ کا وفادار نہیں بلکہ اس کی وفاداری مغل شہنشاہ کے ساتھ ہے۔

ڈپٹی کمشنر نے مزید لکھا کہ کمالیہ کے سرفراز کھرل رات گئے مجھ سے ملنا چاہتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ انتہائی اہم اطلاع دینا مقصود ہے، ملنے پر اس نے بتایا کہ راوی کے سب سردار میرے پاس مدد حاصل کرنے کیلئے جمع ہیں اور وہ ایک جم غفیرکے ساتھ ایک بڑی بغاوت برپا کرنیوالے ہیں۔

ادھر رائے صاحب نے ملاحوں سے کہا، ساری بیڑیاں ملنگ والے پتن پہ کھینچ لاؤ، سارنگ نے کہا، راء جی سامنے توپیں ہیں، انگریز جھامرے کو مونج کی طرح کوٹ کر پھوگ بنا دیں گے، ایسے ہی تحفظات چند دیگر ساتھیوں کے بھی تھے، آدھی رات کا وقت تھا، سارنگ کے جواب میں رائے صاحب نے مجاہدین سے کہا، سب سے پہلے میرا بیٹا اللہ داد کشتی پر سوار ہوگا، پھر میں، تاکہ کل کو تم یہ نہ کہو کہ راء جی نے بیکار میں سب کو مروا دیا اور خود کنارہ کرگئے، لائیلپور کے قریب سے رڑانے گاؤں کی جج قوم بھی ان کی حلیف تھی، شیرخان جج نے کہا، راء جی ایہہ لڑکا کوئی لوہے کا تو ہے نہیں جو توپ کا وار روک لے گا، ہم سارے جج اس پتن پر لڑ مریں گے اور زندگی بھر یہ ججاں والا پتن کہلائے گا، یہ کہہ کے شیرے جج نے اللہ داد کو کشتی سے اتار دیا۔

محرم الحرام کی پانچ تاریخ اور 16 ستمبر 1857 کی رات جب بنگلہ پہنچ کر مجاہدین نے حملہ کیا تو انگریز بھی مقابلے کیلئے تیار بیٹھا ہوا ملا، گوگیرہ جیل بریک کے بعد وہ ہمیشہ الرٹ رہتا تھا، اس نے سامنے سے توپ چلوا دی، سو گولیوں کا بارود اس میں سے ایک ساتھ نکلتا تھا، توپ چلانے والا بھی مسلمان تھا، اس نے رخ زرا اونچا رکھا اور بارود سروں کے اوپر سے درختوں پر جاپڑا، کہتے ہیں کہ درختوں میں آگ لگ گئی۔
سعید بھٹہ صاحب کی کتاب کے ماتھے پر درج ہے۔

خلقت نوں تلیوں لگی، چوٹیوں نکلی ہے، مار بھڑکارے
اوہنوں انکھی نہیں سمجھدا جیہڑا احمد خان دا دکھ وسارے

“اس کہانی کے درد کی آگ پاؤں کے تلوے سے لگتی ہے اور سر کی چوٹی تک جاتی ہے، مگر جو احمد خان کا درد اور حریت کا یہ پیغام محسوس نہ کرسکے، میں اسے غیرتمند نہیں گردانتا”۔
رائے احمد خان شہید کے بعد لاہور سے ملتان تک انگریزوں کے سامنے کوئی اس طرح جم کے کھڑا نہ ہو سکا تاہم کھرل، وٹو اور فتیانے کئی سال تک اپنی بقا کی جنگ لڑتے رہے اور گھر سے بے گھر رہے,
دس محرم الحرام بروز جمعہ 21 ستمبر 1857 کو گشکوری کی جنگ رائے صاحب کی شہادت کے ساتھ ختم ہوگئی، رائے صاحب اپنی گھوڑی “ساوی” پر چڑھ کر لڑتے تھے، یہ گھوڑی اٹھارہ بیس فٹ لمبی چھلانگیں لگاتی ہوئی دشمن کے سروں پر سے گزر جاتی اور رائے صاحب وار کرتے جاتے تھے، رائے صاحب نے دوپہر کے وقت آخری بار انگریزوں کو للکارا لیکن میدان میں کوئی حرکت نہ ہوئی، انگریزی فوج بڑی تعداد میں ماری جا چکی تھی اور باقی سہم کر ڈیڑھ کوس پیچھے ہٹ چکی تھی، مجاہدین کے دستے اپنے اپنے علاقے سے سرکاری فوج کا صفایا کرکے واپس پلٹتے گئے، رائے صاحب نے کہا ہم نماز کے بعد نکلیں گے اور شام تک جھامرے کی طرف اپنے خفیہ ٹھکانے پر پہنچ جائیں گے، رائے صاحب نے وضو کیا اور ظہر کی نماز شروع کر دی، ان کے ساتھ سردار سارنگ اور پانچ چھ دیگر مجاہدین بھی موجود تھے۔

لارڈ برکلے آٹھ دس سپاہیوں کے ساتھ علاقے کا جائزہ لینے ایک بار پھر آگے بڑھا تو ایک سپاہی نے رائے صاحب کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا، برکلے نے گولی چلانے کا آرڈر دے دیا، دھاڑے سنگھ، گلاب سنگھ بیدی اور کھیم سنگھ بیدی نے گولیاں چلائیں، نماز کی دوسری رکعت چل رہی تھی جب رائے صاحب کو دو گولیاں لگیں اور وہ زمین پر آرہے، پھر سردار سارنگ صاحب کو بھی گولی آلگی، باقی ساتھی بھی سنبھل نہ سکے اور برکلے سر پہ آپہنچا، اس نے رائے صاحب کا سر اتروا کے نیزے پر رکھا اور اپنے ساتھ لے گیا۔

انڈیا آفس لائبریری کے مطابق برکلے اگلے دن دریا کے ساتھ ساتھ محمدپور کی جانب رواں دواں تھا کہ کوڑی شاہ کے قریب جنگل سے اچانک اس پر حملہ ہوا، برکلے کیساتھ پچاس سپاہی بھی ہلاک ہوئے

“”مڑ نماز پڑھدا ہویا ہی مصلے دے اتے شہید ہوگیا، کافر جیویں پیر امام حسینؑ دا سر اتار کے لے گئے ہان نا ایویں احمد خان دا سر نیزے اتے ٹنگ کے انگریج لے گئے ہان”۔
(سعید بھٹہ صاحب)

سن 1776میں رائے نتھو کے گھر پیدا ہونے والا یہ لعل 81 سال کی عمر میں انگریزوں کو ناکوں چنے چبوا کر ایمان افروز شان کیساتھ نماز ادا کرتے ہوئے اس دنیا سے چلا گیا، کہتے ہیں وہ دنیا سے نہیں گیا بلکہ امام حسینؑ کی دنیا میں چلا گیا۔

رائے صاحب کی شہادت کا سن کر ان کی زوجہ محترمہ نے فوراً دونوں بچوں، اللہ داد اور محمد خان، کو مہر مراد خان فتیانہ کے گاؤں روانہ کیا اور کہلا بھیجا کہ تمہارا بھائی شہید ہوگیا ہے، یہ خبر سن کر مراد فتیانہ پر غضب طاری ہوگیا، اس نے دونوں بچوں کو اپنی بیوی کے حوالے کرکے کہا، اگر میں واپس آگیا تو ان کو خود پال لوں گا، اگر مارا گیا تو جہاں چار بچوں کا چوگا اکٹھا کرو گی وہاں ان دونوں کا بھی کرلینا۔
انگریزی فوج نے جھامرہ سے پنڈی شیخ موسٰی تک مجاہدین کی تلاش و عداوت میں راوی کے ارد گرد کھرلوں اور وٹووں کے کئی دیہاتوں کو آگ تو ویسے بھی لگا رکھی تھی، کچھ آگ وہ فتح کے جشن میں بھی لگاتے گئے، ایک راستے پر فقیر مستانہ کی جھونپڑی کے پاس پہنچے تو برکلے نے کہا اسے بھی جلا دو، کسی نے کہا یہ باغی نہیں فقیر ہے، برکلے نے پوچھا فقیر کیا ہوتا ہے؟
اسے بتایا کہ اللہ والا عبادت گزار بندہ ہے جو دنیا سے الگ تھلگ رہتا ہے، برکلے نے کہا، جو کچھ بھی ہے تم جھونپڑی جلا دو، اس پر درویش نے کہا،
“بڑی چھیتی داتری نے تیرا سر لے جانا”۔
اگلے دن لوگوں کی عبرت کیلئے پکڑے جانے والے باغیوں کو پھانسی دے کر ان کی لاشیں درختوں کے ساتھ لٹکا دی گئیں، اس بدسلوکی پر اہل علاقہ مشتعل ہو رہے تھے مگر اسوقت کچھ کر سکتے تھے نہ ہی کچھ سجھائی دے رہا تھا، مہر مراد فتیانہ جب پہنچے تو کھرلوں کیساتھ ایک جگہ منصوبہ بندی کی اور دریا پر گھات لگا لی، برکلے کے خیال میں احمد خان کے بعد کوئی خطرہ باقی نہ تھا، جلتے ہوئے دیہاتوں میں، سوائے درد سے کراہنے والوں کے، اور کوئی آواز نہ تھی، دھوئیں کے علاوہ مخالفت کی کوئی بو نہیں تھی، لیکن جب اسے خفیہ گٹھ جوڑ کی خبر ملی تو وہ آپے سے باہر ہوگیا اور کچھ سپاہیوں کے ساتھ راوی کی گشت کیلئے نکل گیا، شائد یہ خبر اسے جان بوجھ کر پہنچائی گئی تھی۔
بروز 22 ستمبر کو راوی کے اطراف میں ہُو کا عالم دیکھ کر اسے اطمینان ہو گیا اور اسی سُکھ میں شام کے وقت واپسی پر وہ اپنے ساتھیوں کی پرواہ کئے بغیر کچھ آگے نکل گیا، پہلے اس کا گھوڑا دُلکی، ٹراؤٹ، چال پر تھا لیکن جب اسے خطرے کا احساس ہوا تو اس نے گیلپ لگانے کی کوشش کی، شائد اسے پتا نہیں تھا یا اندازہ نہ رہا کہ دریا کے کیچڑ میں گیلپ نہیں ہو سکتی کیونکہ گھوڑے کے پاؤں بار بار گیلی زمین میں دھنس رہے تھے۔
اس سے قبل کہ وہ سنبھلتا مراد خان فتیانہ اور سوجھا بھدرو گھات سے نکل کر اس کے پیچھے پہنچ گئے، مراد اپنے گھوڑے پر نیزہ تولتا ہوا آرہا تھا اور برکلے کے سینے سے پار کرتا ہوا آگے نکل گیا، برکلے نیچے گرا تو سوجھے بھدرو نے گھوڑے سے اتر کر اسے قابو کر لیا، ایک جگہ لکھا ہے، پھر اسے لاٹھیاں مار مار کے جان سے مار گئے، دوسری جگہ لکھا ہے، اس کا سر بھی کاٹ کر لے گئے۔
انگریزوں نے رائے صاحب کا سر چھ دن تک نیزے پر لٹکائے رکھا، ارد گرد ننگی تلواروں کا سخت پہرہ تھا، رات کو جہاں رکھا جاتا وہاں بھی سخت پہرہ ہوتا، ایک سپاہی اسی علاقے کا تھا، وہ رائے صاحب کے پاس بھی آتا جاتا تھا، رائے صاحب اس کی خواب میں آئے اور کہا “میں اس مٹی کا بیٹا ہوں لیکن انگریز میرا سر دنیا کو دکھانے کیلئے برطانیہ بھیجنا چاہتے ہیں، تم میرا سر مجھے واپس کر جاؤ، سپاہی سخت اضطراب میں تھا، دوسرے اور تیسرے دن بھی یہی خواب آیا تو اس نے یہ خدمت بجا لانے کا فیصلہ کرلیا۔
سپاہی نے ایک پکا مٹکا لے کر اس کا منہ کھلا کیا اور سرمبارک مٹکے میں رکھ کے اوپر کپڑا باندھ کے رائے صاحب کی قبر شریف کے پاس دفن کر آیا، یہ بات اس نے رائے صاحب کے اہل خانہ تک کو بھی نہ پہنچائی تاکہ بات سے بات آگے نہ چلی جائے اور اس کیلئے کسی مشکل کا پیش خیمہ نہ ثابت ہو۔
سعید بھٹہ صاحب نے یہی بات فقیر کے حوالے سے لکھی ہے کہ اسے خواب میں پیغام ملا تو وہ کسی چوپائے کی شکل میں آکے سرمبارک چھین کے لے گیا اور دفنا دیا، ممکن ہے فقیر والی بات ہی سچ ہو لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ سپاہی نے جب اپنے ساتھیوں کو یہ پیغام سنایا ہوگا تو جو بھی دو تین رات کی ڈیوٹی پر تھے وہ اس خدمت پر راضی ہو گئے ہوں گے، نوکری اپنی جگہ عقیدت اپنی جگہ، اس لئے کوئی حیرت کی بات نہیں، پھر تفتیش کی سختی سے بچنے کیلئے فقیر کی کہانی گھڑ کے سنا دی ہوگی کہ برکلے نے اس کی جھونپڑی جلائی تھی اور وہ بدلہ لینے کیلئے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سر اٹھا کے لے گیا اور ہم کچھ بھی نہ کر سکے کیونکہ وہ روحانی طاقت والا بندہ تھا۔
رائے صاحب کے پوتے کو ان کے روحانی پیشوا نواب کہہ کے بلاتے تھے، ان کا کہنا تھا، اصلی نواب تو یہی ہیں، راوی کے باقی نواب غدار ہیں اور نواب کہلانے کے حقدار نہیں، اس لئے نواب ان کے نام کا حصہ بن گیا تھا، 1968 میں نواب علی محمد خان نے اپنے دادا کے روضے کی تعمیر شروع کی، قبر شریف کے ارد گرد پکا چوکھٹا کھڑا کرنے کیلئے جب کھدائی شروع ہوئی تو کدال ایک مٹکے پر جا لگی، اس مٹکے کو احتیاط سے باہر نکالا گیا تو اس میں حضرت شہیدؒ کا سر مبارک تھا جو 110 سال گزرنے کے بعد بھی آنکھیں، داڑھی، چہرہ سمیت صحیح سلامت اور تروتازہ تھا، لوگوں نے بھرپور زیارت کی، نواب علی محمد خان نے دوبارہ اپنے دادا کا جنازہ خود پڑھایا اور سر کو جسم کے ساتھ دفن کر دیا، کھرل صاحب کا پرشکوہ روضہ تعمیر کرنے اور سالانہ عرس شروع کرنے کا سہرا بھی نواب علی محمد خان کے سر ہے، ان کا انتقال 1979 میں ہوا تھا۔


 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458007 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More