نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے جاری کردہاعداد و شمار
کے مطابق ملک میںکورونا وائرس کے فعال کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔
حکومت جو پہلی لہر میں اپنے ناقص اقدامات سے وبا کے اثرات کو محدود کرنے پر
نازاںنظر آتی رہی،دوسری لہر کے لئے اس کا اعتماد انبرتی گئی کوتاہیوں
پرمزید بڑھ چکا ہے۔
دوسری طرف اپوزیشنجس کا بنیادی کام حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں پر
نظررکھنا ہوتا ہے، اس معاملے میں وہ بھی حکومت کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے
اپنے جلسے جلوسوں میںعوامی صحت اور تحفظ سے خوب کھیلتی ںظر آرہی ہے۔
اپوزیشن اتحاد جو ملک میں فوج اور خفیہ اداروں کے سیاست میں کردار کو ختم
کرنے کی تحریک کے پہلے مرحلےمیں ملک کے مختلف شہروں میں پانچ بڑے جلسے
منعقد کرچکی ہے ۔جن کے بغور مشاہدے کے بعد یہ نتیجہ اخز کیا جا سکتا ہے
تحریک سلیکٹر سے زیادہ سلیکٹڈ کو پٹخنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
نوازشریف جنہوں نےگوجرانولہ جلسے میںآغاز تمام کارستانیوں کا الزام ایک
حاضرسروس جنرل پر لگا کر کیا،جانے کیوں لاہور جلسے میں مریم نواز نے اس کا
سہرا ایک گمنام ریٹائر کرنل پر ڈال دیا۔
بلاشبہ اس مضحکہ خیز نااہل حکومت نے عوام کے مسائل میںبے پناہ اضافہ کیا
اوراس سے جان چھڑانا ہیکسی بھی ذی شعور شخص کی خواہش ہونی چاہیے ،
لیکنکیااس فسطائی حکومت سے جان چھڑانے کے لئے ایسےبیماروںپر دارومدار کیا
جا سکتا ہے،جن پر یہ مصرعہبخوبی فٹ آتا ہے کہ
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
پی ڈی ایم جو اپنا مقصد حقیقی جمہوری اداروں کی مضبوطی بتاتی ہے وہاں سے
ووٹوں کو بوٹوں کے نیچے روندنے والوں پر تنقید کی جاتی ہے تو ان سے مزاکرت
میں بھی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا۔ کوئی براہ راست نام سننے پر دھچکا کھائے
بیٹھے ہیں تو کوئی گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے نام پر دھچکا کھانے والوں سے
مفاہمت کی نیک مطلوب رکھتے ہیں ۔ پنڈال سے زیادہ بول بھی لیا جائے ادارے کی
بجائے ایک آدھ بندے کو مورد الزام ٹھہرا کر’’مداوا‘‘کرنے کی کوشش بھی کی
جاتی ہے ۔
ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ، محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل جیسوں کی نیتیں صاف
بھی ہوں تو ان کے پاس وہ سیاسی طاقت نہیں کہ اپنے نیتوں کے احوال اپنے
اعمال سے دیکھا سکیں ۔
اس موذی وبائی دور میں اپوزیشن اتحاد کے اس بیانیے پر توجہ دے بھی دی جائے
کہ سیاست میں اداروں کی غیر آئینی مداخلت والا وائرس اس وبائی مرض کی نسبت
ملک کے لئے زیادہ جان لیوا ہے تو یقینا تحریک کا آغاز آرمی ایکٹ ترمیم
جیسے گناہ میں شریک ہونے کی ندامت سے کیا جا سکتا تھا ؟
پارلیمانی جمہوریت کی عظمت کے گن گاتے یہ دیوانے تو گلگت بلتستان کا سیاسی
حل بھی ڈھوںڈتے ڈھونڈتے جی ایچ کیو کیطرف جا نکلے۔
اور تو اور اپوزیشن اتحاد کےبڑے چہرے جن طاقتوں کو عمران خان کی حکومت کو
برسراقتدار لانے کا مرتکب ٹھہرا رہے وہ شاید بھول چکے ہیں کہ وہ بھی ماضی
قریب میں انہی کی وجہ سے اپنے وقت کے ’’عمران خان‘‘ بنے ، اور یہ بھی بعید
نہیں کہ’’ارتقا کے اس عمل‘‘ سے گزر کر مستقبل میں کسی اور صورت میں
پھر’’عمران خان‘‘ بن جائیں۔
رہی بات ان دانشوروں کی جو میاں صاحب کی تلخ و ترش تقریروں سے جموریت
کیٹھںڈی آہیں بھرتے ہیں، اگر وہ گوڈوں سے اوپر سوچنا شروع کریں تو یقینا
جان پائیںکہ جلسے جلسوں ، لانگ مارچوں ، استعفوں ،پہیہ جام ہڑتالوں ، شٹر
ڈاؤن جیسے سہل پسند طریقوں سےفقط چہرے تبدیل ہوں گے۔ ْ
نظام تو سوچسے بدلا جاتا ہے، ہماری قومی سوچ تو پروان ہی تعلیم و صحت پر
اسلحوں اور بمبوں کو فوقیت دیتی چڑھی ہے ۔ کیا ایسی قوم کی تربیت کرنے کی
بساط یا اوقات ان سیاستدانوں یا دانشوروں کی ہے ؟
اگر یہ دلیل بھی دی جائے کہ جمہوریت انسانی کاوشوں کی مرہونِ منت ہیںاور ان
کاوشوں کا آغاز ہمارے جمہوریت کے چیمپئینعوام کے ووٹوں کا ضامن بن کر کر
رہے ہیں تو براہ کرم تھوڑی سی کاوش عوام کی صحتوں کے بارے میں بھی اقدام
آٹھا کرکریں۔ اپوزیشن اتحاد کے جلسوں میں دیکھا گیا ہے کہ سماجی فاصلے تو
درکنا سٹیج سے ماسک پہننے کی اپیل کوسٹیج پربیٹھنے والے ہی رد کر دیتے ہیں۔
کیا ہمارے رہنما یہ جانتے ہیں کہ جمہوریت کی بقا کے کورونا سے بے احتیاطی
لازم نہیں ؟
|