وزیر اعظم نریندر مودی نے دہلی میں ۱۰ دسمبر (۲۰۲۰) کو
دوپہر ایک بجے انہوں نے علامتی طور پر نئی پارلیمنٹ کا سنگ بنیاد رکھکر اس
کا بھومی پوجن بھی کردیا۔ اس تقریب میں ایوان زیریں کے اسپیکر اوم بڑلا،
پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی، رہائش اور شہری معاملوں کے وزیر مملکت
ہردیپ سنگھ پوری اور ایوان بالہ کے ڈپٹی اسپیکر ہری ونش نارائن سنگھ شامل
ہوئے۔ مرکزی کابینی وزراء، وزارئے مملکت، ارکان پارلیمان سمیت تقریباً 200
لوگوں نے لائیو ویب کاسٹ کے ذریعے سنگبنیاد کی اس تقریب میںشرکت کی ۔وزیر
اعظم نے یہ حرکت ایک ایسے وقت میں کی جب دہلی میں کسانوں کی عظیم احتجاج کے
سبب ملک فی الحال ایک شدید بحران کا شکار ہے۔ لاکھوں دہقانوں دارالخلافہ
دہلی کا ناطقہ بند کررکھا ہے۔ ایسے میں ان کے مسائل پر توجہ کرنے کے بجائے
وزیر اعظم نریندر مودی نے نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے میں
اپنا وقت ضا ئع کیا ۔ وزیر اعظم کی اس بے حسی کسانوں کے زخموں پر نمک
چھڑکنے کے مترادف ہے۔
پارلیمنٹ کی نئی عمارت پرانیکے مقابلے کافی بڑی ہوگی اور اسے نئے انداز میں
ڈیزائن کیا گیا ہے یعنی اب وہ دائرہ نما نہیں بلکہ سہ رخی ہوگی ۔ یہ حسن
اتفاق ہے کہ موجودہ ایوان پارلیمان کا سنگ بنیاد 12 فروری 1921 کو رکھا گیا
تھا اور 83 لاکھ روپئے کے خرچ سے اسے 6سالوں میں تعمیر کیا گیا نیز18 جنوری
1927 کو اس کا افتتاح اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ اروین نے کیا۔ اب انڈیا
گیٹ کے نزدیک سنٹرل وسٹا پراجیکٹ کے تحت تیار کیے جانے والے پارلیمنٹ
کمپلکس کا علامتی طور پر سنگ بنیاد رکھ دیا گیا اور وزیر اعظم نے اس کا
بھومی پوجن بھی کردیا لیکن اس کا تعمیری کام فی الحال شروع نہیں ہوسکے گا
کیونکہ تعمیرات پر سپریم کورٹ نے روک لگا رکھی ہے ۔ ایسے میں ایک سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس بابت اتنی جلدی کیا تھی ؟ پہلی وجہ تو عوام کی
توجہ کسان تحریک سے ہٹا کر اپنی جانب مبذول کرانا تھی اور دوسرے تاریخ میں
اپنا نام درج کرانا تھا لیکن سچ تو یہ ہے مودی جی کو اس عمارت کے لیے جو
عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بنائی جارہی ہے نہیں بلکہ ان نوٹ بندی اور
جی ایس ٹی جیسی عظیم حماقتوں کے سبب یاد کیا جائے گا نیزگجرات مسلم کش
فسادات اور فرضی انکاونٹرس کا داغ اب دامن سے نہیں چھوٹے گا ۔ وہ اپنے ان
کالے کرتوتوں کے لیے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ کورونا کے سبب لاکھوں لوگ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو
بیٹھے ہیں اور بازار کا برا حال ہے حکومت اپنے عوام کی خبر گیری کرنے کے
بجائے 20000 کروڑ کی خطیر رقم خرچ کرکے سینٹرل وسٹا پراجیکٹ پر سرکاری
خزانے کو لٹا رہی ہے۔ اس پاراجکٹ میںایوانِ صدر سے انڈیا گیٹ تک پھیلے 13.4
کلومیٹر طویل راج پتھ پر واقع سرکاری عمارتوں کی تعمیر نو یا تجدید کا
منصوبہ ہے۔سینٹرل وسٹا پراجیکٹ کے تحت تعمیر ہونے والی ایوانِ پارلیمان کی
چار منزلہ عمارت 64500 مربع میٹر میں پھیلی ہوئی ہوگی اور اس اکیلی عمارت
پر کل 971 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔مجوزہ عمارت میں لوک سبھا کے کل 888 ارکان
کے بیٹھنے کی گنجائش ہوگی نیز دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کی صورت میں
1224 ارکان اس میں بیٹھ سکیں گے۔ ایوان بالا کے اجلاس کی خاطر علٰحیدہ سے
384 ارکان کی نشست کا اہتمام بھی ہوگا ۔ موجودہ پارلیمنٹ کیایوان زیریں میں
کل 543 ارکان بیٹھ سکتے ہیں، جبکہ راجیہ سبھا میں 245 ارکان کے لئے جگہ ہے۔
اس بات کی توقع کی جارہی ہے کہ یہ عمارت اگست 2022 یعنی ملک کے 75 یومِ
آزادی تک مکمل ہوجائے گی لیکن اس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ رکاوٹ بناہوا ہے
۔
اس تعمیر نو کی راہ ہموار کرنے کے لیے پچھلے سال دسمبر میں حکام نے ساوتھ
بلاک کے قریب ڈلہوزی روڈ سے متصل 15 ایکڑ علاقے کو تفریحی سے رہائشی علاقہ
قرار دے دیا۔ یہاں پر نئی پارلیمانی عمارت ، سکریٹریٹ اور وزیر اعظم اور
نائب صدر کی رہائش تعمیر کرنےکا منصوبہ بنایا گیا اور مکمل پراجکٹ کی تکمیل
کے لیے 2024 تک کا وقت طے تجویز کیا گیا ۔ ان تعمیر کےپورا ہونے پر ایوان
صدر اور انڈیا گیٹ بھی اس کا حصہ بن جائیں گے۔ مرکزی حکومت نے 20 مارچ کو
ایک اعلامیہ میں تصدیق کی کہ ڈی ڈی اے کے تحت سینٹرل ویسٹا پراجکٹ کے لیے
یہ ترمیم ضروری ہے اور اس طرح آگے کی راہ ہموار ہوگئی ۔ وہ ایک ایسا وقت
تھا جب ساری دنیا میں کورونا کی وباء کا شور تھا مگر حکومت ہند اپنے خوابوں
کے محلوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ اس سرکاری فیصلے کے خلاف راجیو سوری نے عدالت
عظمیٰ سے رجوع کیا اور زمین کے استعمال میں تبدیلی کے حوالے سے دیئے جانے
والے اجازت ناموں پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے اجازت دینے والوں کے
اختیارات کو بھی چیلنج کردیا ۔ اسی کے ساتھ ماحولیاتی اجازت نامہ پر بھی
اعتراض کیا گیا۔
اس بارے میں حکومت کے موقف کو پیش کرتے ہوئے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے
عدالت کو بتایا کہ موجودہ ایوان پارلیمان کا افتتاح 1927میں ہوا تھا۔ یہ
بہت قدیم عمارت ہے اس حفاظتی نقطۂ نظر کے علاوہ جگہ کی بھی تنگی ہے۔ اس
میں نہ آگ سے بچاو کا مناسب اہتمام ہے اور نہ یہ زلزلہ سے سے محفوظ ہے۔
تشار مہتا نے حفاظتی نقص کو ثابت کرنے کے لیے 2001 کے پارلیمانی حملے کا
بھی حوالہ دیا۔ تشار مہتا نے کہا کہ تمام مرکزی وزارتوں کے دفاتر کے ایک
مقام پر ہونے سے نہ صرف وقت بچے گا بلکہ کرایہ کی بھی بچت ہوجائے گی ۔ تشار
مہتا نے فائدے تو خوب گنائے لیکن اس سے سرکاری خزانے پر پڑنے والے بوجھ کو
یکسر نظر انداز کردیا ۔ ویسے یہ ساری باتیں اس لیے بھی بے معنیٰ ہوگئی ہیں
کہ مودی یگ میں تمام فیصلے تو وزیر اعظم کے دفتر میں ہوجاتے ہیں۔ دوسری
وزارتوں کا کام تو صرف احکامات کی تعمیل ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ نے فاصلوں کو
یکسر ختم کردیا ہے۔ اب کوئی ڈاکیہ احکامات لے کر نہیں جاتا بلکہ منٹوں کے
اندر ای میل ساری دنیا میں پہنچ جاتا ہے اس لیے فاصلے والی دلیل بھی بے وزن
ہے۔
جسٹس کھانولکر کی قیادت میں جسٹس دنیش مہیشوری اور سنجیوکھناّ کی بنچ اس
قضیہ کی سماعت کررہی ہے ۔ عدالت نے اس شرط پر بھومی پوجن کی اجازت دی کہ جب
تک اس کا حتمی فیصلہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک حکومت کوئی تعمیری یا انہدامی
کارروائی کا آغاز نہیں کرے گی اور نہ کوئی پیڑ گرایا جائے گا۔ اس بیچ وہ
صرف کا غذی اجازت نامہ حاصل کرنے کا کام کرسکتی ہے۔ اس عمارت کی ڈیزائن کا
کام چونکہ گجرات کی ایک کمپنی ایچ سی پی کررہی ہے اس لیے اس میں اقربا
پروری کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ ویسے اس کی تعمیر کا کام ٹاٹا پراجکٹ
نامی کمپنی کو دیا گیا ہے۔ اس بابت دہلی ہائی کورٹ نے بھی ڈی ڈی اے کے
اختیارات سے متعلق اپنا ایک پرانا فیصلہ منسوخ کرکے استغاثہ کے حق میں
سماعت کررہا ہے۔ کانگریس اور دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے کورونا وائرس
وبائی مرض اور کسانوں کے احتجاج کے درمیان نئے پارلیمنٹ کی عمارت کی سنگ
بنیاد کی تقریب اور اس کی ضرورت پراعتراض کیاہے۔کانگریس کے ترجمان رندیپ
سنگھ سرجے والا نے اس بابت کہا کہ 16 دن سے دہلی کی سرحدوں پر جاری کسانوں
کے احتجاج کے دوران وزیر اعظم اپنے لیے محل بنا رہے ہیں کہہ کر تنقید کا
نشانہ بنایا۔ یوتھ کانگریس نے معیشت کے سخت بحرانی دور میں جبکہ لاکھوں
افراد اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اس تعیش کی ضرورت پر سوال کھڑے
کیے۔ ویسے موجودہ حکومت کی بے حسی پر ساحر لدھیانوی کا یہ شعر صادق آتا
ہے؎
فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے
امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
|