اگر باڑ لگانا اتنا ہی لازم ہے تو ۔۔۔۔

جانے کیوں ملک کے کرتا دھرتا یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیکورٹی خدشات کے نام پرگوادر کے گرد لگائی جانے والی باڑ سےاگر وہشہر کو محفوظ بھی کرپائیں،توان کی’’اچھی کارگردگی‘‘ اور اسی کارگردگی کے ذریعے صوبے میں سب کچھ ٹھیک ہونے کے دعوئے کس قدر پسپا ہو جائیں گے ؟

یہ خار دار باڑیں تو اب یہثابت کریں گیکہ بلوچستان کا مسئلہ نا تو صرف دو تین سرداروں کا مسئلہ ہے اور نا ہی دو تین اضلاع میں بتلائی جانے والی شورش کا۔

بلوچستان کے باسی جو ریاست کےپالیسی سازوں کے دیوار سے لگانے والی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی متنفر نظر آتےہیں ، ناجانے کیوں ابان کو باڑ سے لگا کر ان کی نفرت کرنے کی تمام وجوہات کو سو فیصدی جائز ثابتکیا جارہا ہے۔

ویسے اگر باڑ لگانا انتا ہی لازم ہے تو اس باڑ کو وہاں کیوں نہیں لگایا جاتا جہاں اس کی اشد ضرورت ہے، جس کےلگنےسے نا صرف قوم کا مستقبل محفوظ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے ثمرات سے توملک کی قسمت کے سنورنے کی بھی امید کی جا سکتی ہے۔

کیوں نا بحثیت قوم حکومت سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ ایک آہنی باڑ اپنی ستر سال سے قائم و دائم ان غلط ترجیحات کے گرد لگائیں ، جس کی وجہ سے عوام کو درپیشصحت، تعلیم، مہنگائی،بے روزگاریسمیت دیگر تمام بنیادی مسائل ہمیشہ سےپس منظر میںچلے جاتے ہیں۔

خاردار تاریں اگر ہر دور کے وزرا اور مشرا کے زبانوں کے گرد لگجائیں تو نا صرف ملک کا سیاسی ماحول صحت افزا بنسکتا ہے بلکہ شاید اس سے ان کے زیردست اداروں سے بھی معیار کی کوئی توقع کی جا سکتی ہے۔

رکاوٹیں اگر لگانا ہی مقصود ہے تو یہ رکاوٹیں سیاستدانوں کی ہر صورت میں اقتدار میں آنے والی خواہشات کے گردقائم ہونی چاہیں، جس کی وجہ سے ملک کینوزائیدہ جمہوریتنوزائیدہ ہی رہ جاتی ہے اور موقع دے کر موقع سے فائدہ آٹھانے والےطویل العمر ہو جاتے ہیں۔

کانٹوں کے باڑ کی اشد ضرورت تو محکمہ جزبات کے جزباتوں کے گرد لگانے کی بھی ہے، جن کی ’’جزباتیت‘‘ نے کئی مواقعوں پر نا صرف قوم کو بہت کچھ بھگتنے پر مجبور کیا ہے، بلکہ ان کیاپنے ہی ملک کو فتح کرنے کیروش ان کے اور عوام کے درمیان قائم کردہ خلیج کو گہری سے گہری تر کرتی آ رہی ہیں۔

حصار تو معاشرے کو یرغمال بنانے والے ان مزہبی گروہوں کے گرد بھی قائم کرنی چاہیے جن کی دی گئی تعلیمات نے ملک سے رواداریجیسے عنصر کو بالکل معدوم کردیا اورابہر دوسرا فرد خون کا پیاسا نظر آتا ہے۔

مظبوط باڑیں تو اس گودی میڈیا اور ان پر ڈفلی بجانے والوں کی تابعداری کی راہ میں بھی حائل کرنی چاہیں، جن کی وجہ سے استحصال کے خلاف بلند کی گئی مزاحمتی آواز دھیمی پڑ جاتی ہے۔

کیل کانٹے کی دیوار تو ملک میں مافیاز ، سیٹھوں ، ٹھیکیداروں کی بربریت کرنے کے اس کھلی چھوٹ کے خلاف قائم ہونی چاہیے جن کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کا جینا دو بھر ہوتا جا رہا ہے ۔
اسی طرح کی باڑیں تو معاشرے میں پنپتی ان منفی رویے کے گرد بھی تعمیر کرنی چاہیے جس کی وجہ سے خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ باڑوں کی ان قسموں کے لگانے کا عمل گواد کے گرد لگائی جانے والی باڑ کی نسبت نہایت کھٹن اور طویل ہے، مگر شروعاتکہیں سے بھی کی جائیں تو یقینا شہریوں کے تحفظ اور اُن کی فلاح و بہبود کے نام پر لگائی جانے والی گوادر جیسی استحصالی باڑ کی ضرورت نا پڑے ۔


 

Rizwan Malik
About the Author: Rizwan Malik Read More Articles by Rizwan Malik: 6 Articles with 3454 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.