کسان تحریک کے بدولت: سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ

دہلی کے اطراف کسانوں کے احتجاج کی خبر کے درمیان تلنگانہ کی ایک خبر نے چونکا دیا ۔ وہاں پر بھدرادری ضلع کے کوتہ گوڑم ٹاون میں ایک شیر نے گائے پر حملہ کردیا۔یہ شیر جنگل سے انسانی آبادی میں گھس آیا جس کے نتیجہ میں گائے زخمی ہوگئی۔ اس واردات سے لوگوں میں خوف اور دہشت پھیل گئی کیونکہ یہ شیر گذشتہ چند دنوں سے انسانی آبادی میں نظرآرہا ہے ۔ اس خبر اور کسانوں کی تحریک میں یہ یکسانیت ہے کہ جس طرح شیر جنگل میں رہتا ہے اسی طرح کسان گاوں دیہات میں رہتے ہیں لیکن جب شیر شہر کا رخ کرتا ہے تو وہاں خوف و دہشت کا ماحول بن جاتا ہے اور فی الحال دہلی کی یہی حالت ہے ۔ اس شیر نے بھی کسی بکری یا انسانوں پر حملہ کرنے کے بجائے گائے پر حملہ کردیا یعنی اسے گائے سے خطرہ محسوس ہوتا ہے اس طرح کسانوں کی مرکزی حکومت کے ساتھ تصادم سے مزید ایک مماثلت پیدا ہوگئی اس لیے کہ جس دن یہ وارادت ہوئی کرناٹک اسمبلی میں گئوکشی قانون پر ہنگامہ آرائی ہورہی تھی ۔ بی جے پی ہی خود کو گئورکشک بتا کر گائے کے نام پر عوامی جذبات کا سب سے زیادہ استحصال کرتی ہے۔

کوتہ گوڑم آنے سے قبل اس شیر نے نے ٹیکولاپلی گاوں میں ایک بچھڑے پر بھی حملہ کیا تھا تاہم مقامی افراد کی جانب سے زور دار آوازیں نکالنے پر وہ وہاں سے فرار ہوگیا ۔ یہ کسان بھی جب پنجاب سے نکل کر ہریانہ میں داخل ہوئے تو کھٹر سرکار نے خوب شور شرابہ کیا بلکہ مختلف انداز میں کسانوں کو واپس پنجاب میں کھدیڑنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہی ۔ شیر دل کسانوں نے واپس جانے کے بجائے اپنا دہلی کی جانب کوچ جاری رکھا اور دہلی کی سرحد پر پہنچ کر اس کو گھیر لیا۔ شیر کے آنے کی اطلاع ملتے ہی محکمہ جنگلات کے عہدیدار کوتہ گوڈم ٹاون میں پہنچے اور مقامی افراد سے اس سلسلہ میں تفصیلات معلوم کیں۔ مرکزی حکومت نے ذرائع ابلاغ کی مدد سے گھر بیٹھے سب کچھ معلوم کرلیا ۔ محکمہ جنگلات کے عہدیدار اس شیر کے پنجوں کے نشان کے ذریعہ اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور مرکزی حکومت کسان تحریک کے پس پشت سیاسی سازش کا پتہ لگانے میں مصروف ہے ۔ اس کو وہاں پر کبھی خالصتانی نظر آجاتے ہیں تو کبھی چین یا پاکستان دکھائی دینے لگتا ہے۔ اب کسی نظر کے ساتھ ساتھ دماغ بھی خراب ہوگیا ہوتو اور کیا ہوسکتا ہے؟ اسے اپنے پرائے دکھائی دیتے ہیں اور پرائے اپنے۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ کسانوں کی تحریک بالآخر اس مرحلے میں داخل ہوگئی جہاں اس کو کبھی نہ کبھی پہنچنا تھا یعنی اب معاملہ چند مطالبات کو منوانے سے آگے بڑھ کر ایک نظریاتی تصادم میں بدل گیا ہے۔ اتفاق سے یہ کشمکش ہندوتوا اور سیکولرزم کے درمیان نہیں ہے کہ جس کا فائدہ ہمیشہ بی جے پی بڑی آسانی سے اٹھا لیتی ہے بلکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام اور محنت کشوں کے بیچ کی لڑائی ہے۔ اس موضوع پر فرقہ وارانہ کھیل حکومت کے لیے مشکل ہے۔ مرکزی حکومت میں اگر ذرا سی بھی دانشمندی ہوتی تو اس نوبت کے آنے سے پہلے ہی کسانوں کو سمجھابجھا کر لوٹا دیاجاتا لیکن جب کسی دماغ میں رعونت سما جائے تو عقل ماری جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ مرکزی حکومت کے ساتھ ہوا۔ سرکار نے اپنی اور کسانوں کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا، روایتی طریقہ سے اس کی راہ میں روڈے اٹکائے۔ انتظامیہ کی طاقت سے اسے کچلنے کی سعی کی مگر اس میں ناکامی کے بعد میڈیا کے ذریعہ دشنام طرازی کا طوفان برپا کردیا ۔ ان تمام محاذ پر ناکامی کے بعد اب وہ ایک ایسے دلدل میں پھنس چکی ہے کہ اس کا باہر نکلنا نا ممکن سا ہوگیا ہے۔

کسان تحریک نے جب اڈانی اور امبانی کے بائیکاٹ کا نعرہ بلند کیا تو حکومت کے ہوش ٹھکانے آگئے ۔ اس نے جب ’جیو‘ کا نمبر دوسری ٹیلی کام کمپنیوں میں پورٹ کرائے جانے کی دعوت دی تو ریلائنس کے اندر ایک زلزلہ برپا ہوگیا جس سے سرکار دربار ڈولنے لگا۔ ’اے بی پی نیوز‘ کے مطابق کسانوں کے ذریعہ ’جیو‘ کے بائیکاٹ کا اثر زمینی سطح پر نظر آنے لگا ہے۔ بیشتر افراد ’جیو‘ سے ائیرٹیل یا ووڈا-آئیڈیا پر اپنا نمبر پورٹ کراتے ہوئے دکھائی دینے لگے ہیں کیونکہ ’جیو‘ کے بعد ائیرٹیل اور ووڈا-آئیڈیا ہی اچھے آفر دیتی ہے اور ان کی خدمات بھی اچھی ہیں ۔ذرائع ابلاغ میں اس پر حیرت جتائی جارہی ہے کہ دہلی کے ٹیکری بارڈر پر جس چھتری کے نیچے موبائل نمبر پورٹ کرنے کا کام چل رہا ہے، وہ چھتری ووڈافون-آئیڈیا یعنی ’وی آئی‘ کا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس چھتری کے اوپر ٹنگےبینر ٹنگا پر ائیرٹیل کا لوگو بنا ہوا ہے اور بینر پر لکھا ہوا ہے ’’کسان تحریک کو کامیاب بناتے ہوئے جیو کے نمبر کا بائیکاٹ کر اپنا نمبر پورٹ کروائیں۔‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ ائیرٹیل اور ووڈا-آئیڈیا کسان تحریک سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
 
یہ بات اگردرست بھی ہے تو اس میں حرج کیا ہے؟ موجودہ حکومت نے کسان بل میں بھی کھلے بازار پر زور دیا ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ کسان سرمایہ داروں کی مسابقت کا فائدہ اٹھائیں تو کسان وہی کررہے ہیں ۔ یہ کسان اگر دیگر کمپنیوں کو چھوڑ کر ’جیو‘ کے صارف بن رہے ہوتے تو گودی میڈیا اسے امبانی پر کسانوں کے اعتماد بحالی پر محمول کرتا لیکن چونکہ اس کے خلاف ہورہا ہے اس لیے ان کی نانی مری ہوئی ہے۔ یہ تو بازار کا اصول ہے کہ جہاں گاہک متوجہ ہورہے ہوںوہاں سہولت مہیا کر ائی جائے۔ اس طرح کسانوں کو آسانی ہوگئی اور ’جیو‘ کے حریفوں کا فائدہ ہو گیا۔ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ اے بی پی کے نامہ نگار نے جب ٹیکری بارڈر پر قطار میں لگے ہوئے لوگوں سےدریافت کیا تو انہوں نےبتایا کہ وہ اپنا ’جیو‘ کا نمبر دوسری کمپنی میں اس لیے تبدیل کروا رہے ہیں کیونکہ وہ کسان تحریک کی حامی ہیں اور اس کو کامیاب بنانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ ایک طرف وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین کو ورغلایا گیا ہے اس کے برعکس مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت کے تینوں قوانین کا سیدھا فائدہ صنعتی گھرانوں کو ملے گا۔ یہ کساناس کی مخالفت کر رہے ہیں اور وہ بھی اسی کی مخالفت میں اپنا نمبر ’جیو‘ سے ائیر ٹیل یا ووڈا-آئیڈیا میں پورٹ کروا رہے ہیں۔

اس موقع پر ریلائنس کو چاہیے تھا کہ وہ کسانوں کا دل جیتنے کے لیے کوئی مہم چھیڑتی لیکن وہ تو روتے ہوئے بچے کی مانند اپنی مائی باپ سرکار کی خدمت میں حاضر ہوگئی۔ جیو نے سرکاری ادارے ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا کو خط لکھ کر ووڈا، آئیڈیا اور ایئرٹیل کے خلاف شکایت کردی ۔ ریلائنس نے الزام لگایا ہے کہ ووڈا آئیڈیا اور ایئرٹیل پنجاب کسانوں کے احتجاج کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بھائی بازار میں تو ہرکوئی فائدہ اٹھانے کے لیے بیٹھا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ سرکار سرمایہ داروں کے فائدے کی خاطر قوانین بنارہی ہے ایسے میں ٹیلی کام سکریٹری ایس کے گپتا کو خط میں یہ الزام مضحکہ خیز ہے کہ ووڈا-آئیڈیا اور ایئرٹیل نے ٹرائی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ جیو نے روتے ہوئے یہ شکایت بھی کی کہ ووڈا آئیڈیا اور ایئرٹیل شمالی بھارت کے مختلف حصوں میں صارفین کو راغب کرنے کے لیے غیر اخلاقی راستے اپنا رہی ہیں۔ اس میں اخلاقیات کا کیا عمل دخل ؟ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ یہ کمپنیاں کسانوں کے احتجاج کے ذریعہ پیدا ہونے والے غصے سے فائدہ اٹھانے کے لیے جھوٹے پروپیگنڈے کا سہارا لے رہی ہیں۔امبانی نے تو نیوز ۱۸ کے نام سے جھوٹ کا کارخانہ لگا رکھا ہے جو دن بھر کذب گوئی میں مصروف ِ عمل رہتا ہے۔ اس لیے کم ازکم امبانی کو یہ رونا دھونا زیب نہیں دیتا۔

ریلائنس جیو نے اپنے مذکورہ خط میں یہ تسلیم کیا کہ ’’ہم ایک بار پھر آپ کی توجہ دلاتے ہیں کہ صارفین کے تاثرات کو متاثر کرنے کے لیے حریفوں کے مذکورہ بالا جھوٹے پروپیگنڈے کے نتیجے میں ہمیں بڑی تعداد میں سِم کارڈ ’’تبدیلی‘‘ کی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔‘‘تاہم اس کے جواب میں بھارتی ایئرٹیل اور ووڈافون آئیڈیا نے جیو کے ان ’’بے بنیاد‘‘ الزامات کی تردید کردی ۔ ایئرٹیل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ بے بنیاد الزامات عائد کرنے والے، دھونس دھمکیوں کو اپنانے اور دھمکی آمیز رویے کو استعمال کرنے والے کس حد تک جائیں گے۔ ہم نے ہمیشہ اپنے کاروبار کو شفافیت کے ساتھ چلایا ہے جس پر ہمیں بہت فخر ہے اور جس کے لیے ہمیں جانا جاتا ہے۔‘‘ اس بیان کو پڑھتے وقت بے ساختہ امبانی و اڈانی کے بجائے شاہ اور مودی کی شبیہ ذہن میں ابھرتی ہے۔ ایئرٹیل نے کہا کہ جیو کی شکایت کو ’’قابل مذمت قرار دے کر مسترد کیا جانا چاہیے‘‘۔ یہ نہیں ہوگا کیونکہ سرکاری احسانمندی اس کی اجازت نہیں دیتی۔ کسانوں کی گمراہی کے حوالے سرکار اور امبانی کے لب و لہجے میں کمال کی مماثلت ہے ۔ وزیراعظم نے بھی گجرات کے اندر کسانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دلّی کے مضافات میں جو کسان اکٹھا ہوئے ہیں‘ انہیں ایک سازش کے تحت زرعی اصلاحات کے بارے میں گمراہ کیا جارہا ہے۔

وزیراعظم نے اپوزیشن پارٹیوں پر کسانوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ جو زرعی اصلاحات کی گئی ہیں وہ بالکل وہی ہیں جن کا مطالبہ کسان تنظیمیں اور حتی کہ اپوزیشن پارٹیاں کئی سال سے کرتی رہی ہیں۔ اس کے برعکس کسان رہنماوں کا کہنا یہ ہے کہ امبانی اور اڈانی نے سرکار کو گمراہ کردیا ہے۔ یہی بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے ایک گمراہ سرکار اب عام لوگوں کو کسانوں کے تعلق سے گمراہ کررہی ہے۔ریلائنس جیو کا یہ الزام بھی ہے کہ یہ دونوں حریف کمپنیاں اپنے ملازمین، ایجنٹوں اور خوردہ فروشوں کے ذریعے ریلائنس کے خلاف منفی مہم چلارہی ہیں۔ یہی بات کسان بھی کہہ سکتے ہیں کہ سرکار اور ان کے حلیف سرمایہ داروں نے اپنے چیلوں یعنی چھٹ بھیا رہنماوں کی مدد سے کسانوں کو بدنام کرنے کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ ریلائنس جیسی کمپنی کے ذریعہ غلط طریقے سے راغب کرنے کی کوشش کا الزام اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے۔ ان کے مطابق ووڈا آئیڈیا اور ایئرٹیل اپنے آپ کو کسان دوست اور ریلائنس جیو کو کسان مخالف بتارہے ہیں۔ یہ روزِ روشن کی مانند سچ ہے اور اس سے ریلائنس جیو کی شبیہ بگڑ نہیں رہی ہے بلکہ اس کا اور اس کی حامی سرکار اصلی چہرہ سامنے آرہا ہے بقول امیر مینائی ؎
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223246 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.