10 دسمبر 2020 جدید ہندوستانی تاریخ کا ایک یادگار دن ہے۔
اس روز دہلی میں نئی ایوانِ پارلیمان کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا
اورمستقبل کے حوالے سے وزیر اعظم نے یہ بلند بانگ دعویٰ کیاکہ پارلیمنٹ کی
نئی عمارت 21 ویں صدی کے بھارت کی امنگیں پوری کرنے کا مقام ہوگا۔ نئی
امنگیں کیسی ہوں گی اس کے ایک مثال تو اسی دن دارالخلافہ دہلی ہی میں نائب
وزیر اعلیٰ منیش سسودیہ کے گھر پر ان کی غیر موجودگی میں حملہسے سامنے
آگئی؟ یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رکا بلکہ کولکاتہ میں بی جے پی کے صدر جگت
پرشاد نڈا کے قافلے پر بھی حملہ ہوگیا۔توکیا ملک کے باشندوں کی امنگیں ایسی
ہوں گی؟ مستقبل کے ہندوستان کا سیاسی ماحول کیسا ہوگا اس کا اندازہ ایوان
پارلیمان کی شاہانہ عمارت اور اس کے رنگ روغن سے نہیں بلکہ ان تشویشناک
سانحات اور ان پر ہونے والے سیاسی ردعمل سے لگایا جاسکتا ہے۔ آگے بڑھنے سے
قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کمپلیکس میں ایوان پارلیمان کی نئی
عمارت کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے سپنوں کے سوداگر وزیر اعظم نریندر مودی نے
کون کون سے خواب کس کس طرح سے فروخت کیے؟
آٓل انڈیا ریڈیو کے مطابق سنگ بنیاد کی تقریب میں پہلے تو مختلف مذہبی
رہنماؤں نے سرو دھرم پرارتھنا کی اوراِس کے بعد اظہارِ خیال کرتے ہوئے
مودی جی بولے چونکہ نئی عمارت جدید طرز کی کئی سہولیات سے آراستہ ہوگی اس
لیےسے ارکانِ پارلیمان کے کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا ۔ یہ بالکل
درست بات ہے کہ جدید سہولیات کام کو سہل اور سریع الاثر بناتی ہیں لیکن
سوال یہ ہے کہ وہ کون سے کام ہیں جن کے لیے ان آلات کا استعمال کیا جائے
گا؟ پچھلے ساڑھے ۶ سالوں میں تو وزراء کی سب سے اہم مصروفیت انتخابی مہم
چلانا رہا ہے۔ اس کے لیے طرح طرح کی جھوٹ گھڑنے اور پھیلانے میں وہ لوگ
مسلسل مصروف عمل رہے ہیں ۔ اپنے مخالفین کو پریشان اور بلیک میل کرنا ۔
ڈرانا دھمکانہ اور ان پر حملے کروانا جب وہ ڈر جائیں تو انہیں خرید کر
صوبائی اقتدار کا تختہ پلٹ دینا یہی سب ہوتا رہا ہے۔ وہ کام اگر سرعت سے
ہونے لگے تو اس سے عوام الناس کا کیا فائدہ ہوگا؟
وزیر اعظم نے یہ اعلان بھی کیا کہ بھارت کا جمہوری نظام صدیوں کے تجربے کے
بعد تیار ہوا ہے۔ اس کی دعویٰ کی حقانیت سے قطع نظر یہ سوال زیادہ اہمیت کا
حامل ہے کہ مستقبل میں برسرِ اقتدار طبقہ اس سیاسی نظام کا کیا حشر کرے گا؟
وزیر اعظم نے عوام سے یہ عہد کرنے کی اپیل کی کہ اُن کیلئے قومی مفاد سے
بڑا کوئی دوسرا مفاد نہیں ہوگا لیکن ان کی پارٹی تو کبھی اپنے مفاد سے آگے
کی سوچتی ہی نہیں ۔ اس کی ساری تگ و دو کبھی راجستھان کی حکومت گرانے کے
لیے ہوتی ہے تو کبھی مہاراشٹر میں اقتدار کو تبدیل کرنے کی ریشہ دوانیوں
میں صرف ہوتی ہیں۔ کیا ملک کے اندر حزب اختلاف کا خاتمہ ہی سب سے اہم قومی
مفاد ہے؟ ایک طرف دن رات یہ کالے کرتوت اور دوسری جانب یہ کہنا کہ قومی
مفاد مقدم ہے مگر مختلف نظریات اور خیالات سے ایک متحرک جمہوریت کو تقویت
ملتی ہے، منافقت نہیں تو اورکیا ہے؟
ایوانِ پارلیمان کی عمارت کے سنگ بنیاد سے دودن بعد تمل اداکار کمل ہاسن نے
مرکزی حکومت پر نشانہ سادھا۔ انہوں نے کہا کہ جب ملک کورونا سے جوجھ رہا ہے
اور وباء کی وجہ سے عوام کی نوکریاں جارہی ہیں ۔ ایسے میں نئے ایوان کی کیا
ضرورت؟ وزیر اعظم کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے ۔ انہوں نے سوشیل میڈیا پر
لکھا جب کورونا کے سبب آدھا ملک بھوکا ہے اور ملازمتیں جارہی ہیں تو ہزار
کروڈ کا نیا ایوان کیوں؟ جب چین کی دیوار بنانے کے دوران ہزاروں لوگوں کی
جان گئی تھی تب حکمرانوں نے کہا تھا کہ یہ لوگوں کے تحفظ کی خاطر ضروری تھا۔
آپ کس کی حفاظت کے لیے یہ ایوان بنا رہے ہیں ۔ منتخبہ عزت مآب وزیر اعظم
برائے مہربانی جواب دیں ‘‘
مذکورہ تقریب کے موقع پر ایوانِ زیریں کے اسپیکر اوم برلا نے کہا کہ’نئے
خود کفیل اور خوشحال ہندستان‘ کی علامت نئی ایوانِ پارلیمان کی عمارت پوری
دنیا کوہمیشہ آئینی اور جمہوری اقدار کا مثالی پیغام دیتی رہے گی۔ برلا جی
نہیں جانتے کہ عمارت تو نہیں بولتی مگر حکمرانوں کا عمل بولتا ہے ۔ فی
الحال وہ جو کچھ بول رہا ہے اس کا آئین سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
ملک میں آئے دن آئینی اقدار کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور جمہوریت کو
پامال کیا جاتاہے۔ کسان بل کو ایوان بل میں جس طرح شور شرابے کے بیچ منظور
کرلیا گیا وہ سب کو یاد ہے۔ قانونی ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر کیے جانے
والے فرضی انکاونٹرس پر نہ صرف فخر جتایا جاتا ہے بلکہ ان کا جشن منایا
جاتا ہے۔ راجدھانی دہلی کے اندر منیش سسودیہ کے گھر پر ہونے والا حملہ اس
امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اب اس ملک میں جس کی لاٹھی اس بھینس کا بول
بالہ ہے۔ منیش سسودیہ دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ ہیں ۔ ان کے گھر پر ہونے
والا حملہ نیز اس پر کی جانے والی بیان بازی یہ بتاتی ہے کہ مودی یگ میں
قومی سیاست کے انحطاط کا یہ حال ہے کہ ؎
بجھا بجھا کے سجاتا ہے وہ منڈیروں پر
اسے چراغ نہیں روشنی سے نفرت ہے
منیش سسودیہ نے خود ایک ویڈیو ٹویٹ کرکے میڈیا کواس حملے کی اطلاع دی ۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ان کی غیر موجودگی میںبی جے پی کے کارکنان گھر کا
دروازہ توڑ اندر گھس گئے۔ ان لوگوں نے اہل خانہ پر حملہ کرنے اور توڑ پھوڑ
کی کوشش کی ۔ اس سنگین الزام کے جواب میں بی جے پی کے سکریٹری ہرش ملہوترا
نے الٹا سسودیہ پر 12جولائی 2020کی ویڈیو وائرل کرنے کا الزام لگا دیا ۔
دہلی کی پولس نے بھی ڈپٹی وزیراعلیٰ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے گھر کے
دروازے کی تصویر ٹوئٹر پر ڈال دی اور دعویٰ کیا کہ دروزے کو توڑنے کا الزام
بے بنیاد ہے لیکن کم ازکم یہ تسلیم کیا کہ جبراً گھر میں گھسنے کی وارادت
تو ہوئی۔ یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں ایسا اگر کوئی مسلمان کرتا تو اسے
لشکر یا جیش سے جوڑ دیا جاتا۔ کسی سکھ کی جرأت ہوتی تو خالصتانی قرار پاتا
اور کوئی ہندو بی جے پی کے رہنما کی جانب نظر اٹھا کر دیکھتا تو اس کو اربن
نکسل قرار دے کر این ایس اے کے تحت گرفتار کرلیا جاتا لیکن اس بار حملہ
آور تو سرکاری داماد بی جے پی والے تھے اس لیے ۶ لوگوں کو حراست میں لے کر
ان پر ایف آئی آر درج کی گئی ۔ بعید نہیں کہ ابھی تک تو ان کی ضمانت بھی
ہوچکی ہواور وہ اگلے دنگے کی تیاری کررہے ہوں ؟
یہ واقعہ اس دہلی شہر کے اندر رونما ہوا جہاں پولس نے جامعہ ملیہ کی
لائبریری میں گھس کر طلباء اور طالبات کو زدو کوب کیا جاتا ہے۔ ان کے جلوس
کو روکنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ سی اے اے کے خلاف
احتجاج کرنے والے پر امن مظاہرین کو دہلی فساد کا مجرم بنادیا جاتا ہے مگر
حسبِ معمول بھگوا دہشت گردوں کے ساتھ پولس کا رویہ یکسر مختلف ہے ۔ پولس یہ
بھول جاتی ہے کہ اسےحکمراں جماعت کے نہیں بلکہ سرکاری خزانے سےتنخواہ ملتی
ہے۔ ان کا فرض منصبی حکومت کا دفاع نہیں بلکہ مظلوم کی حمایت ہے۔ سسودیہ کا
گھر جس علاقہ میں ہے وہاں کے ڈی سی پی ایش سنگھل نے بتایا کہ مظاہرے کے ایک
دن قبل بی جے پی کارکن حکم سنگھ نے احتجاج کی تحریری اجازت طلب کی تھی لیکن
کورونا کے ضابطوں کی وجہ سے اسے مسترد کردیا گیا۔ پولس کو پتہ تھا کہ وہ
لوگ نہیں مانیں گے اس لیے اضافی دستے تعینات کرنے کے ساتھ ساتھ بیری کیڈ
بھی لگا دیئے گئے تھے۔ اس انتظام کے باوجود ۱۵۰ لوگ جمع ہوگئے اور ان میں
کچھ رکاوٹوں کو پھاند کر اندر گھس گئے ۔ اس کے بعد پولس تفتیش کےبہانے ان
پر لگانے کے لیے ان دفعات کو تلاش کرنے لگی کہ کانہ پوری ہوجائے اوروہ بہ
آسانی چھوٹ بھی جائیں ۔
دنیا میں کسی بھی پارٹی کے لوگ ایسی غنڈہ گردی کریں تو وہ ان سے لاتعلقی کا
اظہار کرتی ہے یا معافی مانگتی ہے لیکن بی جے پی نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا
بلکہ الٹا عام آدمی پارٹی پر یہ الزام لگایا کہ وہ غنڈوں کا گروہ بن چکی
ہے۔ دہلی میں بی جے پی کے نائب صدر اشوک گویل نے کہا کہ دہلی کی صوبائی
حکومت تماش بین ہوکر اپنے رہنماوں کی مجرمانہ سرگرمیوں کو بڑھاوا دے رہی ہے
یہی وجہ ہے کہ درگیش پاٹھک نے وزیر اعلیٰ کے گھر پر دھرنا دینے والے میئرس
کو منیش سسودیہ کی موجودگی میں جان سے مارنے کی دھمکی دی ۔ اس کو کہتے ہیں
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ۔ گویل نے یہ تو کہہ دیا کہ بی جے پی اس غنڈہ
گردی کو برداشت نہیں کرے گی اور اس کے خلاف لڑے گی لیکن بھول گئے اسی شہر
میں ’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو ‘ کا نعرہ کس نے لگایا تھا؟ کس
نے یہ دھمکی دی تھی کہ ’بولی سے نہیں تو گولی سے سمجھا دیں گے‘ ۔ وہ کون
تھا جس نے پولس افسر سے کہا تھا کہ اگر دو دن میں یہ شاہین باغ نہیں ہٹا تو
ہم ہٹا دیں گے؟ یہ ساری چیزیں یو ٹیوب پر موجود ہیں اس لیے جن کے گھر شیشے
کے ہوتے ہیں وہ دوسروں کو پتھر نہیں مارتے۔
اشوک گویل نے اپنے کارکنان کی شرمناک حرکت پر معافی مانگنے کے بجائے الٹا
اروند کیجریوال اور منیش سسودیہ سے اپنے ساتھیوں کی مجرمانہ حرکتوں کے لیے
تینوں میئرس سے معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا ۔ یہ چوری اور اس پر سینہ
زوری کی بہترین مثا ل۔ ان بی جے پی والوں نے حال میں کسانوں کے خلاف کیسے
کیسے غیر ذمہ دارانہ بیانات نہیں دیئے اور اوچھی بہتان طرازی نہیں کی لیکن
کیا ان کو کبھی معافی مانگنے کی توفیق ہوئی ؟ کیا ان کی اس ببدزبانی کے لیے
وزیر اعظم اور وزیر داخلہ معافی مانگیں گے؟ عام آدمی پارٹی کے خلاف بی جے
پی کی یہ مہم محض زبانی بیان بازی تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ لوگ پولس میں
شکایت بھی درج کروا رہے ہیں۔ دہلی بی جے پی کے سکریٹری جنرل ہر ش ملہوترا
کی قیادت میں پارٹی کے ایک وفد نے ڈی سی پی کے دفتر میں پاٹھک اور سسودیہ
کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ اس شکایت میں بی جے پی کے میونسپل کونسلروں کے
قتل کی سازش کا الزام ہے۔
ہرش ملہوترا کا کہنا ہے کہ سسودیہ کی موجودگی میں کی جانے والی درگیش پاٹھک
کی تقریر کو ساری دہلی دیکھ چکی ۔ اس میں وہ سرِ عام کونسلرس کو مارڈالنے
کی بات کررہے ہیں ۔ اس شکایت سے قبل سوِل لائنس پولس تھانے میں بی جے پی
رکن اسمبلی سنجے مہاور بھی ایک شکایت درج کراچکے ہیں ۔ اس مبینہ قتل کی
دھمکی پر وہ جماعت کانپ رہی ہے کہ فرضی انکاونٹر جس کا شعار رہا ہے۔ ایک
زمانے تک نریندرمودی نے اس کے سہارے گجرات میں سرکار چلائی ۔ امیت شاہ کو
ان الزامات کے تحت تہاڑ جیل کی ہوا کھانی پڑی اور آج کل اترپردیش میں اس
پر یوگی جی کو ناز ہے۔ عآپ کے رہنما پاٹھک نے اس ویڈیو میں چھیڑ چھاڑ کرکے
انہیں بدنام کرنے کی سازش کا الزام لگایا ۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ
امیت مالویہ کی ایک ویڈیو کے جھوٹے ہونے کی تصدیق ٹوئٹر کرچکا ہے۔ یہ ان کی
پرانی عادت ہے۔ پاٹھک کے مطابق کسان تحریک سے توجہ ہٹانے کی خاطر بی جے پی
والے یہ تماشہ کررہے ہیں ۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|