تیسری جنگ عظیم اسرائیل اور پاکستان!

اس وقت پوری دنیا میں اسرائیل کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کئے جانے یا نہ کئے جانے کے بارے میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا ہویا قومی و بین الصوبائی حلقے ہر جگہ نظام عالم کی تبدیلی بارے گفت و شنید ملتی ہے۔ سب سے پہلے میں یہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے خیالات صیہونی ریاست کے بارے میں پیش کرنا چاہوں گا ۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ اسرائیل کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ تو قائد اعظم نے جواباََ کہا تھا کہ اگر پوری دنیا اسرائیل کو تسلیم کر لے تو بھی ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اگر ہم یہ قبضہ درست تسلیم کر لیں تو ہمارے پاس کوئی جواز نہیں بچتا کہ ہم بھارت کے کشمیر پر قبضے کو صحیح تسلیم نہ کریں۔بنیادی طور پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی یہ سوچ دقیق بینی اور دور اندیشی ثابت ہوئی جو آج ستر سالوں کے بعد ہمارے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے۔مسلمان ممالک نے عملی طور پر فلسطینیوں کو اپنے بارے میں متنفر کیا ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ جب اسرائیل اپنا دارالحکومت تل ابیب سے یر و شلم شفٹ کر رہا تھا تو اس تقریب میں ایک عرب وزیر خارجہ بھی پہنچا ہواتھا جسے سڑکوں پر فلسطینی بچوں نے نہ صرف ذلیل کیا تھا بلکہ ایک اسرائیلی بچے نے اسکے منہ پر تھوک بھی دیا تھا۔ اس کے علاوہ اگرہم دیکھیں تو اقوام متحدہ کا حصہ بن کر تمام مسلم ممالک یکجہتی ، حریت کے نعروں سے ہٹ گئے ہیں اورکسی نہ کسی صورت اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی پڑتے ہیں۔یعنی تمام ریاستیں قومی ریاستیں بن چکی ہیں۔ آج اگر کوئی برصغیر کا مسلمان عرب یا ترکش مسلمان کی تاریخی کامیابیوں پر ناز کرے یا اغیار کے سامنے ان کا ذکر کرے تو عرب اور ترکش کہتے ہیں کہ یہ ہماری ذاتی کامیابیاں تھیں اس میں برصغیر کے مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں اور نہ ہی ہم انہیں اپنا وارث تسلیم کرتے ہیں۔ جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تھا تو اقوام متحدہ کا حصہ ہونے کے ناطے پاکستان سمیت تمام ایک سو ترانوے ممالک کی افواج افغانستان میں اتر گئیں تھیں، یہی افواج عراق و شام میں بھی اتریں ہیں! لیکن یہ اتحاد کشمیر و فلسطین میں کیوں نہیں اترا؟ یہاں یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ دہشتگردی کی تعریف فقط لفظ مسلمان میں چھپا دی گئی ہے۔ مگر مفادات کی جنگ نے مسلم ممالک کے تمام اتحاد، چاہے وہ اسلامک بلاک تھا یا کوئی اور سب شیرازے بکھیر دئیے ہیں۔ تمام بر اعظموں میں استعماری طاقتیں مضبوط ترین ہوتی گئیں اور ہم سب کمزور ترین قاسہ پکڑے ان کے دربار میں کھڑے نظر آئے۔اگر ہم اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کا مبہم سا جائزہ لیں تو زیادہ تر تو باتیں منظر عام پر آنا شروع ہوگئیں ہیں کہ مشرف کے دور میں کیسا رہا!بارہا یورپ میں بھی اسرائیلی ذمہ داروں کے ساتھ پاکستان کے سیاسی ذمہ دار بات چیت کے میز پر بیٹھتے رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک پاکستان کے موجودہ منتخب وزیر اعظم عمرا ن خان کا یہی بیانیہ آ رہا ہے کہ وہ اسرائیل کوایک آزاد ریاست کے طور پر کبھی بھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ اسی طرح جیسے ماضی میں تمام سیاسی ذمہ دار اور حکومتیں یہی دعوہ کرتی رہی ہیں مگر پس پردہ حقائق اس کے بر عکس رہے ۔ عمرا ن خان صاحب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دو بار خطاب کر چکے ہیں اور اسی اسمبلی میں اسرائیلی ذمہ دار بھی بیٹھتے ہیں جنہیں بھاری اکثریت سے دنیا نے نہ صرف تسلیم کر لیا ہے بلکہ وہ اقوام متحدہ کا حصہ بھی ہے۔ یہاں میرا سوال ہے کہ کیا اقوام متحدہ کا حصہ بنانے کیلئے ایران ، پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک نے اسرائیل کے حق میں ووٹ نہیں د یا تھا؟عالمی سطح پر ٹی بی کے کنٹرول کیلئے Stop TB Partnership گلوبل ڈرگ فسیلیٹی پروگرام چل رہا ہے جس میں ٹی بی کو کنٹرول کرنے کے اہم اینٹی بائیوٹکس اسرائیل سے آ رہے ہیں۔ اس پروگرام کا پاکستان بھی حصہ ہے اور صوبائی دارلحکومت میں یہ ادویات ٹی بی کے مریضوں کو مفت دی جا رہی ہیں۔اسرائیل ہی وہ پہلا ملک ہے جس نے سب سے پہلے کرونا وائرس کی ویکسین تیار کر کے قومی سطح کے ذمہ داروں کو ویکسینیٹ کر دکھایا ہے۔ جس کے بعد یورپ اور امریکہ سمیت ایشیا کے ممالک بھی اس کے امیدوار بننے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ترقی پذیر ممالک کو یہ ویکسین ڈبلیو ایچ او کی نگرانی میں پہنچانے کی بات کی ہے ، جس کے بعد ہیومن رائٹس کی رپورٹس اسرائیل کے حق میں جانے والی ہیں اور اسرائیل انسانیت کا محسن قرار دیا جائے گا۔ بائیو کیمیکل وار کا یہی اصول ہوا کرتا ہے ، اس طرح اسرائیل کی معیشت مزید مستحکم ہوگی اور بہت سے ممالک اس پر انحصار کرنے لگیں گے۔ دس سال تک صرف اس ویکسین کی وجہ سے اسرائیل کی معیشت بلندیوں کو چھونے لگے گی اور چین کی بات پھر سے لوگوں کے ذہنوں سے مبہم ہو جائے گی۔ اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ ہماری سیاسی قیادت یہاں بھی دوہرا رویہ رکھتی ہے۔ اور اگر عمران خان ایف اے ٹی ایف اور ورلڈ بنک جیسی خوبصورت لونڈیوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسا کر رہے ہیں اور فلسطینیوں ، کشمیریوں کے ساتھ حقیقی طور پر مخلص ہیں تو انہیں اسی دور حکومت میں ثابت کر کے دکھانا ہوگا!کیونکہ ہم اس امر کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے وقت میں جو اسرائیل تھا وہ آج نہیں ہے۔ بلکہ اسرائیل آج ایک جدید ترین ٹیکنالوجی، ہتھیاروں اور مسلسل ہتھیاروں پر پانی کی طرح پیسہ بہانے کے باوجود جوہری ہتھیار رکھنے والا ترقی یافتہ قابض علاقہ ہے۔جسے مغرب کے ساتھ ساتھمشرقی ممالک چین اور ترکی سمیت وسطی ایشیائی عرب ممالک بھی ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ دوسری طرف ایشیا میں چوہدراہٹ کے امیدوار بھی صیہونیت کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہر انتہائی اقدامات اٹھا رہے ہیں اور پاکستان پر دباؤ بنائے ہوئے ہیں۔چین جسے پاکستان کا سب اچھا دوست مانا جاتا ہے ، اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی اسی کے اپنے پیرا میڑز میں ہیں۔ لداخ میں اس کی بھارت کے خلاف کاروائیاں در اصل بھارت کو اپنے رخ بٹھانے کیلئے ہیں! تاکہ ایشیا میں ایران ، پاکستان، روس کے علاوہ بھارت جو ایک عالمی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے بھی اس کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شامل ہو جائے۔ہانگ کانگ میں حکومت مخالف دنگوں میں پہلے کی نسبت شدت آ چکی ہے۔اور چین کو یہ داخلی چیلنج پاکستان میں منظور پشتین کی طرح ثابت ہوگا۔ اسرائیل کیلئے سب سے بڑی پریشانی پاکستان کا جوہری منصوبہ ہے جسے وہ ہرممکن ثبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے سر پر بلیک لسٹ کی تلوار لٹکا کر پاکستان کے جوہری منصوبوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ عالمی سطح پر پاکستا ن کے تھنک ٹینکس بہتر جانتے ہیں کہ استعماری طاقتوں کے اس تنگ ہوتے گھیرے سے پاکستان کو کیسے بچایا جا سکتا ہے ۔لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو اب اقوام متحدہ کو خیرباد کہنے کیلئے دور رس پالیسیاں مرتب کرکے اس پر عمل پیرا ہو جانا چاہئے ۔ ایف اے ٹی ایف اور ورلڈ بنک سے جان چھڑوائے بغیر خودمختار ہونے کا خواب دیکھنا محض خود فریبی ہے۔ ہم جس جنگ سے بھاگناچاہتے ہیں در اصل وہ ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ امن کے راگ الاپنے اور خود فریبی میں گرفتار رہنے کی بجائے حقیقت کا سامنا کرنا سیکھیں۔ امن کیلئے جوہری منصوبے ان کے سپرد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اور جوہری منصوبے بچانے کیلئے جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں!
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 166784 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More