اپوزیشن کی جانب سے گذشتہ انتخابات کے حوالے سے حکومت
مخالف گرینڈ الائنس بناکر ایک آئینی ڈیڈ لاک پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی
ہے۔ گو کہ تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کا انتہائی احترام کا دعوی کرتی ہیں
اور حکومت کا بھی کوئی ادارہ نہیں چاہتا کہ مملکت کے دیگر ستونوں کے ساتھ
کسی قسم کی محاذ آرائی کا تاثر بھی جائے۔سسٹم کے استحکام اور اچھی حکمرانی
و انصاف صرف اسی صورت بحال رہ سکتا ہے جب قانون کا احترام تمام ادارے اپنی
حدود میں رہتے ہوئے کریں۔ملک میں انتخاب کے حوالے سے آئینی ترمیم کے بعد اس
وقت مملکت کو 1980 اور1990 کی دہائیوں جیسی صورتحال کا سامنا نہیں کہ جب
لوگ حکومت کی بساط الٹنے کے لیے صدر کی جانب سے دفعہ 58(ٹو) بی کے استعمال
کرنے کی آس لگاتے تھے یا پھر مارشل کے نفاذ کے لیے فوج کی طرف دیکھتے تھے۔
اب یہ دونوں راستے بند ہوچکے ۔ ادارے جمہوری طریقے سے اپنے پسندیدہ نظام’’
ڈیمو کریسی‘‘ کی جانب پر امن اور سیاسی تلخیوں کے باوجود تیزی سے گامزن
ہیں۔
عوام ملکی استحکام و تبدیلی کی خواہش لیے ہر آنے والے دن، خواب دیکھتے ہیں۔
تمام اداروں کی ذمے داری بھی بنتی ہے کہ نظام میں استحکام لائیں۔موجودہ
حکومت کو تمام تر مشکلات و اختلافات کے باوجود اپنی آئینی مدت ذمے داری کے
ساتھ پوری کرنی چاہیے ، لیکن یاد رکھیں کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجا کرتی
، بلکہ چٹکی بجتی ہے، پھربحران ہیں، مسائل بھی پیدا ہوتے رہیں گے لیکن تمام
سیاسی جماعتوں کو مستقل مزاجی کے ساتھ صبر و برداشت کا ماحول برقرار رکھنا
ہوگا اور عوام کی خدمت کے وعدے کو ہر صورت پورا کرنا ہوگا۔جب تک اداروں کے
درمیان ہم آہنگی، سسٹم کے استحکام اور اچھی حکمرانی کے ذریعے ملک کی خدمت
کے عزم کو کامل کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ موجودہ حالات سے بددل اور مسائل و
مشکلات میں گھرے ہوئے عوام کے لیے امید افزا ہے۔
ہمارا المیہ ہی یہ رہا ہے کہ مملکت کے بااختیار ادارے اپنی اپنی حدود میں
رہتے ہوئے ایک دوسرے کے معاون و مددگار بننے کے بجائے اپنی خواہشات اور
مفادات کی پاسدار ی کرنے لگ جاتے ہیں اور بعض سیاسی جماعتیں اسے اپنی
پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرتی ہیں جس سے عوام میں بے چینی اور بد
اعتمادی بڑھ جاتی ہے۔ مقننہ،انتظامیہ اورعدلیہ میں ہمیشہ ٹکراؤ کی کیفیت
پیدا کرنے کی کوشش ہوتی ہے جس سے نظام میں خرابیاں پیدا ہوئی اوروطن عزیز
نا اتفاقیوں کی بناء پر ایک مدت تک بے آئین اور طالع آزماؤں کی آماجگاہ بنا
رہا حتی کہ دوٹکڑے ہوگیا۔
اقتدارکی آئینی مدت پر امن طریقے سے منتقل ہونا ضروری ہیں، اسی عمل کے تحت
انتخابات ہوتے رہنا چاہیں۔ تمام تر اعتراضات و خامیوں کے باوجود پاکستان
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور ان کی اتحادی جماعتیں قابل تعریف ہیں کہ
پاکستان میں جمہوری عمل کو درست پٹری پر لانے کے لیے صبرکا دامن تھامے رکھا
اور غیر آئینی قوتوں کو مداخلت کا جواز فراہم نہیں کیا،پاکستان تحریک انصاف
کو بھی اسی بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔حکومتِ وقت پر اس وقت بہت ذمے
داریاں عائد ہیں کیونکہ انھوں نے ہی اداروں کو مزید مضبوط بنانا اور ان کے
درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ ماضی میں نواز و پی پی پی حکومت کا جو
بھی طرز عمل رہا انھیں اب اپنی خامیوں کو خود ہی دور کرنا ہوگا۔ تحریک
انصاف کو بھی مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔ میڈیاایک اہم ستون کے طور پر
حکومت کے تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کا بے رحم احتساب کرنے میں مشکلات
و مفادات کا شکار ہوتا جارہا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ میڈیا اب خود پر بھی
احتسابی عمل لاگو کرلے تاکہ میڈیا کی ساکھ عوام میں مثبت برقرار رہے۔کسی
ادارے کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے بغیر تصادم اور محاذ آرائی سے بچنے کی
ضرورت ہے۔ کیونکہ حکومتوں کی غلطیوں کا خمیازہ کسی فرد واحد کو نہیں بلکہ
پوری قوم کو اٹھانا پڑتاہے۔
داخلی مسائل کے ثالث کے بغیر انارکی و انتشار کا بحران سنگین نتائج تک جا
سکتا ہے ۔ جس سے عد م مفاہمت کے باعث عدم استحکام کو ہی فروغ مل رہا اور
مہنگائی میں پسی ہوئے عوام کو بے یقینی کی دوڑ میں نڈھال ہو چکے ہیں بہ
حیثیت قوم ابھی تک ہم صوبائیت، لسانیت کے گورکھ دھندے سے نہیں نکل پائے
ہیں۔ریاست کو چھوٹے صوبوں میں پائی جانے والی اس احساس محرومی کے خاتمے کے
لیے عملی اقدامات کرنا ہونگے۔بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے محض پوائنٹ
اسکورنگ کے لیے، جمہوریت کو ڈی ریل کرنا اور اراکین ِ پارلیمنٹ کا خود پر
عدم اعتماد افسوس ناک ہے ۔ قوم سے کیے جانے والے وعدے اگر پارلیمنٹ میں
موجود سیاسی جماعتیں نہیں کریں گی تو پھر عوام کا اعتماد متزلزل ہوسکتا ہے،
سخت موقف اپنانیپر ناراضگی بلا جواز ہوگی۔
اگرریاست کے خلاف کسی متفقہ پالیسی میں کسی بھی شخص ، جماعت یا ادارے کو
کوئی تحفظات ہیں تو پھر قوم کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ محض بیانات پر اکتفا
کرنے کے بجائے ملکی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اپنی تجاویز کو قوم کے
سامنے لائیں، ابھی اقتدار کے مراحل کے لیے سب کو مقررہ مدت تک انتظار کرنے
کی عادت اپنانا ہوگی۔ ہر سیاسی جماعت کو اپنے مینڈیٹ کے تحت عوام کی خدمت
کا فرض سونپا گیا ہے۔ اس روگردانی قوم کے ووٹ سے اور آئین سے غداری کے
مترادف قرار دیا جائے گا۔لسانیت، صوبائیت اور فرقہ واریت کے آسیب کی دنیا
سے باہر نکل کر مملکت کو نئے بحرانوں سے بچانے کے لیے مثبت و اجتماعی
جدوجہد میں ہی کامیابی ہے۔اس کے باوجود ہمیں اپنی ذمے داریوں کا احساس نہیں
ہوا تو تاریخ، سنبھلنے کے لیے بار بار موقع نہیں دیتی۔
مملکت کی وحدت پارہ پارہ ہوچکی ہے۔ ایسے یکجا کرنے کے لیے مل کر ہی کوشش
کرنا ہوگی۔اندرونی خلفشار سے بیرونی طاقتیں ہی فائدہ اٹھاتی ہیں، ہمیں مصر،
لبنان، شام اور عراق کی مثال اپنے سامنے رکھ کر ایک بار سوچنا ضرور
ہوگا۔ہوسکتا ہے کہ پھر موقع نہ ملے۔لہذا قوم کو اس پر آشوب دور میں مزید
امتحانات میں نہ ڈالیں۔قوم کو ویسے ہی پر ٓاشوب مصائب اور تکالیف کا سامنا
ہے، قوم و مملکت کی بقا اس وقت خطرے میں ہے، ملکی سلامتی کے ادارے پل صراط
سے گذر رہے ہیں، ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔نازک دور وطن ِعزیز
پر آج سے نہیں بلکہ قیام پاکستان سے ہی ہے ، داخلی و خارجہ مسائل نے مملکت
کی بقا و استحکام کو ہر لمحہ پل صراط سے گذارا ہے ۔ اخلاقیات و دوراندیشی
کی کمی کے رجحان نے عوامی مزاج کو تبدیل کرنا شروع کردیا ہے ، ابتدا آپ نے
کی ، نتیجہ کیا ہوگا ، قوم کس نہج پر جا رہی ہے اس پر سنیجدہ حلقوں و سیاسی
رہنماؤں کو غور وفکر انتہائی ضرورت ہے کیونکہ یہ ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔
|