میں خودبڑے عرصے سے محسوس کررہاہوں، میری تحریرمیں ایک
بیزاری،ایک لاتعلقی سی آچکی ہے۔وہ تلخی،وہ آگ اوروہ سلگتاہوادرد ختم
ہوتاجارہاہے جواس تحریرکی پہچان تھاایساکیوں ہورہاہے؟میں اکثرخود سے سوال
کرتاہوں۔ہربارمیں خودکویہی جواب دیتاہوں،کوئی نیا موضوع ،کوئی نیاایشونہیں۔
مہنگائی پراورکتنے کالم لکھے جائیں؟بیروزگاری،جہالت اوربیماری پرکوئی کہاں
تک لکھ سکتاہے؟بد امنی،حکومتی رٹ، حکومتی بے حسی،لوٹ کھسوٹ، کرپشن،دفتری
تاخیر،سرخ فیتہ اورسیاسی مکروفریب پر کتنے ٹن مضامین چھاپے جاسکتے
ہیں؟آخرانسانی دماغ کی بھی ایک حدہوتی ہے،آپ سیاپابھی ایک حدتک کرسکتے
ہیں،بچہ ماں کوکتناپیاراہوتاہے،بچہ مرجائے توماں بین کرتی ہے،روتی ہے چلاتی
ہے لیکن کتنی دیر؟ایک گھنٹہ،ایک دن یاایک ہفتہ،آخر بین چیخوں،چیخیں سسکیوں
اورسسکیاں آہوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں،دلِ مضطرب کو چین آجاتاہے۔ایک ہلکی سی
کسک،دردکی ایک تھوڑی سی آہٹ باقی رہ جاتی ہے۔
لکھاریوں کی تحریریں ایک بین،ایک چیخ ہوتے ہیں۔یہ چیخ یہ بین بتاتے ہیں کہ
لوگو!تمہارے ساتھ ظلم ہوگیا،تم لٹ گئے،تم بربادہو گئے۔اس چیخ،اس بین پرلوگ
متوجہ ہوجائیں اورظالم ٹھٹک کررک جائے تولکھاری کافرض پوراہوگیالیکن
اگرظالم ان چیخوں،ان بینوں کے باوجود ظلم کرتا رہے،ایک لمحے کیلئے اس
کاہاتھ نہ رکے،اس کے ماتھے پرشرمندگی کاپسینہ تک نہ آئے،تووہ چیخ،وہ بین
ایک فضائی آلودگی کے سواکچھ نہیں ہوتی ۔لوگ بھی اگراس چیخ اوراس بین
کومعمولی سمجھیں اورایک روٹین کادرجہ دے دیں توبھی یہ چیخیں یہ بین آوازوں
کے جنگل میں ایک سوکھی سڑی جھاڑی اورایک کچلی گھاس سے زیادہ حیثیت نہیں
رکھتی۔ چوکیدارکے”جاگتے رہو”کے اعلان سے اگرچورگھبرائیں اورنہ ہی اہلِ محلہ
کی آنکھ کھلے توچوکیدارکیاکرے گا؟اس کی پتلیوں میں بھی نیندہچکولے لے گی،اس
کاضمیربھی جمائیاں لینے لگے گا۔
یقین کیجئے میں جب لکھنے بیٹھتا ہوں توخودسے سوال کرتاہوں،کس کیلئے لکھ
رہاہوں؟ان لوگوں کیلئے جوغلامی سہنے کی عادت ،زیادتیاں برداشت کرنے کی خوجن
کی نس نس میں بس چکی ہے،جواپنے اوپرہونے والے ظلم کی داستان کوبھی ایک
افسانہ سمجھ کرپڑھتے ہیں،جواپنے قتل کے گواہ پرہنستے ہیں یااس حکومت کیلئے
جوخداترسی کی اپیل کوپاگل اورقنوطیوں کا “واویلا”سمجھتی ہے۔میں اس نتیجے
پرپہنچ چکا ہوں آپ بیل کولیکچرکے ذریعے چیتانہیں بناسکتے۔ بھیڑیئے کے دل
میں بھیڑکیلئے ہمدردی بھی نہیں جگاسکتے،لہنداصاحبو!سچی بات ہے سیاپے کی یہ
نائین (پیغام دینے والی مائی)تھک چکی ہے۔آخر میں قبرستانوں میں اذان دینے
کی ایک حدہوتی ہے!
رہادوسرااعتراض تومیں نے پچھلی چاردہائیوں میں سیاستدانوں کے وہ رنگ دیکھے
کہ لفظ سیاست سے مجھے گھن آتی ہے۔مجھے محسوس ہوتاہے کہ میں کسی کچراگھرکی
دیوارپربیٹھاہوں،ایسی دیوارجس میں اصول،انصاف،وفاداری،ایمانداری اورضمیرنام
کی ہروہ خوبی،ہروہ وصف گل سڑ رہاہے،جس کی وجہ ایک درندہ اشرف المخلوقات
بنتا،مجھے ان اوصاف،ان خوبیوں کے لاشوں میں کیڑے رینگتے نظرآتے ہیں۔میں نے
ان پچھلی چار دہائیوں میں ان لوگوں کواپنے محسنوں کوگالیاں دیتے دیکھا۔میں
نے فوجی حکم رانوں پرتنقیدکرنے والوں کوان کے تلوے چاٹتے دیکھا۔آپ کویاد
ہوگاکہ جنرل ضیاءالحق نے جب کہاتھاکہ میں ان سیاستدانوں کو اشارہ کروں تویہ
دم ہلاتے میرے پاس آجائیں۔
آپ کسی غیرت مندکوگالی دے سکتے ہیں لیکن جس کی آنکھوں کی شرم ہی مرچکی
ہو،جسے پارٹی بدلتے،وفاداری تبدیل کرتے، نظریہ اور منشور بھلاتے اتنے
دیربھی نہ لگتی ہوجتنی بنیان بدلنے یاجرابیں تبدیل کرنے میں لگتی ہے توآپ
اس کوکتنابرابھلاکہہ دیں گے۔ان سے تووہ شخص بہترتھا جس نے یہ کہاتھاکہ میں
انکارمیں اتناآگے جاچکاہوں کہ میرے لئے واپسی ممکن نہیں۔آپ خود
سوچیں!بدبوکے اس جوہڑپرکیالکھاجائے؟ان غلاظت اورسڑاند بھرے کچراگھروں سے
کون ساسورج طلوع ہوگا،یہ لوگ کس مستقبل کی بنیادرکھ رہے ہیں۔قوم نےاین
آراوجیسے سمجھوتوں کی کوکھ میں پروان چڑھنے والے لوگ اپنی
انا،اپناضمیراوراپنی زبان گروی رکھ کر جنم لینے والوں سیاستدانوں
کومسنداقتدارپربھی دیکھاہے اورآج وہ جمہوریت جوکسی اورکی بانہوں میں ہلکورے
لے رہی ہواس سے کیاتوقع کی جاسکتی ہے؟
جو ایک بوڑھی ماں کے ساتھ بلکہ قوم کی بیٹی عافیہ کی رہائی کوشب وروزاپنی
سیاست کاوظیفہ بناکرمسنداقتدارپہنچتے ہی اپناپہلا کام بتاتے تھے ،اب نہ صرف
آنکھیں پھیرچکے ہیں بلکہ عافیہ کی بہن سے ملنے سے بھی گریزاں ہیں،ایسے
حکمراں جواپنے ہی نظریئے پرقائم نہیں رہ سکے،جو ایفائے عہدکاپاس نہ کرسکے،
وہ میرے یاآپ کے کیاہوں گے۔وہ میرے نظریات ، میرے احساسات اورمیرے جذبات کی
کیاترجمانی کریں گے۔وہ میرے لئے تبدیلیوں کے کون سے سورج تراشیں گے،وہ
انقلاب کے کن سویروں کی پنیریاں لگائیں گے؟یادرکھیں میرے آقاومربّی خاتم
النبیّین ﷺ کا قول مبارک ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں: حضرت ابو ہریرۃ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے تو اس کا
خلاف کرے اور جب اس کو امانت دار سمجھا جائے تو خیانت کرے “۔ یہ نیت کی بد
دیانتی کا اور جھوٹی نیت کا نتیجہ ہے، کیونکہ آدمی گناہ گار اس وقت ہے جب
وعدہ یا عہد کرتے وقت اس کی نیت ہی وفا کی نہ ہو یا بعد میں وفا کی نیت پر
قائم نہ رہے، اگر نیت وعدہ وفا کرنے کی ہے ، مگر حالات کے ہاتھوں بے اختیار
ہو نے کی وجہ سے وعدہ وفا نہ کر سکا تو اس پر مؤاخذہ نہیں۔۔اللہ تعالیٰ کسی
جان کو تکلیف نہیں دیتا ، مگر اس کی طاقت کے مطابق(البقرۃ: 286)
رسول اللہ ﷺ نےیہ بھی فرمایا: انسان کی فطرت میں خیانت اور جھوٹ کے علاوہ
تمام خصلتیں ہو سکتی ہیں۔
آخرقوم کوعافیہ صدیقی کی رہائی کے بارے میں سچ سچ کیوں نہیں بتایاجاتا؟کون
سی ایسی پابندیاں ہیں کہ جن کی وجہ سے عافیہ کانام لیتے ہی زبان پرچھالے
نکل آئیں گے؟کیاکسی نے عافیہ کی ماں کے دل کے زخموں کودیکھاہے؟
کیاڈاکٹرفوزیہ کا اپنی بے گناہ بہن کیلئے مسلسل دربدرہونا اور خاک
چھاننایونہی بیکار جائے گا؟کیاعافیہ کے بچے جوبچپن ہی میں اپنی مامتاسے
محروم کردیئے گئے اورشب وروزاس کی جدائی کاایک ایک گھونٹ پی کرعہدشباب میں
قدم رکھ چکے ہیں،وہ جیلوں کی سلاخوں کے پیچھےگھٹ گھٹ کر مرجانے والی اپنی
ماں پرہونے والے اس ظلم و ناانصافی کاحساب کس سے مانگیں؟ برسوں سے ملک کی
شاہراہوں اورمیڈیاپرآپ کوشب وروزعافیہ کے بارے میں اپنے عہدوپیماں
یادکروانے والے جن کے خطوط کاجواب تک دیناآپ کوگوارہ نہیں،ان کی گواہیاں
کیایونہی بیکارچلی جائیں گی؟
تپتے صحرامیں مرے حال پہ کوئی بھی نہ رویا
گرپھوٹ کررویا تومیرے پا ؤ ں کاچھالہ
کان کھول کرسن لو:ہرگز نہیں ،رب کعبہ کی قسم : عافیہ کواس حال تک پہنچانے
اورمسنداقتدارکے نشے میں عافیہ کوبھول جانے والو!یادرکھو:یہ تمام فریادیں
اورمناجات کے لہولہو الفاظ سے تمہارے خلاف اس دنیامیں اورروز قیامت کیلئے
ایک انتہائی مضبوط” ایف آئی آر”تیارہورہی ہے جہاں بیٹی عافیہ صدیقی کے جسم
وروح پرلگے ہوئے تمام رستے زخم اوراس کے تمام بہی خواہوں کے چھلنی دلوں
پربیت جانے والے تمام دردناک لمحات کااندراج ہوگاجس کاایک ایک لفظ چیخ چیخ
کرحق وصداقت کی ایک نئی قیامت برپا کرے گاجس کے بعدتم رب سے دنیامیں واپس
جانے کی تھوڑی سی مہلت مانگوگے لیکن نہیں ملے گی اورتم اپنے ان تمام
ساتھیوں کے ساتھ کفِ افسوس ملتے رہ جا ؤگے……یہ وہ دن ہوگا جب بیٹی عافیہ
صدیقی اوراس کے تمام بہی خواہ اپنے رب کے فیصلے پر پرمسرت اورشاداں وفرحاں
اپنی منزل جاوداں کوپالیں گے ……ان شاء اللہ
خدا کی قسم!میں اپنے وجودپرشرمندہ ہوں،مجھے شرم آتی ہے،میں کس دور،کس
عہدمیں جی رہاہوں۔میں اپنے بچوں،اپنی آئندہ نسل کوکس عہد، کس دورمیں
چھوڑکرجاؤں گا۔میں توہواکے اس جھونکے سے بھی ہلکاہوگیاہوں جواگرچلتی ہے
تودنیاسے بدبوکاایک تولہ،سڑاندکاایک آدھ ماشہ کم ہوجاتاہے اورباباجی کہتے
ہیں کہ میں ان سیاستدانوں پر لکھوں، شیطان کوبددعائیں دوں،یہ جانتے ہوئے
بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ سیاپوں،بینوں اورچیخوں سے مردے جاگاکرتے ہیں اورنہ
ہی بددعاؤں سے شیطان مراکرتے ہیں تاہم جانے سے پہلے یہ میرے آقا مخبرِصادق
ﷺ کی ایک حدیث ِ مبارک سن لیں جس نے میرے شب و روز کو جنجھوڑکررکھ دیا ہے:
شقیاالاصبحی جوکہ اسلاف کی ایک نشانی ہیں،مدینے میں انسانوں کاایک جم
غفیردیکھ کراس معاملہ کی تہہ کی جونہی کوشش کرتے ہیں تو کیادیکھتے ہیں کہ
لوگوں نے ایک عاشق رسول ﷺ کواپنے حصارمیں لیاہے اورحدیث سنانے کی درخواست
کررہے ہیں توجواب میں ان کے ہونٹوں اورجسم پرایک لرزہ طاری ہوجاتاہے
اوردردناک چیخ مارکربے ہوش ہوجاتے ہیں۔تین بارکوشش کی لیکن زبان نے اللہ کے
خوف کی وجہ سے ساتھ نہ دیا۔جب غشی کی حالت ختم ہوگئی توفرمایا:
ایک ایسی حدیث سناتاہوں جواسی گھرمیں رسول اکرم ﷺ کے منہ سے سنی تھی”قیامت
کے روزجب اللہ بندوں کے فیصلے کیلئے اترے گاتوسب سے پہلے تین اشخاص طلب کئے
جائیں گے،ایک قاری،دوسرادولت مند اورتیسراشہید!اللہ قاری سے پوچھے گاکہ
کیاہم نے تجھے قرآن نہیں سکھایا ،اس پرتو نے کیاعمل کیا؟قاری جواب میں دن
رات قرآن کی تلاوت کاذکرکرے گاتواللہ اس سے فرمائے گاکہ توجھوٹ کہتاہے،تم
نے یہ سب لوگوں کیلئے کیا تاکہ تم کوقاری کہیں۔اسی طرح دولت منداپنی سخاوت
کااورشہیداپنی جان کی قربانی کاذکرکرے گاتوجواب میں رب ذوالجلال ان کوبھی
جھوٹ سے تشبیہ دے کردنیاکے دکھلاوے کاعمل کہے گااوریہ کہہ کررسول اکرم ﷺ نے
میرے زانوپرہاتھ ماراکہ اللہ تعالی حکم صادرکریں گے کہ ان کومنہ کے بل
گھسیٹ کرجہنم میں دھکیل دو اورسب سے پہلے جہنم کی آگ ان پرہی شعلہ زن
ہوگی”۔
پھرجس طرح حدیث سنانے والے کی(حضرت ابوہریرہ)کی چیخیں لوگوں نے نکلتی ہوئی
دیکھیں یہی عالم سارے مجمع کاہوا۔ ہمارے اسلاف پیکر اخلاص تھے اورہم اس سے
کوسوں دور!وہ ریاکاری کے خوف اوراس کے لرزہ خیزانجام سے لرزہ براندام
تھے،ہم دنیاداری کودین وایمان سمجھ کربڑے اطمینان سے بیٹھے ہیں۔شائدیہی وجہ
ہے کہ دنیاکے طول وعرض میں مختلف حادثات کوپڑھ کرہم محض اس لئے مطمئن ہیں
کہ ہم اس کاشکارنہیں ہوئے حالانکہ دل کی اسی بے حسی اوربدلتی ہوئی کیفیت نے
توثابت کردیاہے کہ ہم جوبرسوں سے انحطاط کاشکارہیں اس کی وجہ ہمارایہی
عارضی قلبی اطمینان ہے۔ مومن اورمسلمان کے دل میں توایک تڑپ رہتی ہے جواس
کوہرپل بے چین رکھتی ہے۔دنیامیں اللہ اوررسول ﷺ کے احکام کی روگردانی اس سے
برداشت نہیں ہوتی۔اس ساری سوسائٹی وتہذیب کے دھارے کوتبدیل کرنے کی کوشش
میں اپنی پوری زندگی کھپادیتاہے۔ لوگوں کے دلوں کواپنےرب سے جوڑتاہے۔رسول
اکرم ﷺ کی تعلیمات کوشب وروزدہراتاہے۔صحابہ کی زندگیوں کوسامنے رکھ
کرروزانہ کے اعمال کا ہرروزسونے سے پہلے محاسبہ کرتاہے۔
یادرکھیں اس قوم نے مسنداقتدارپرپہنچنے کیلئے اس سے پہلے پہلے بھی سیاسی
مداریوں کے تماشے اورکرتب دیکھے ہیں جب اس ملک میں نظام مصطفی کے نفاذ کے
نام پرڈگڈگی بجاکرمجمع لگائے گئے لیکن حصولِ اقتدارکیلئے اسی عطارکے لونڈے
کی دہلیزپرسربسجودہوگئے جومسلمانوں کی کمزورخلافتِ عثمانیہ بھی برداشت نہ
کرسکے اوراس کاخاتمہ کرتے ہوئے یہ عہدکیاکہ آئندہ دنیامیں کسی ایک چپے
پربھی اس حقیقی دین کونافذ نہیں ہونے دیں گے۔ہم ایک دفعہ پھرسادہ لوحی سے
”ریاستِ مدینہ ”کے قیام کے نام پراس جال میں پھنس گئے جوعافیہ کی رہائی
کواپناایمان سمجھتاتھا لیکن اسی بے گناہ وبیکس عافیہ صدیقی کی آہ
وبکا،فریادیں جیل کی سلاخوں سے ہرروزاپنے رب کوانصاف کیلئے پکاررہی
ہیں۔یقینا صاحب نہج البلاغہ سیدناحضرت علی کرم اللہ وجہہ کامبارک قول اپنی
صداقتوں کاامین بن کرپوراہوکررہے گاکہ”کفرکی حکومت توقائم رہ سکتی ہے لیکن
ظلم کی نہیں”۔
ہم سیاست سے،محبت کاچلن مانگتے ہیں
شبِ صحراسے مگرصبح ِ چمن مانگتے ہیں
وہ جوابھرابھی توبادل میں لپٹ کرابھرا
اس بچھڑے ہوئے سورج سے کرن مانگتے ہیں
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجزاذنِ کلام
ہم توانسان کابے ساختہ پن مانگتے ہیں
ایسے غنچے بھی توگل چیں کی قبامیں ہیں
اسیربات کرنے کوجواپنا ہی دہن مانگتے ہیں
ہم کومطلوب ہے تکریم قدوگیسوکی
ہم تواہل وطن دردِوطن مانگتے ہیں
|