سچ فرمایا، کسی بھی سیاسی پارٹی کو مکمل تیاری کے
بغیر حکومت میں نہیں آنا چاہیے،عمران خان نے اپنی بہت سی دیگر مستقل عادات
میں سے ایک عادت کے مطابق اعتراف کرلیا۔ مزید یہ فرمایا کہ’۔۔ ’ ہمیں اس
سسٹم پر نظر ثانی کرنی چاہیے، جب آپ کی ٹیم بن جائے تو پھر خصوصی طور پر
حکومت سنبھالنے کی تیاری کے لئے آپ کو پورا ٹائم ملنا چاہیے، آپ نے گورننس
کیسے دینی ہے، اس حوالے سے آپ کی ٹیم کو بریفنگ ہونی چاہیے، میں آج اپنے آپ
کو دیکھتا ہوں تو ہمیں تین ماہ پتہ ہی نہیں چلا، ہر چیز جو ہم باہر بیٹھ کر
دیکھ رہے تھے، جب حکومت میں آئے تو وہ بالکل مختلف تھی۔۔۔‘‘۔ وزیراعظم نے
اپنی کابینہ کے ارکان کو ہدایت کی کہ اب بہت ہو چکی ، نااہلی نہیں چلے گی،
اب کام چاہیے۔عمران خان نے اِس تازہ بیان پر بھی یقینا میڈیا اپنی اپنی
مرضی کا نتیجہ کشید کرے گا، اپوزیشن اور مخالفین نے بھی تنقید کے تیر
برسانے شروع کر دیئے ہیں، حمایت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہوگی۔
تین ماہ سمجھ نہ آنے والی بات سمجھ سے بالا تر ہے، ایوانِ اقتدار میں قدم
رکھتے ہی قوم کو ’’پہلے سو دن‘‘ کا خواب دکھایا گیا تھا، کہ ’’تبدیلی‘‘
اِنہی ایام میں دکھائی دینے لگے گی۔ مگر معمول کے سلسلے تو چلتے رہے،
تبدیلی کے آثارکہیں نظر نہ آئے۔ قوم کو یہ بتایا گیا تھا کہ جو بچت کریں گے،
وہ بھی سامنے لائیں گے اور جو نیا کریں گے وہ تو نظر آ ہی جائے گا، مگر
ایسا کچھ نہ ہوا۔ ایک بات جو روزِ اول سے سنائی اور دکھائی دے رہی ہے و ہ
یہ ہے کہ ’’نہیں چھوڑوں گا‘‘، ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘۔ سابق حکمرانوں کی
لوٹ مار وغیرہ کے ذکر کے بغیر اب بھی وزیراعظم کی بات مکمل نہیں ہوتی۔ پہلے
تین ماہ کی بات تو اب پرانی ہو چکی، کیونکہ اب تین نہیں تیس ماہ حکومت میں
ہو چکے ہیں، اور آج بھی وزراء کے قلمدان تبدیل کیے جارہے ہیں، کیا اب تحقیق
کر لی گئی ہے کہ جن لوگوں کو تبدیل شدہ وزارتیں دی گئی ہیں، وہ اُن کے اصلی
اہل اور حقدار ہیں؟کیا قبل ازیں خیبر پختونخواہ کے ایک معزز اور اہم
سیاستدان ریلوے کو مکمل طور پر تباہ نہیں کر چکے کہ اب دوبارہ یہ وزارت
خیبر پختونخواہ کو ہی پیش کر دی گئی ہے؟ کون نہیں جانتا کہ ملک میں کنٹینر،
ٹرک اور دیگر ٹرانسپورٹ پر اپنے پٹھان بھائیوں کا ہی اجارہ ہے۔
عمران خان نے چھ برس قبل جب طویل دھرنا دیا تو اُس موقع پر کی گئی تقریروں
سے یہ واضح ہوتا تھا کہ ہمارے پاس نہایت ہی قابل اور ذمہ دار ٹیم موجود ہے،
جو اقتدار میں آتے ہی نظامِ حکومت کو انقلاب کی راہوں پر گامزن کر دے گی،
کرپشن جڑ سے اکھڑ جائے گی، عوام کی ترقی اور خوشحالی کا دور ہوگا، سرمایہ
دار باہر سے آکر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے، جب حکمران کرپٹ ہوتے ہیں
تو بجلی مہنگی ہوتی ہے، جب پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو حکمران
چور ہوتے ہیں۔ اگر آپ لوگوں کو اندر آکر پتہ چلا کہ باہر سے جو کچھ دکھائی
دیتا ہے وہ حقیقت نہیں ہوتا، بلکہ اندر تو معاملہ کچھ اور ہی ہوتا ہے، تو
گویا آپ بھی کوئلہ کی کان میں آکر کوئلہ ہوگئے، کیونکہ تیس ماہ میں بھی خود
کو تبدیل نہیں کر سکے ۔ آپ کے عالی دماغ لوگ اتنے عرصے میں ملک وقوم کی
راہیں متعین کرنے میں بھی کامیاب کیوں نہیں ہو سکے، یہ مان لیا جائے کہ ہر
مسئلے اور ہر خرابی کی وجہ سابقہ حکومتیں ہیں، تو جناب مسائل کے حل اور
خرابیوں کے خاتمے کی ابتدا تو فرما دیجئے، یہ روز روز کے اعتراف اور
وزارتوں میں اضافے اور تبدیلیاں بوکھلاہٹ کی علامت تو ضرور ہیں، مسئلے کا
حل ہر گز نہیں۔
تیاری کے لئے واقعی وقت ملنا چاہیے، خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت
کو ساڑھے سات سال ہو چکے ہیں، کچھ اور نہ سہی ، تجربہ بھی وہاں سے حاصل نہ
ہو سکا؟ اُس تجربے سے ملک نہ سہی، خبیر بھی نہ چلا یا جا سکا۔ پھر اپنی
وفاقی کابینہ کی ٹیم کو دیکھیں، چند لوگ ہی ہوں گے جن کے پاس وزارتوں کا
وسیع تجربہ نہیں، شیخ رشید وزارتِ داخلہ سے قبل چودہ محکمہ جات کے وزیر رہ
چکے ہیں۔ کابینہ کے دیگر ارکان بھی پرویز مشرف اور زرداری کی ٹیموں میں
شامل رہے ہیں۔ تاہم مشیر آپ کے اپنے ہیں، وزیراعظم نے اپنے ذاتی دوستوں کو
ہی مشاورتیں دے کر پاکستانی سیاست کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ ’’نہیں
چھوڑوں گا‘‘ کے وزیراعظم کے دعوے اور وعدے پر توعمل جاری ہے، مگر حکومت کو
فی الحال مہنگائی کرنے اور مخالفوں کی مخالفت میں اپنی توانائیاں صرف کرنے
کے علاوہ کوئی مصروفیت نہیں۔ ابھی تک تو سابق حکمرانوں کا ’’گند‘‘ صاف کرنے
کی بات سن رہے ہیں، کہ اسی ’مصروفیت‘ کی وجہ سے ابھی ترقی کا سفر شروع نہیں
ہو سکا ، حکومت کے آخری ایام میں قوم کو بتایا جائے گا کہ ہمیں وقت نہیں
دیا گیا، یعنی بریفنگ اور تیاری میں تاخیر ہو گئی۔ مگر حقیقت شاید یہ ہے کہ
نا تجربہ کاری سے زیادہ نااہلی حکومت کا مسئلہ ہے، اپنی کارکردگی ظاہر
کیجئے، محض مخالفین کو گالی گلوچ سے نہ ملک ترقی کرتے ہیں اور نہ عوام
مطمئن ہوتے ہیں۔ اپنی ناکامیاں ’’سسٹم‘‘کے کھاتے میں ڈالنے سے بھی مسائل حل
نہیں ہو سکتے، کچھ کام بھی چاہیے۔
|