ملکی سیاست میں خوب ہنگامہ برپا ہے، اپوزیشن کے
احتجاج، لانگ مارچ کے اعلان نے حکومت اور حکمرانوں کی بے چینی بڑھا دی ہے،
حکومت بھی اپوزیشن کو رگڑنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی سو اس
طرح حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر خوب لفظی گولا باری کیے ہوئے ہے،
اپوزیشن پی ٹی آئی کی حکومت کو سلیکٹڈ اور دھاندلی کی پیداوار قرار دے رہی
ہے تو حکومت اپوزیشن کے اکثر سیاستدانوں پر قومی دولت لوٹنے، منی لانڈرنگ
اور بیرون ملک اثاثے بنانے جیسے سنگین الزامات لگا کر مقدمات کا اندراج اور
ریفرنس دائر کرنے میں لگی ہے، کپتان نے مریم اور بلاول کو سیاست میں
’’بچہ‘‘ یعنی طفل مکتب قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ سیاست ان کے بس کی بات
نہیں۔ اپوزیشن پی ٹی آئی کی حکومت کو حادثاتی قرار دے رہی ہے اور کہہ رہی
ہے کہ کپتان صرف کرکٹ ٹیم کی قیادت تو سکتا ہے مگر ملک نہیں چلا سکتا۔ اس
طرح سیاست میں افراتفری لگی ہوئی ہے اور جنوری میں احتجاج۔ فروری۔ مارچ میں
اسلام آباد میں میدان لگنے کو تیار ہے شاید یہ میدان بھی بے نتیجہ ثابت ہو
کیونکہ ماضی میں بھی ہر اپوزیشن جماعتیں اس طرح کی ہنگامہ آرائی کرتی رہی
ہیں اور حکومتیں اپنا کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن قیادت کو اذیتیں دیتی
رہی ہیں اس میں نقصان صرف عوام کا ہوتا ہے۔ ہر حکومت کے دور میں ملک نا صرف
مزید مقروض ہوتا آ رہا ہے، بلکہ بیروزگاری، مہنگائی، مفلسی، غربت میں اضافہ
غریب اور متوسط طبقہ کی چیخیں نکلوا رہا ہے، مگر نہ تو ماضی کی کسی حکومت
نے غریب کی فلاح کیلئے کام کیا اور نہ ہی کپتان کی حکومت نے۔ سو اس طرح
شاید نہ ماضی کی حکومت کو غریب عوام کی چیخیں سنائی دیں اور نہ کپتان کو 27
دسمبرکو گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کی 13ویں برسی کی تقریب اس لحاظ سے
پہلی تھی کہ اس میں مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز، محمود اچکزئی، عبدالغفور
حیدری سمیت پی ڈی ایم کی قیادت نے بھرپور شرکت کی، گو کہ جمیعت علماء اسلام
کا نمائندہ مولانا عبدالغفور حیدری موجود تھا، لیکن بحیثیت پی ڈی ایم
سربراہ مولانا فضل الرحمان کی اس موقع پر کمی محسوس کی گئی، برسی کی تقریب
سے خطاب میں (ن) لیگ مریم نواز نے بلاول بھٹو کو اپنا بھائی کہتے ہوئے بھٹو
خاندان کی ملکی سیاست میں لازوال قربانیوں پر انہیں خراج تحسین پیش کیا،
اور بے نظیر بھٹو کی زندگی میں ان سے اپنی (مریم نواز) کی ملاقاتوں میں
ہونے والی گفتگو بارے پہلی بار پردہ اٹھایا، 2018 تک پیپلز پارٹی اور (ن)
لیگ میں دوریاں تھیں، دونوں جماعتوں کی قیادت، جیالے اور متوالے ایک دوسرے
کو چوک چوراہوں میں تنقید کا نشانہ بناتے رہے، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا
فضل الرحمان نے عورت (محترمہ بے نظیر بھٹو) کی حکومت کو غیر شرعی قرار دیا
تھا، سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ اس دفعہ ہم نے میاں (نواز
شریف) کو چھوڑ دیا تو شاید اﷲ بھی ہمیں معاف نہ کرے، کیونکہ یہ قوم اور
ہاریوں کا چور ہے، ہم ایسے درندے کو برداشت نہیں کر سکتے، جبکہ موصوف نے یہ
بھی کہا تھا کہ آپ (نواز شریف) نے ہمیشہ ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے، اس
دفعہ ہم آپ کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے نہ ہم آپ کے ساتھ جائیں (چلیں) گے،
بلاول بھٹو بھی اپنے والد کی طرح میاں برادران کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے ہیں
اور کہتے تھے کہ میاں شہباز شریف نے سانحہ ماڈل ٹا?ن، ملتان اور آشیانہ
سکیم کرپشن کا جواب دینا ہے۔ ہم سب مل کر تخت رائے ونڈکی آمریت کو گرائیں
گے، بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا تھا کہ میاں صاحب نے کشمیریوں کیلئے ایک
’’ٹکہ‘‘ کا کام نہیں کیا، میں آپ (نواز شریف) کو مودی کا یار نہ کہوں تو
کیا کہوں۔ جبکہ نواز شریف کہتے تھے کہ زرداری صاحب 6 کروڑ ڈالر آپ کہاں سے
لے کر آئے ہیں،ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک 6 کروڑ ڈالر
پاکستان واپس نہیں لے آتے، یہ قوم کا پیسہ اور، قوم کے خون پسینے کی کمائی
ہے، لٹیرے زرداری نے پاکستان کی دولت لوٹ کر سرے محل خرید لیا ہے، میرا نام
بھی نواز شریف نہیں کہ سرے محل کو نیلام کر کے تمام رقم قوم کے قدموں میں
نچھاور نہ کر دوں، 2018ء میں ایک جلسہ سے خطاب میں میاں نواز شریف نے اس
بات کو دوہراتے ہوئے آصف علی زرداری کے بارے میں کہا کہ سویٹزر لینڈ میں کس
کا 6 سو کروڑ روپیہ ہے، اگر یہ رقم جلسہ کے شرکاء میں تقسیم کی جائے تو
جلسہ میں موجود ہر شخص کے حصہ میں 10 لاکھ آئے گا۔ جبکہ شہباز شریف نے جواب
میں بلاول کے بارے میں کہا تھا کہ بیٹا (بلاول بھٹو) ایک کرپشن کا کیس اور
سامنے آ گیا تو آپ پھر والد کے ساتھ لندن جا رہیں گے۔ جبکہ شہباز شریف
ببانگ دہل کہتے تھے کہ انتخابات کے بعد زرداری کو لاڑکانہ کراچی، پشاور،
لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ شہباز شریف نے
ایک بار آصف علی زرداری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ پیسے
ہمارے حوالے کر دو ورنہ تمہیں اور تمہارے لٹیرے ساتھیوں کو نہیں چھوڑیں گے۔
کپتان کی حکومت اور ساتھیوں میں بھی ایسے لوگوں کی بہتات ہے جن پر کپتان
وزیر اعظم بننے سے پہلے تنقید کرتے رہے جس کا(ماضی کے حریف موجودہ
حلیف)کپتان کو خوب جواب دیتے رہے انہی میں ایم کیو ایم اور عوامی مسلم لیگ
کے سربراہ شیخ رشیدبھی شامل ہیں جن پر کپتان نے تنقید کی تھی۔ اب ایم کیو
ایم پی ٹی آئی کی حکومت کی اتحادی اور شیخ رشید وزیر داخلہ(جو عہدہ سیکنڈ
وزیراعظم تصور کیا جاتا ہے)کے منصب پر فائز ہیں۔
اب کپتان کی حکومت نے اقتدار میں آ کر حسب سابق اپوزیشن کو رگڑا دینا شروع
کیا تو دونوں جماعتوں کے قائدین ساری تلخیاں بھول گئے 2019ء میں پیپلز
پارٹی اور (ن) لیگ میں قربت ہوئی تو پی ڈی ایم کا اتحاد معرض وجود میں آگیا
آیا، اسی بنا پرمریم نواز لاہور سے طویل سفر کر کے بے نظیر شہید کی برسی
میں شریک ہوئیں اور اکثریتی جیالوں کے اجتماع سے خطاب میں یہ بھی انکشاف
کیا کہ سب سے پہلے میاں نواز شریف بے نظیر بھٹو کی خبر گیری کیلئے گئے اور
ڈاکٹرز نے انہیں (میاں نواز شریف) کو بے نظیر کی شہادت کی خبر سب سے پہلے
بتائی، اور ہسپتال سے باہر آ کر میاں نواز شریف نے جیالوں کو سینے سے لگا
لیا، مریم نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ ان کے خاندان کو بے نظیر بھٹو کی
وفات کا بہت دکھ ہوا اور ان کے گھر میں سوگ کا عالم تھا اور سب آنسو بہا
رہے تھے، قبل ازیں مریم نواز یا مسلم لیگ (ن) یا میاں برادران میں سے اس
طرح کا انکشاف کسی نے نہیں کیا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ 13ہویں برسی تقریب
سے آصف علی زرداری نے خرابی طبیعت کے باوجود ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا،
جبکہ قبل ازیں لاہور میں مریم نواز نے اعلان کیا تھا کہ جلسہ سے آصف علی
زرداری اور میاں نواز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کریں گے، میاں نواز
شریف نے جلسہ سے خطاب کیا تھا لیکن آصف علی زرداری نے بیماری کی بناء پر
خطاب نہیں کیا تھا۔ یہ بھی سوال عوام کے ذہنوں میں ابھر رہا ہے۔ تاہم یہ
بات خوش آئند ہے کہ مریم نواز نے بلاول بھٹو زرداری کو بھائی کہا ہے، اس سے
جیالوں اور متوالوں میں تناؤ کم اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ ملے گا ۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بات ہو رہی تھی اپوزیشن اور حکومت میں جاری
جنگ کی تو وہ زور و شور سے جاری ہے، اپوزیشن جنوری میں یکے بعد دیگرے جلسے
اور مختلف ڈویڑنل مقامات پر مظاہرے کرنے جا رہی ہے، حکومت اس کا کس طرح سد
باب کرتی ہے اس کیلئے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، تا ہم ماضی طرح بدستور
غربت کی چکی میں پس رہی ہے،اٹا چینی گھی دالیں حتیٰ کہ ضروریات زندگی کی
تمام چیزیں عوام کی پہنچ سے دور ہو گئیں ہیں۔ادویات کی مہنگائی نے شرح
اموات میں اضافہ کردیا ہیسو اب عوام کسی مسیحا کے آنے کی منتظر ہے۔جو آئے
اور ان کے لئے دو وقت کی روٹی کی فراہمی آسان بنائے؟
|