جس کھیت سے دہقاں کو میسرنہ ہو روزی۔اس کھیت کےہرخوشہ
گندم کو جلا دو۔
علامہ اقبال کی ایک نظم کےایک شعر کے مصداق بھارتی پنجاب سے اٹھی کسان
تحریک کی چنگاری سے پورا بھارت اس تپش کو محسوس کررہا ہے۔ ایک ماہ سے زائد
عرصے سے بھارتی ریاستیں ہریانہ، راجستان، مہاراشٹر، اترا کھنڈ، اترپردیش،
مدھیہ پردیش، اڑیسہ، مغربی بنگال، آندھراپردیش،بہار سمیت بھارت کے دیگر
حصوں میں بھی کسان سڑکوں پر اتر کر دھرنے، مظاہرے،بھوک ہڑتالیں،جلسے،جلوس
ان زرعی قوانین کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہیں جو حال ہی میں غیر کسانی
پارلیمنٹ میں منظور کیے گئے ہیں۔ دہلی کو چاروں اطراف سے تحریک کار کسانوں
نے گھیر رکھا ہے ہے۔ جاڑے کی راتوں میں ان معصوم کسانوں پر ٹھنڈے پانی کی
بوچھاڑ کی جارہی ہے، آنسو گیس کے گولے چھوڑے جا رہے ہیں، لاٹھی ڈنڈوں سے
انہیں پیٹا جا رہا ہے، ان کے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں، کئی
جگہوں پر سڑکوں کو کاٹ کر خندقیں کھودی گئیں ہیں تاکہ کسان مارچ دہلی کی
حدود میں داخل نہ ہو سکے معلومات کے مطابق اب تک پچاس کے قریب کسان اپنی
جان کی قربانی دے چکے ہیں۔ بھارتی سرکار کے اعداد و شمار کے مطابق 2019ء
میں اقتصادی بدحالی کی وجہ سے سینکڑوں کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
دنیا کی چھٹی بڑی معیشت کا دم بھرنے والی مودی حکومت کو یہ معلوم ہونا
چاہیےکہ بھارت میں روزانہ تقریبا بیس کروڑ انسان بھو کے رہتے ہیں۔اتنی بڑی
معاشی طاقت مگر کسان ایک ماہ سے زائد عرصے سے اس داستان بھوک کو لیے دسمبر
کی یخ بستہ راتوں میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھنے کو مجبور ہیں وہ حکومت کے
غیر کسانی ایوانوں کو یہ بتانے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ ان کو کسی نئے
زرعی قانون کی ہرگز ضرورت نہیں ہے جس سے وہ اپنی روٹی روزی سے محروم ہو
جائیں، بھارتی کسان اچھی طرح جانتا ہے کہ نئے زرعی قوانین کسانوں کے لیے
موت اور اڈانی، امبانی، کارپوریشنز اور مالیاتی اداروں کے سرمایہ کاروں کے
لیے حیات کی نوید ہیں۔ کسانوں کو یہ خوف بھی دامن گیر ہے کہ مودی سرکار نے
جس طرح سے سرکاری اداروں کو سرمایہ کاروں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے کہیں
اسی طرح کی سازش زرعی سیکٹر کو بھی نئے زرعی قوانین کے توسط سے گروی نہ رکھ
دے ۔ایک طرف یہ کسان ہیں جو پر امن احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف
مودی سرکار ہے جو پہلے تو یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھی کہ اس سے کوئی غلطی
ہوئی ہے۔شروع کے دنوں میں مودی یہ کہتے رہے کہ ان معصوم کسانوں کو سیاسی
جماعتوں نے ورغلا رکھا ہے۔کچھ حکومتی اراکین نے اس تحریک کو پنجاب تک محدود
کرنے کی کوشش کی کچھ حکومتی وزراء نے خالصتانی دہشت گرد تحریک قرار دے ڈالی
اتناہی نہیں اقتدار کے نشے میں مدہوش حکومتی وزیر نے اس تحریک کو چین اور
پاکستان کی حمایت یافتہ قرار دے دیا۔ اب حکومت کا تازہ بیان یا یہ ہے کہ
بائیں بازو کے انتہا پسند نکسل وادی اس تحریک کی قیادت کر رہے ہیں ۔حکومتی
بکھلاہٹ کا اندازہ مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد کے بیان سے لگائیں وہ
کسان تحریک پر الزام عائد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ملک کے ٹکڑے کرنے کی
کوشش کرنے والے (گینگ) سے تعلق رکھنے والے جو لوگ شہریت ترمیمی قانون آئین
کی دفعہ 370 کی منسوخی اور رام مندر کے خلاف تھے وہی بائیں بازو کے کردار
کسان تحریک میں بھی شامل ہیں۔ اس سے قبل سی اے اے قانون کی مثال ہمارے
سامنے ہے اسے لے کر جب بھارتی دانشور اور انصاف پسند طبقہ نے تحریک شروع کی
تو انہیں لاٹھی کے زور پر کچلنےکی کوشش کی گئی ،تواس قانون کی مخالفت کرنے
والوں کوپاکسانی ایجنٹ قرار دے دیا گیا لیکن جب ہر طرح کے ظلم و استبداد کے
باوجود یہ تحریک مضبوط ہوتی گئی تومودی یہ باور کرانے کی مسلسل کوشش کرتے
رہے کہ سی اے اے کی مخالفت تنہا مسلمان کرہے ہیں، اور یہ مخالفت خالی از
معنی نہیں اس تحریک کی ڈور پاکستان سے ہلائ جا رہی ہے اب کسان تحریک کےتعلق
سے بھی یہی رویہ روبہ عمل میں لایا گیا ہے، یہ تاثر دینے کی دانستہ کوشش کی
گئی کہ اس تحریک میں تنہا پنجاب کے کسان شامل ہیں، اور یہ خالصتان بنانے کی
سرگرمیاں ہیں اور اس کے پیچھے پاکستان ہے۔ مگر جب تحریک کا دائرہ بڑھنے لگا
تو کہا گیاکہ اس تحریک کو لانچ کرنے والا صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ چین بھی
شامل ہے، لیکن اس طرح کا ہر ہربہ تادم تحریر ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ مودی کے
مراعات یافتگان نے کسان تحریک کو ختم کرنے کے لیے بھارتی سپریم کورٹ کا
سہارا لیا مگر وہاں سے ان کے نصیب میں ناکامی اور نامرادی حصے میں آئی اب
حکومت سے کسانوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ نئے زرعی قوانین منسوخ کرے مگر
حکومت کسانوں کو ترمیم کی شطرنجی چالوں میں پھنسنا چاہتی ہے مگرکسان لیڈران
جوٹس سےمس ہونے کو تیار ہی نہیں۔جیسے جیسے وقت گزررہا ہے،عوام کے مختلف
طبقات سے کسانوں کی حمایت کا نہ صرف اعلان کر رہے ہیں بلکہ لوگ بڑی تعداد
میں ان کے ساتھ شامل ہورہے ہیں مودی کو بھی اب صورتحال کی سنگینی کا احساس
اور ڈر لاحق ہےکہ مزدور یونین ودیگر سماجی گروپس اگر کسانوں کے ساتھ شامل
ہوگئے تو یہ تحریک ایک زبردست عوامی تحریک کی شکل اختیار کر سکتی ہے، جس کو
ڈرانہ دبانا ناممکن ہو جائے گا۔ دنیا جانتی ہے کہ کوئی بھی تحریک جب عوامی
تحریک کی صورت اختیار کرتی ہے تو دور دراز بلکہ اپنے ہمسایہ ممالک تک اثرات
چھوڑتی ہے، اور اقتدار دیرپا بھی قائم نہیں رہتا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ
موجودہ صورتحال حکومت کے لئے گلے کی ہڈی بن گئی ہے اگر کسانوں کے مطالبات
تسلیم کر بھی لے تو لیبر پالیسی بھی تو متنازعہ ہے تو مزدور ملیں، کارخانے
اور فیکٹریاں بند کر سکتے ہیں سڑکوں پے آ سکتے ہیں سی اے اے کی تحریک جو
آسام میں دوبارہ شروع ہوچکی ہے اس کو تقویت بھی مل سکتی ہے اگر حکومت
کسانوں کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے جس کا اشارہ دیا جا رہا ہے
تو پھر انسانوں پر تشدد اور سختی کرنی پڑے گی پھر جس کا انجام ملک گیر
عوامی تحریک سے ملک ملک گیر ہڑتال دھرنے حکومت کے لیے خطرات پیدا کر سکتے
ہیں آخر میں میں انڈیا کے میڈیا کا کردار بھارتی دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ
اپنے میڈیا کےبارے کہتے ہیں کہ یہ (گودی میڈیا) ہے میڈیا کا کردار انتہائی
مایوس کن اور قابل مذمت ہے جو کسانوں کی آواز کو دبا کر مودی سرکار کی گودی
ہیٹھنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔
|