۲۰۲۰:اپنی کٹیا میں روز ماتم ہے،ان کے کوٹھے پہ روز شہنائی

سال ۲۰۲۰میں یہ دلچسپ صورتحال سامنے آئی کہ کورونا نے عوام کی ایک بڑی اکثریت کو غربت و افلاس کے تاریک وادی میں ڈھکیل دیا ۔ لاکھوں کاروبار ٹھپ اور کروڈوں لوگ بیروزگار ہوگئے۔ اس دوران بیروزگاری شرح ۳۶ فیصد تک پہنچ گئی تھی لیکن دوسری جانب ملک کے مٹھی بھر سرمایہ داروں کے اثاثے میں زبردست اضافہ بھی دیکھنے کو ملا۔ ان میں سرِ فہرست مودی جی کے قریبی دوست گوتم اڈانی ہیں جن کو وہ ایک زمانے میں اپنے کالر سے لٹکائے پھرتے تھے۔ اس سال کی ابتدا میں ان کا کل اثاثہ صرف 11.4 بلین ڈالر تھا جو 3 گنا بڑھ کر اب 32.5 بلین ڈالر ہوگیا ہے ۔ یہ تین سو فیصد کا اضافہ کوئی معمولی بات نہیں لیکن مودی ہے تو ممکن ہے۔ اس غیرمعمولی 21.2 بلین ڈالر کے اضافے میں سب سے بڑا حصہ اڈانی کی کمپنی اڈانی گرین لمیٹیڈ کا ہے ۔ اس کی آمدنی میں ۶ بلین ڈالر کے آرڈر سے ۶ گنا کا اضافہ ہوگیا ۔ یہ کمپنی شمسی توانائی کے پینل بناتی ہے۔ اس سے یہ راز کھل جاتا ہے کہ وزیر اعظم اپنی ہر تقریر میں بار بار شمسی توانائی کا ذکر کیوں کرتے ہیں ؟سورج کی تمازت میں عام لوگ جھلستے ہیں مگر اس کی ملائی کوئی اور ہی کھاتا ہے۔

اس سال اڈانی نے اضافہ کے معاملے تو امبانی کو پیچھے چھوڑ دیا لیکن پھر بھی مکیش امبانی ہی ایشیا کے امیر ترین آدمی ہیں۔ ان کے اثاثے میں اس سال 17.1 بلین ڈالر کا اضافہ ہوگیا اور اب ان کا کل اثاثہ بڑھ کر 75.7 بلین ڈالر ہوگیا ۔ ویسے اس تنگی کے زمانے میں بھی 22.6 فیصد کا اضافہ بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس سال کے آخر میں مودی اور امبانی کے لیے ایک غم کی خبر اور کسانوں کے لیے خوشخبری یہ آئی ہے کہ مکیش امبانی پچھلے سال تک دنیا بھر کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں چوتھے مقام پر تھے لیکن اس سال وہ ٹاپ ٹین سے باہر ہوکراب گیارہویں مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ کسانوں کی بددعاوں کا اثر ہو۔ ویسے جس طرح امبانی کی مخالفت اور بائیکاٹ ہورہا اس کے چلتے آئندہ سال کیسا ہوگا اس کا اندازہ مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح یہ عجیب و غریب صورتحال بن گئی ہے کہ جہاں سرکاری خزانہ خالی ہورہا ہے وہیں برسرِ اقتدار پارٹی کی تجوری ابلی پڑ رہی ہے۔ عوام غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں اور سرکار کے چہیتے سرمایہ در امیر سے امیر ترین ہوتے جارہے ہیں۔ بقول شاعر؎
اپنی کٹیا میں روز ماتم ہے
ان کے کوٹھے پہ روز شہنائی

اس تناظر میں آخرِسال مختلف دانشور اپنے اپنے انداز میں موجودہ صورتحال پر تبصرے کررہے ہیں۔ ایسے میں شیوسینا کے رکن پارلیمان سنجے راوت نے اپنے ہفتہ وار کالم روک ٹھوک میں سب سے تیکھا تبصرہ کردیا۔ راوت دراصل پارٹی کے ترجمان روزنامہ سامنا کے مدیر ہیں ۔ انہوں نے لکھا کہ سیاسی مفاد کی خاطر ہم عوام کا نقصان کررہے ہیں۔ اس بات کا احساس اگر مرکزی اقتدار نے نہیں کیا تو جس طرح روس(سوویت ہونین) کے صوبے ٹوٹ کر الگ ہوگئے اسی طرح اپنے ملک کے اندر ہونے میں وقت نہیں لگے گا ۔ یہ کوئی معمولی انتباہ نہیں ہے۔ سنجے راوتکے بجائے کوئی مسلمان ایسی بات کہتا تو اسے شرجیل امام کی طرح پاکستانی ایجنٹ اور سکھ کہتا تو اس کو خالصتانی کے لقب سے نواز دیا جاتا ۔ بائیں بازو کے دانشوروں کے لیے اربن نکسل کی اصطلاح گھڑ کر انہیں چین نواز ملک دشمن قرار دیتے کا اہتمام کرلیا گیا ہے تاکہ عوام کو دعویٰ کی دلیل سننے سے روکا جاسکے۔ ان کے قلب و ذہن کو متنفر کرکے انہیں متاثر ہونے سے باز رکھا جائے لیکن سنجے راوت کے ساتھ یہ حربہ کام نہیں آسکتا کیونکہ وہ بھی ایک ہندوتواوادی ہیں دانشور ہیں ۔شیوسینا برسوں تک بی جے پی کی حلیف رہی ہے اس لیے انہیں ملک دشمن قرار دینا ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہےایسے ای ڈی کو ان کی اہلیہ کے پیچھے لگا دیا گیا ہے اور انتقاماً ہراساں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سنجے راوت کے اس جملے کا سیاق و سباق بی جے پی رہنما وجئے ورگیا کا ایک اہم انکشاف ہے۔ اس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ مدھیہ پردیش کی کمل ناتھ سرکار کو گرانے میں وزیر اعظم نے خاص محنت کی۔ اس پر سنجے راوت سوال کرتے ہیں کہ صوبائی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے میں اگر وزیر اعظم خصوصی دلچسپی لینے لگیں تو ملک کیسے چلے گا؟ آگے وہ لکھتے ہیں وزیر اعظم پورے ملک کے ہیں ۔ ملک ایک دفاقی نظام پر قائم ہے۔ اس نظریہ کی گلا گھونٹا جارہا ہے ۔ جن صوبوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے وہ بھی اسی ملک کا حصہ ہیں ۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کو توڑ کر بی جے پی نے حکومت سازی کی۔ بہار میں تیجسوی یادو نامی نوجوان نے چیلنج کھڑا کردیا۔ کشمیر کی وادی میں عدم استحکام قائم ہے۔ لداخ میں چین گھسا ہوا ہے۔ پنجاب کے کسانوں پر جبرو استبداد جاری ہے۔ کنگنا رناوت اور ارنب کو بچانے کی خاطر مرکزی حکومت میدان میں آگئی ہے۔ ممبئی میٹرو کا کام سیاسی فائدے کے لیے روک دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں سنجے راوت کا اندیشہ ’اس بات کا احساس اگر مرکزی اقتدار نے نہیں کیا تو جس طرح روس(سوویت یونین) کے صوبے ٹوٹ کر الگ ہوگئے اسی طرح اپنے ملک کے اندر ہونے میں وقت نہیں لگے گا ‘درست معلوم ہوتا ہے۔

سنجے راوت کی اندیشہ بظاہر ناممکن لگتا ہے لیکن دو ماہ پہلے تک کسانوں کے ذریعہ دارالخلافہ دہلی کا محاصرہ بھی غیرممکن لگتا تھا۔ اب اس تحریک اثرات پھیل رہے ہیں ۔ ہریانہ کے نائب وزیر اعلی دشینت چوٹالہ نے یہ اعلان تو کیا کہ اگر وہ مرکزی حکومت کو کسانوں کے مطالبات قبول کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو استعفیٰ دے دیں لیکن پھر یہ کہہ کر اپنے پیر پر کلہاڑی مارلی کہ ریاست کی بی جے پی-جے جے پی اتحادی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔اس کے بعد ان پر نائب وزیر اعلیٰ کے عہدہ سے استعفیٰ دے کر کسانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کا دباو بڑھنے لگا ۔ کسانوں نے انبالہ میں وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کے قافلے کو سیاہ پرچم دکھائے اور نعرے لگائے تو ۱۳ کسان رہنماوں کے خلاف قتل کی کوشش اور فساد کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی لیکن کسان اس سے نہیں ڈرے ۔ ان لوگوں نے جند میں دشینت چوٹالہ کے لیے تیار کردہ ہیلی پیڈ کو کھود کر اپنا غصہ ظاہر کیا۔

یہ ہیلی پیڈ اس اچانا شہر میں بنایا گیا تھا جہاں سے ایک سال قبل دشینت نے ۴۷ ہزار سے زیادہ کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی ۔ انہوں نے بی جے پی کے بریندر سنگھ کی بیوی کو ریکارڈ ووٹ سے ہرایا تھا ۔ اس کے باوجود کسانوں نے ہیلی پیڈ کھود کر ’دشینت چوٹالہ واپس جاؤ‘ کے نعرے لگائے۔مخالفت کرنے والے کسانوں نے کہا کہ جب تک دشینت چوٹالہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی حمایت نہیں کرتے، اس وقت تک انھیں علاقے میں گھسنے نہیں دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ یہاں جو بھی لیڈر آئے گا، اس کا استقبال اسی طرح کی مخالفت کے ساتھ ہوگا۔ ہریانہ کے کیتھل شہر میں بھی کسانوں کی مخالفت کے سبب برسرِ اقتدارجے جے پی کے رکن اسمبلی ایشور سنگھ کو ’سشاسن دیوس‘ کے موقع پر منعقدہ پروگرام چھوڑکرپولس کی حفاظت میں فرار ہونے پرمجبورہونا پڑا۔ کسان اگراپنے ارکان اسمبلی کو حلقۂ انتخاب میں گھسنے نہیں دیں گے تو وہی ہوگا جس کا اندیشہ سنجے راوت نے ظاہر کیا ہے۔

ہریانہ کے علاوہ پنجاب کے بھٹنڈا میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی جینتی پر منعقد ایک پروگرام میں اچانک کئی کسان گھس گئے اور انھوں نے وہاں رکھی کرسیاں توڑ ڈالیں۔ اس دوران ناراض کسانوں نے مودی حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ پولس نے پروگرام کے مدنظر جو بیریکیڈ لگا رکھے تھے، ان کو بھارتیہ کسان یونین (ایکتا اگراہاں) اور دیگر کسان تنظیموں نے توڑ دیا ۔ اس موقع پر بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر موتھو کوٹرا نے کہا کہ ’’کسان دہلی کی سرحدوں پر زبردست ٹھنڈ کے باوجود کھلے میں بیٹھے ہیں، اور بی جے پی یہاں (پنجاب میں) جشن منا رہی تھی۔ احتجاجاً ہم نے انھیں تقریب کرنے کی اجازت نہیں دی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ریاست کے بی جے پی لیڈروں کے خلاف ہمارا مظاہرہ تین مہینے سے زیادہ وقت سے چل رہا ہے۔‘‘ اس طرح کے واقعات پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی رونما ہوئے جہاں بی جے پی والوں کو پولس نے چھپا کر عقبی دروازے سے نکالا۔ ایسا اس لیے کرنا پڑا کیونکہ بقول رفعت الحسینی؎
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1222003 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.