جمہوریت کی بالادستی


تحریر: شبیر ابن عادل
جمہوریت اور جمہوری نظام ہی موجودہ دور کی اقوام کے لئے بہت ضروری ہے۔ تاکہ اس کے بنیادی فلسفے ''جمہوریت عوام کے ذریعے، عوام سے اور عوام کے لئے '' پر عملدرآمد ہو۔ آسان الفاظ میں جمہوریت عوام کے حقِ حکمرانی کو ممکن بنانے کے لئے ہے۔ لیکن ہمارے وطن میں تو جمہوریت فنا اور بقاء کا معاملہ ہے۔
ماضی میں آمریت کے طویل ادوار کے درمیانی وقفوں میں جمہوریت تھوڑے تھوڑے عرصے کے لئے آتی رہی۔ طویل آمریت نے ہمارے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، عوام کا حقِ حکمرانی تو سلب ہوا ہی، لیکن خاص طور پر دسمبر1971 میں ملک کے دو لخت ہونے اور مشرقی پاکستان کے الگ ہوکر بنگلہ دیش بننے کی بنیادی وجہ آمریت ہی تھی۔
سن 2008 کے بعد سے ملک میں جمہوریت کے حوالے سے ایک قابلِ تحسین دور کا آغاز ہوا۔ اس کی خامیاں اپنی جگہ ، لیکن جمہوریت کا تسلسل اس ملک کے لئے بہت ضروری ہے، چنانچہ اس کے اجراء سے عوام کے ایک بڑے طبقے میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ یعنی پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سال مکمل کئے اور اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت کو بھی پانچ سال مکمل کرنے کا موقع دیا گیا۔ کرپشن سمیت بہت سارے الزامات کے باوجود ان حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد 25جولائی سن2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ برسر اقتدار آئی۔ اور یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ عوام کو یہ آزادی حاصل ہو کہ وہ جسے چاہیں، اپنا حکمران منتخب کرلیں۔
عام انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی تین مہینے بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ اسے گرانے کی باتیں ہونے لگیں۔ اور یہ باتیں ڈکٹیٹر شپ کے حامیوں نے نہیں، بلکہ ان حلقوں نے کیں، جو خود کو جمہوریت کا چمپئن گردانتے ہیں اور ان کی جماعتیں دو سے زائد بار حکومت بھی کرچکی ہیں۔ میری مراد میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری سے ہے، یہ دونوں سابق حکمران اور ملک کی دو بڑی جماعتوں کے قائدین ہیں۔یہ اور ان کے دیگر
رہنما بہت بلند آہنگ کے ساتھ اور پورے وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ عام انتخابات دوبارہ کرائے جائیں اور اب پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ان کے بچے یعنی مریم نواز اور بلاول زرداری نے دوبارہ انتخابات کا شور برپا کیا ہوا ہے۔ یہ الزامات عائد کئے جارہے ہیں کہ عوام کا مینڈیٹ چوری کیا گیا اور یہ حکومت سلیکڈیڈ ہے، عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوئی۔
ان مطالبات کا بنیادی مقصد عوام کے مسائل اور ان کی پریشانیاں دور کرنا نہیں، بلکہ شور وپکار اور حکومت کے خاتمے کی کوششوں کی بنیادی وجہ سیاستدانوں اور سابق حکمرانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کی سزائیں ہیں۔ اس سارے شورو پکار کا مقصد یہ ہے کہ سابق حکمران سزاؤں سے بچ جائیں۔ ورنہ وہ مل جل کر موجودہ حکومت کی بساط ہی لپیٹ دیں گے۔ یعنی ملک کی دولت لوٹنے پر انہیں کچھ نہ کہا جائے، ورنہ نہ صرف وہ یہ کہ حکومت گرا دیں گے۔ بلکہ اس کوشش میں اگر جمہوریت کی بساط لپٹ سکتی ہے تو لپٹ جائے۔ بلکہ بعض کے نزدیک تو ملک ہی کی اہمیت نہیں۔ کیونکہ اگر انہیں ملک عزیز ہوتا، اس کے عوام اور اپنے ووٹروں سے محبت ہوتی تو وہ کروڑوں روپے کی لوٹ مار کیوں کرتے؟؟
درحقیقت عدلیہ نے بڑے سیاست دانوں کو کرپشن کے جرم میں جکڑلیا ہے اوران کے گرد پھندا بہت سخت ہوتا جارہا ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو سات سال قید، پونے چار ارب روپے جرمانے اور جائیداد کی ضبطی کی سزا ہوئی اور وہ کچھ عرصے کے بعد بیماری کے بہانے سے لندن فرار ہوگئے۔ اس واقعہ کے بعد ملک کے کرپٹ سیاستدانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے سیاہ وسفید کے مالک محترم آصف علی زرداری کے خلاف بھی ایک ریفرنس دائر کیا گیا۔ چنانچہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا اور مشترکہ طور پر احتجاجی تحریک شروع کی۔
حکومت کو گرانے کے حوالے سے ایک بے بنیاد پروپیگنڈہ یہ بھی کیا جاتارہا ہے کہ عمران خان کو حکومت کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اگر تجربہ ہی معیار ہے تو آصف علی زرداری کو صدارت کا کون سا تجربہ تھا؟؟ اور سید یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم بننے سے قبل کس ادارے میں ٹریننگ حاصل کی اور کہاں سے تجربہ حاصل کیا تھا۔ اسی طرح میاں محمد نواز شریف جب 1990میں پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو انہیں کون سا تجربہ تھا۔ یہ سب ان عناصر کا شوروغوغا ہے، جنہوں نے لوٹ مار کی ہے اور چاہتے ہیں کہ سنگین سزاؤں سے بچ جائیں۔
میری رائے میں پورے ملک کے عوام اور خاص طورپر ہمارے دانشوروں اور اہل الرائے حضرات کو اس امر پر بھرپور توجہ دینا ہوگی کہ جمہوریت اپنی پٹری سے نہ اترنے پائے۔ اور ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کی طرح پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی اپنی مدت پوری کرے۔ رہ گئی حکومت سے شکایات تو اُن کے لئے اصل فورم پارلیمنٹ ہے۔ جہاں حکومت کی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کی جاسکتی ہے اور اس طرح کے دیگر فورم بھی ہیں۔ جن میں ہمارا میڈیا بھی شامل ہے۔
اس امر کا بھرپور خیال رکھنا ہہوگا کہ اگر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی تو برسہا برس تک آمریت کا عفریت اور آسیب ہمارے ملک کو کھاتا رہے گا۔ اور پھر جمہوریت کے دوبارہ قیام میں نہ جانے کتنے برس لگ جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128126 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.