تحریر:دلاور حسین چوہدری
اپنے بے قابو اور بے قرار جذبات کی قدر کرتے ہوئے بلا تاخیر اپنی عملی
زندگی کی اپنے ہی ہاتھوں بنیاد رکھنے کا آغاز کرتے ہوئے بڑی دھن کیساتھ
بیٹھا ہوا اپنے کام میں مگن تھا کہ 18 انچ کا کم از کم 4 کلو وزنی پائپ
رینچ تڑاخ سے میری کمر پر لگا اور میں چکرا کر کمر کے بل ہی پچھلی طرف گرتے
ہوئے نیم بے ہوش ہو گیا زرا ہوش آیا تو استاد محترم اسرار احمد خان غصے میں
سرخ آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے کچھ نیم گالی نما القابات پیش کر رہے تھے
اور فرما رہے تھے کہ تیری جرات کیسے ہوئی کہ بلا اجازت تو نے کچے پروں
کیساتھ اڑنے کی کوشش شروع کردی میں خاموشی سے ایک طرف نظریں جھکا کر بیٹھا
کمر میں تکلیف سے اٹھنے والی ٹیسوں کو برداشت کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور
اس اچانک ملنے والی سزا کی وجوہات جاننے کیلئے نوجوان دماغ پر زور دے رہا
تھا احترام استادیت میں نہ آہ نکل رہی تھی نہ آنسو چھلک رہے تھے لیکن تکلیف
کی شدت اور جذبات کو ٹھیس پہنچنے پر آنکھوں میں نمی ضرور آ چکی تھی غصہ
ٹھنڈا ہونے پر استاد محترم اسرار احمد خان میری نمدار آنکھوں اور درد کی
شدت سے بدلنے والی رنگت کا جائزہ لیتے ہوئے سوالیہ انداز میں کچھ نرم آواز
سے گویا ہوئے کہ تمہیں اڑنے کی بہت جلدی ہے میں نے بھرائی ہوئی آواز میں
بغیر کسی وقفے کے جواب دیا کہ جی استاد جی مجھے بہت جلدی ہے میں آگے بڑھنے
کیلئے اپنی خود اعتمادی کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ وقت ضائع نہیں کرنا
چاہتا، یہ غالباً 1978 کی بات ہے جب میں اے ون میرین ورکشاپ کراچی میں 3
سالہ اپرنٹس شپ کر رہا تھا بحری جہاز کا نام تھا(ایم وی رنگا متی) کرین کی
80 ہارس پاور کی ونچ موٹر کی مینٹینس کا کام ہو رہا تھا اور میری 3 سالہ
اپرنٹس شپ کو شروع ہوئے صرف 3 ماہ سب کام تقریباً مکمل ہو چکا تھا صرف
فائنل کور لگنا باقی تھا کہ استاد محترم چائے پینے کا کہہ کر جہاز کی میس
کی طرف روانہ ہو گئے ہمیں مروجہ طریقہ کار اور اصول کے مطابق 6 ماہ تک کسی
اوزار کو ہاتھ ڈالنے کی بھی اجازت نہیں تھی لیکن میں اپنے جلد باز جذبات پر
قابو نہ رکھ سکا اور موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنے کچے فن کو آزمانے کیلئے
اٹھا اور فائنل کور لگانا شروع کر دیا کہ استاد محترم بھی خوش ہو جائیں گے
کہ میں نے ان کا بقیہ کام نپٹا دیا اور میری خود اعتمادی میں بھی عملی طور
پر کچھ اضافہ ہو جائے گا ابھی کام جاری تھا کہ استاد محترم واپس تشریف لے
آئے اور بیان کردہ واقعہ رونما ہو گیا بہرحال استاد اسرارِ احمد خان غصہ
ٹھنڈا ہونے پر میرے قریب آئے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا جب پائپ رینچ
سے ہٹ شدہ میری کمر پر ہاتھ پھیرا تو یونیفارم سے رستا ہوا خون ان کے ہاتھ
پر لگ گیا جو میرے علم میں نہیں تھا استاد اسرار احمد خان ایک دم چونکے اور
احساس سے بدلی ہوئی آواز میں گویا ہوئے کہ بیٹا مجھے معاف کر دینا یار مجھ
سے غصے میں تمہارے ساتھ زیادتی ہو گئی ہے پائپ رینچ سے چوٹ کچھ زیادہ لگ
گئی ہے، میں نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا کہ استاد جی کوئی بات نہیں
آپ استاد ہیں لازم مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو گی جو میرے علم میں نہیں ہے
استاد اسرار احمد خان کام چھوڑ کر ایک طرف بیٹھ گئے اور مجھے شفیق لہجے میں
آواز دی بیٹا ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو اپنی جیب سے سونف سپاری کی دو پڑیاں
نکالیں ایک مجھے تھما دی اور ایک کھول کر اپنے منہ میں ڈال لی استاد اسرار
احمد خان سونف سپاری کے سوا سگریٹ سمیت کوئی نشہ نہیں کرتے تھے سونف چباتے
ہوئے نرم لہجے میں گویا ہوئے تمہیں بہت جلدی ہے کام سیکھنے کی میں نے اثبات
میں سر ہلایا تو کہنے لگے اب میں سکھاؤں گا آپ کو کام اور بہت جلد انشائاﷲ
تمہیں تمہاری سوچ اور جذبات کے مطابق منزل پر پہنچانے کی کوشش کروں گا، آؤ
میں تمہیں بتاؤں کہ تم کیا غلطی کر ریے تھے فائنل کور کھولو اور دوبارہ تم
ہی لگاؤ گے انہوں نے جب اپنی ہدایت کے مطابق لگوایا تو ان کے بتائے بغیر ہی
مجھے احساس ہو گیا کہ واقعی میں بہت بڑی بنیادی غلطی نہیں بلکہ غلطیاں کر
رہا تھا اگر یہ پائپ رینچ میری کمر پر نہ پڑتا تو شاید یہ غلطیاں میں تمام
زندگی کرتا رہتا اور کبھی کامیاب نہ ہوتا لیکن میں نے اس دن کے بعد تہیہ کر
لیا کہ اپنی کامیابی کے بعد کسی کے بھی آگے بڑھنے کیلئے جذبات کو پائپ رینچ
نہیں ماروں گا بلکہ شفقت سے آگے بڑھنے کیلئے مدد کروں گا جو شفقت میرے
استاد کے دل میں پائپ رینچ مارنے کے بعد پیدا ہوئی بہرحال میرے استاد محترم
اسرار احمد خان نے اپنی بات درست ثابت کر کے دکھائی اور اپنی خصوصی شفقت سے
مجھے صرف ایک سال میں اس منزل پر پہنچا دیا جس کیلئے تین سال کا وقت مقرر
ہوتا ہے بہرحال یہ کہانی جو حقیقت پر مبنی اور میری آپ بیتی ہے سنانے کا
مقصد یہ ہے کہ ہمارے اس بد قسمت معاشرے میں سیاسی، سماجی، اخلاقی،معاشی اور
معاشرتی طور پر جو بھی ہمت، محنت مثبت سوچ اور ذاتی کوشش کرتے ہوئے اپنے
جذبات کے بل بوتے پر کچھ اچھا کرنے کیلئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے اس کی
کمر میں تڑاخ سے پائپ رینچ مار دیا جاتا ہے کچھ لوگ اس چوٹ کو نہ برداشت
کرتے ہوئے اپنے مشن سے دلبراشتہ ہو کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور کچھ ساری
زندگی پائپ رینچ کی چوٹیں کھاتے ہوئے ان چوٹوں کے عادی ہو کر غلامانہ ذہنیت
اختیار کر لیتے ہیں لیکن استاد اسرار احمد خان شاید ہی کسی نصیب والے کو
ملتا ہو، سیاسی طور پر اسی مائنڈ سیٹ نے اس قوم کو ایک قوم کی بجائے آج
جیالے، یوتھیے، زیبرے زرافے، پٹواری، اور پتہ نہیں کیا کیا بنا دیا ہے یعنی
آگے بڑھنے کا جذبہ رکھنے والی اس قوم کو گذشتہ پچاس سالہ جمہوری دور سے
پائپ رینچ مار مار کر ان سیاسی شعبدہ بازوں نے ادھ موا کر دیا ہے کہ یہ
کہیں آگے بڑھ کر ہماری جگہ نہ لے لیں کیونکہ وہ اپنی یہ استادی صرف اور صرف
اپنی نسلوں کو منتقل کرنا چاہتے ہیں انہیں اس ملک یا قوم کے عام شہری کے
آگے بڑھنے سے کوئی غرض نہیں ان کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں ان مفادات کے
تحفظ کیلئے ان شعبدہ بازوں نے اپنی اپنی سیاسی ورکشاپس کھول رکھی ہیں جن
میں جیالے، زیبرے، پٹواری، اور یوتھیوں کی شکل میں شاگرد بھرتی کر رکھے ہیں
جن کو حسب ضرورت چھوٹے موٹے مفادات دے کر ذہنی طور پر غلام بنا کر مفلوج
کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ یہ اور ان کی آنے والی نسلیں بھی غلام بن کر
ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی غلام رہیں کچھ شعبدہ باز استاد تو اپنے
دنیاوی مفادات کے حصول اور تحفط کیلئے اپنے دین اور ایمان کا سودا کرنے سے
بھی گریز نہیں کرتے کچھ اپنی عزت اور غیرت کو سڑکوں اور گلیوں میں رسوا
کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے اور کچھ بستر مرگ پر بھی موت کا احساس نہ
کرتے ہوئے اس نہ رہنے والی دنیا کیلئے مزید لوٹنے اور سمیٹنے کی خواہش
رکھتے ہیں ان کی بدقسمتی ہے کہ یہ شاید سمجھ نہیں پائے کہ یہ اکیسویں صدی
ہے وقت بدل چکا ہے سوشل میڈیا کا دور ہے لوگوں میں تیزی سے شعور پیدا ہو
رہا ہے لوگ جان چکے ہیں کہ یہ سیاسی ورکشاپیں چلانے والے جو کل تک اس لوٹ
کھسوٹ کے کاروباری مقابلے میں ایک دوسرے سے جیتنے کیلئے ساری اخلاقی اور
سماجی حدیں پار کر رہے تھے آج میدان سب کے ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کر آخر
کیوں ایک دوسرے کے قصیدے پڑھ پڑھ کر بغلگیر ہو رہے ہیں ان شعبدہ بازوں کو
اب سمجھ جانا چاہئے کہ وقت بدل چکا ہے اب یہ قوم جیالے، یوتھیے،پٹواری اور
زیبرے زرافے کی بجائے غلامی کا طوق اتار کر انسانی وجود رکھنے والی ایک قوم
بننے جا رہی ہے اس لئے کہ تم لوگوں نے پچاس سال تک اس قوم کی کمر میں پائپ
رینچ مارے ہیں لیکن اس قوم کے جذبات کو نہ سمجھتے ہوئے استاد اسرار احمد
خان نہ بن سکے نہ ماضی سے کچھ سیکھ سکے نہ اس قوم کے مستقبل کی فکر کی اب
وقت آ گیا ہے کہ تمہیں سکھانے کیلئے پائپ رینچ قوم کے ہاتھوں میں ہو گا اور
کمر تمہاری ہو گی اب شفقت اسراری نہیں مکافات عمل کا سامنا کرنا ہوگا جو
تمہیں بند آنکھوں سے بھی نظر آنا شروع ہو گیا ہے اب دیواروں سے سر ٹکرانے
سے کوئی فائدہ نہیں اب یہ قوم اپنا حساب کتاب ڈنکے کی چوٹ پر واپس لے گی
ورنہ تمہارا جینا مرنا مذید مشکل ہو جائے گا نوشتہ دیوار پڑھ لینا ہی
عقلمندی ہے یاد رکھو اور یقین کر لو کہ اس قوم کو استاد اسرار احمد خان کی
ضرورت اور تلاش تھی جو شاید عمران خان کی شکل میں نظر آ گیا ہے جس پر قوم
اعتماد اور یقین کر چکی ہے کہ اگر پائپ رینچ بھی مارے گا تو اپنی شفقت،
ایمانداری اور نیک نیتی کے ساتھ اس قوم کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اسے منزل
مقصود تک پہنچانے کی پوری کوشش کرے گا انشائاﷲ بہت جلد اس ملک و قوم کو
غلامی سے نکال کر آزادی اور خوشحالی کے سفر پر گامزن کر دے گا یاد رکھو
اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے اب تم جتنی چاھے اس ملک اور قوم کے خلاف
چالبازیاں اور شعبدہ بازیاں کر لو اس ملک اور قوم کا انشائاﷲ کچھ نہیں بگاڑ
سکتے کیونکہ اس کی بنیادوں میں لاکھوں شہیدوں کا خون ہے اور اس کی حفاظت
اور سلامتی کی قسم کھانے والے اب تک نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے اپنی جانوں
کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں یہ خدا کے نام پر قیامت تک قائم رہنے کیلئے وجود
میں آیا ہے آخر میں بس اتنا کہوں گا (شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری
بات) دعا ہے کہ اﷲ کریم ہمیں قیام پاکستان اور اس کی حفاظت کیلئے اپنی
جانوں کا نذرانہ پیش والے شہدا کی قربانیوں کے صدقے جلد سے جلد اس ملک و
قوم سے غیر مخلص اور ذاتی مفاد پرست قوتوں کی غلامی سے نکال کر حقیقی آزادی
اور قومی یکجہتی نصیب فرمائے اور اﷲ کریم اس ملک و قوم کے ہر فرد کو بلا
تفریق اپنی حفاظت میں رکھے آمین
|