3اور4جنوری کی شب ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں دہشت گردوں
نے 11کان کنوں کو اغواء کرنے کے بعد تیز دھار آلے کے وار کرکے قتل کردیا
اور موقع سے فرار ہوگئے واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ضلعی انتظامیہ اور سیکورٹی
فورسز کی بھار ی نفری جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اور موقع واردات کو گھیرے میں
لیکر شواہد اکٹھے کرنے شروع کردیے سیکورٹی ذرائع کے مطابق جاں بحق ہونے
والوں میں 10افراد کی شناخت محمد ہاشم،عزیز، انور، احمد شاہ، محمد صادق،
چمن علی، حسن جان، عبداﷲ، آصف کے ناموں سے ہوئی ہے تمام افراد پیشے کے لحاظ
سے کانکن ہیں واقعہ کے بعد مشتعل افراد نے کوئٹہ کے مغربی بائی پاس اور مچھ
میں قومی شاہراہ کو ٹائر جلا کر بلاک کرتے ہوئے احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا
گیا تھا مغربی بائی پاس پر دھرنے کاسلسلہ جاری رہے۔
لکھ لکھ کر کاغذ سیاہ کر دئیے گئے یہاں تک کے مذمتی الفاظ ختم ہوگئے کہ اب
مزید قوم میں ظلم و بر بریت سہنے کی سکت نہیں ہے ‘ یہ حکومتی ادارے ، پو
لیس اور سیکیورٹی ادارے جو کہ سب بیٹھے ہی صرف عوام کے جان و مال کے تحفظ
کے لیے ہیں ان پر ہمیشہ ہی سوال کیوں اٹھتا ہے کیا وجہ ہے کہ دشمن جب چاہتا
ہے اپنا مطلوبہ ٹارگٹ حاصل کر کے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن
اندھے ‘ بہرے ایوانوں تک نہ میڈیا کی چیخ و پکار گئی اور نہ اخبارات میں
لکھے ہوئے نوحے ان کی نظر وں سے گزرے چونکہ وہ ’’عام آدمی‘‘ سے منسوب تھے
اور عام آدمی کی ضرورت بس ووٹ پڑنے تک ہوتی ہے۔
سوال تو یہ ہے کہ اس حوالہ سے کیا ان سب کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ؟ مگر
عوام اب اس سوال کا جواب جاننا چاہتی ہے کہ عوام نے سڑکوں پر نکل کر انہیں
اعتماد کا ووٹ دیکر پارلیمنٹ تک پہنچایا وہی عوام آج تہی دست ان کے ایوانوں
کے سامنے کٹی پھٹی لاشوں یا بنیادی سہولیات کی عدم دعتیابی کیوجہ سے سراپا
احتجاج کیوں ہیں ؟ اپوزیشن جو حکومت کی غلطیوں کو نمایا ں کر کے درست راہ
دکھایا کرتی ہے وہ اقتدار کے حصول کے لیے سڑکوں پر کیوں ہے ؟ جماعتیں آپس
میں بر سرپیکار کیوں ہیں جبکہ ہم اندرونی اور بیرونی دونوں اطراف سے خطرات
میں گھر ے ہوئے ہیں اور اگر عوام اس بارے آواز بلند کرتے ہیں تو انھیں الٹا
مجرم قراردے دیاجا تا ہے جو کہ اس امر کو تقویت دیتا ہے کہ جمہوریت میں
جمہور کا تصور ختم ہو چکا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اگلے انتخابات تک سب ٹھیک
ہوجائے گا جو اتنے ادوارحکومت میں نہ ہوسکا وہ آئندہ سالوں میں کیسے ہوگا۔
غریب کان کن جو اپنے اور اپنے بیوی بچوں کی خاطر حصول رزق جیسے عظیم فریضے
کی ادائیگی میں مصروف تھے۔ کون ہیں وہ ظالم جو غریبوں کوبری طرح مار رہے
ہیں کیا وہ کان کن ذمہ دار تھے ان رہنماؤں کے قتل کے یا پھر یہ ایک اور
گہری سازش ہے کہ جس کا مقصد ملک عظیم میں افراتفری اور بے چینی کو فروغ
دینا ہے تاکہ حکومت پاکستان اور قوم اس بات پر مجبور ہو جائے کہ کھلے عام
اور درپردہ ملک دشمنوں سے مذاکرات کرنے پر راضی ہو جائے۔کاش کوئی کام ایسا
بھی ہو کہ جس سے ملک دشمن عناص کا کوئی ایک وار بھی خالی جائے۔
عدلیہ کہاں ہے کیا ملک میں پھیلی بے چینی اور دہشت ناک کاروائیاں کسی
سوموٹو ایکشن کی متقاضی نہیں ہیں اور کیا سوموٹو ایکشن پتنگ بازی، ون ڈش
پارٹیوں اور ایسے ہی فروعی معاملات یا پھر اپنے سیاسی پارٹنروں کے لیے ہی
لیے جاتے رہیں گے رہ گئی سوات کی عورت کی سوموٹو کی کہانی تو اس پر بھی
سوموٹو تو لے لیا ایکشن یا انصاف کب ملے گا اور ملے گا بھی یا نہیں۔کچھ
عرصے پہلے سے یہ بات واضع ہونی شروع ہو گئی تھی کہ صوبہ بلوچستان میں بھارت
اور امریکہ سرگرم ہیں اور پھر طالبان کے متعلق بھی خدشات ظاہر کیے گئے۔ مگر
صوبہ بلوچستان کی حکومت مضر تھی کہ نہیں کوئی ایسے واقعات نہیں ہیں اور
صوبے پر امن و سکون ہے کاش صوبائی حکومتیں اس بات کا ادراک کر لیا کریں کہ
جب کوئی خبر ہوتی ہے تو کوئی نا کوئی پس پردہ اصلیت بھی ہوتی ہے اور کاش
ایسے اقدامات کرلیے جائیں کہ جن سے شاید کچھ بچاؤ ممکن ہو سکا کرے۔میں ایک
بات اور کہنا چاہوں گا کہ بلوچستان میں حالیہ تشدد کہیں اﷲ کا وہ غضب و غصہ
تو نہیں کہ جب لاشوں سے بھرے کنٹینر صوبہ بلوچستان کے (بے غیرت و بدکردار)
حکومتی اہلکاروں کی جیبیں بھرتے ہوئے عین کوئٹہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے
تھے۔ کاش ہمارے (ناصرف بلوچستان بلکہ ملک بھر کے) نیک و ایماندار حکومتی
اہلکاروں کی تعداد بدکردار اور بیغیرت اہلکاروں سے زیادہ ہوجائے تو ہمارا
ملک بھی ایک ذمہ دار ملک ہونے کا ثبوت دے سکے۔خان صاحب اب تو جمہوریت ہے تو
کیا وجہ ہے کہ ڈرون حملے بھی ہورہے ہیں، پورے ملک کے ہر صوبے میں افراتفری
بے چینی بھی ہے، مسنگ پرسنز بھی اپنی جگہ ہیں بے راہ روی اور شریعت کے نام
پر قتل و غارت گری بھی جاری ہے سب کچھ تو ہو رہا ہے تو کیا کر رہے ہیں
ہمارے جمہوری ادارے، ہمارے جان و عزت و مال بچانے پر مامور اہلکار اور
ہماری عدالتیں۔حالیہ سانحہ کوئٹہ کوئی عام اور معمولی واقعہ نہیں، بلکہ یہ
اس خطرے کی گھنٹی ہے ،جسے دشمن اب ایک نئے انداز سے ترتیب دے رہا ہے، اور
دانستہ نفرت اور انتقام کے ایسے بیج بو رہا ہے، جو مسلکیت کے کسی بڑے زہر
آلود طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں.آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام
مکاتبِ فکر کے ماننے والوں میں قومی اور ملی یک جہتی کا شعور اجاگر کیا
جائے .
اس سطح کی تربیت سازی میں ہر مکتبہ فکر کے زعماء ،عمائدین اور علمائے کرام
انتہائی مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں، اور سکولوں ،کالجوں اور دوسرے تعلیمی
اداروں میں اس معاملے پر خصوصی لیکچرز اور موٹیویشنل سپیچز بھی نوجوان نسل
کو فرقہ واریت اور اندرونی خلفشار سے بچانے کے لئے ممد و معاون ثابت ہو
سکتی ہیں۔
اگرچہ اس معاملے میں ہمارے ذمہ دار ادارے ان حقائق سے زیادہ باخبر بھی ہیں
اور دشمن کی ان عیارانہ اور مکارانہ چالوں کا توڑ بھی اچھی طرح جانتے ہیں،
بلکہ ضربِ عضب اور آپریشن ردالفساد میں اس مٹی کے رکھوالوں نے دشمن کو جس
طرح سے دشمن کو دھول چٹائی ہے ،اور جس طرح سے اسے زخم چاٹنے پر مجبور کیا
ہے، وہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں، لیکن بحرحال ہر سطح کی انفرادی و
اجتماعی حیثیت سے ہم سب کو اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت
ہے۔ہم لکھاری سسٹم میں بہتری کی بات کرتے رہتے ہیں اورہمارے الفاظ یقیناً
متعلقہ اداروں تک پہنچتے ہونگے مگر کہ جب تک ہم اپنی گورننس ، عدلیہ ،
قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بہتری نہیں لائیں گے تو کچھ بھی نہیں
ہوسکے گا ۔
|