عرصہ سے دہشتگردی اور سفاکیت کا نشانہ بننے والے ہزارہ
قبیلہ کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے،جسے اہمیت اور حیثیت حاصل ہے۔چنگیز خان کی
یہ نسل چین ،افغانستان،پاکستان ،ایران سمیت ترکی تک پھیلی ہوئی ہے۔جب چنگیز
خان کا پوتا دائرہ اسلام میں ڈاخل ہوتا ہے تو اس قبیلہ میں بھی دین حق آ
پہنچتا ہے۔بامیان میں ہزارہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔افغانستان کے چار
صوبوں میں اپنی شناخت کے ساتھ رہنے والے ہزارہ کو بلوچستان میں ہمیشہ سے
ظلم و بر بریت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔وقفہ وقفہ سے ایسے سفاک ،اندوہناک
واقعات ہوئے کہ دل پسیج کر رہ گیا اور روح گھائل۔ہزارہ کی مائیں، بہنیں،
بیٹیاں صبر کی چادر اوڑھے ہر بار امن کی بھیک مانگتی نظر آئیں۔انصاف کے
لیئے ارباب اختیار کو میتوں کے پاس آنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔یہ جفا
کش،محنتی قوم کا نوحہ ہر دور کا نوحہ رہا ہے۔کابل میں تو بھی ظلم ساتھ ساتھ
ہے،بلوچستان کو مسکن بنایا تو ظلم سے چھٹکارا نہ مل سکا۔جنرل موسیٰ اسی
قبیلہ کا ایک فرد تھا۔جن کی تصنیف ’’فرام جوان ٹو جنرل‘‘ پڑھے جانے کے لائق
ہے۔ یہ کتاب ایک ایسی تاریخ ہے جسے پڑھے بغیر آپ ہزارہ کو سمجھ نہیں
سکتے۔ماضی میں اس قبیلہ کو کافر قرار دینے کا فتویٰ بھی جاری ہوتا ہے۔کابل
کا یہ فتویٰ بلوچستان بھی پہنچا دیا جاتا ہے اور درد کی داستان ختم ہونے کو
نہیں آتی۔عدم تحفظ کا شکار ’’ہزارہ‘‘ درد سے رہائی پا نہیں سکا۔ترک النسل
یہ قبیلہ ہر واردات کے بعد انصاف اور امن مانگتا چلا آیا ہے۔نیٹ ذریعہ کے
مطابق میتوں کے ساتھ دھرنا دینے کی روایت سال 2013کے پہلے مہینہ میں سامنے
آتی ہے جب علمدار روڈ پر واقع سنوکر کلب میں ایک خودکش حملہ ہوتا ہے پھر
اسی جگہ دوسرا دھماکہ ہو جاتا ہے ۔اس روز 120 لوگ مارے جاتے ہیں اور سیکڑوں
زخمی ہوتے ہیں۔یہ رقبہ کے لحاظ سے بڑے صوبہ کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ
تھا۔متاثرین نے اس وقت چار روز شدید سردی میں لاشوں کے ساتھ احتجاجی دھرنا
دیا۔پوری دنیا ہل کر رہ گئی تھی ۔پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف
بنفس نفیس پہنچے تھے ۔بلوچستان حکومت برطرف کر کے گورنر راج نافذ کر دیا
جاتا ہے ۔متاثرین کی دلجوئی کی جاتی ہے اور پھر میتیں سپرد خاک کر دی جاتی
ہیں مگر شومئی قسمت کے گورنر راج میں بربریت جاری رہتی ہے اور ٹھیک ایک ماہ
بعد فروری میں بارود سے بھرا واٹر ٹینکر استعمال کیا جاتا ہے اور 80 ہزارہ
لقمہ اجل بن جاتے ہیں میتوں کو بر لب سڑک رکھ کر احتجاج کی روایت دوہرائی
جاتی ہے۔حکومتی آپریشن میں کا لعدم تنظیموں سے وابست افراد پکڑے جاتے ہیں
،کچھ کو مار دیئے جانے کی خبریں شائع ہوتی ہیں تو ہزارہ برادری اپنی میتوں
کی تدفین پر راضی ہوتی ہے ۔چار روز کا یہ احتجاج بھی رقم ہوجاتا ہے۔محکمہ
داخلہ بلوچستان کے مطابق اسی سال 2013 میں 13دہشتگردانہ حملے ہوتے ہیں۔اور
دو سال بعد 2015 میں بھی یہ سلسلہ رکتا نہیں اس بار 21 افراد کی موت واقع
ہوتی ہے۔واقعات میں کمی آتی ہے مگر مکمل امن نہیں ہوتا۔پھر تین سال بعد
2018 میں چار حملے ہوتے ہیں خون کی ندیاں بہتی ہیں اور ہزارہ کی بیٹی
،وکیل’’ جلیلہ حیدر‘‘ تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیتی ہے۔سپہ سالار
جنرل قمر جاوید باجوہ وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال کے ہمراہ پہنچتے ہیں
بات چیت ہوتی ہے، ڈھارس بندھائی جاتی ہے،پرسہ دلاسہ دیا جاتا ہے دکھ بانٹا
جاتا ہے اور اس طرح احتجاجختم کرا دیا جاتا ہے۔’’جلیلہ حیدر‘‘ کا لب و
لہجہ، انصاف و امن کی بھیک کیلئے پکار یاد بن کر رہ جاتی ہے۔ وقت گزر جاتا
ہے اور سال 2019ء کے چوتھے مہینے میں ہزار گنجی کی سبزی منڈی میں خون کی
ہولی کھیلی جاتی ہے، یہاں بھی نشانہ ہزارہ قبیلہ ہی ہوتا ہے اور ایک بار
پھر دھرنا ہوتا ہے۔ 10 لاشیں رکھ کر نوحہ کناں مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بزرگ
اور بچے امن امن انصاف انصاف کیلئے آسمان کی طرف دیکھتے نظر آتے ہیں۔
حکومتی روایت دہرائی جاتی ہے اور وزیر داخلہ شہریار آفریدی وزیراعلیٰ جام
کمال کے ہمراہ انصاف اور امن کی یقین دہانی کرتے ہیں اور اِس طرح چار روز
کے بعد احتجاج ختم ہوتا ہے اور لاشوں کی تدفین کردی جاتی ہے، مذمتی بیانات
، تعزیتی جملے پڑھنے کوملتے ہیں اور اب نئے سال کے پہلے مہینے کے پہلے ہفتہ
کے تیسرے روز ایک بار پھر ہزارہ برادری کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔ اقرار
کرنے والی دولت اسلامیہ ہو یا کوئی اورسیاہ جھنڈے والے۔ ریاست اپنی ذمہ
داری کب نبھائے گی؟ اب تک 3 ہزار سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں۔ سپہ سالار
خود تحفظ کی یقین دہانی کراچکے ہیں مگر تحفظ دینے میں تاحال ناکام ہیں۔ ایک
صدی سے کوئی کی کانوں میں کام کرنے والے یہ ’’چنگیزی سپوت‘‘ یونہی بے دردی
سے کب تک گولیوں کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ حکومت ِ وقت کو اب ٹھوس اور مؤثر
اقدامات کرنے ہوں گے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بروقت جا کر ڈھارس تو
بندھائی مگر اِس بار ’’محترمہ زارا بیگی‘‘ہمت و استقامت کی تصویر بنے سراپا
احتجاج ہیں کہ عمران خان خود آئیں، ہمیں یقین دہانی کرائیں، ہلاک ہوجانے
والوں کے ورثاء کی کسمپرسی کا ازالہ کریں، زلفی بخاری اور علی زیدی بھی
ناکام لوٹے ہیں۔ یخ بستہ راتوں کو میتوں کے ساتھ احتجاج کرنے والوں کیلئے
کوئی راہ نکالنا ہوگی، کوئی امن کا رستہ ڈھونڈنا ہوگا۔ ناحق بہنے والے خون
کا حساب لیے بغیر کہاں امن ہوسکتا ہے۔ ’’ریاست ِ مدینہ‘‘ اور این آر او کی
گردان کہیں آپ کو بھی یہ کہنے پر مجبور نہ کردے کہ ہمیں کام ہی نہیں کرنے
دیا گیا۔لواحقین بلیک میلنگ کے لئے نہیں بیٹھے وہ تو انصاف چاہتے ہیں ایسی
یقین دحانی انہیں چاہیے تا کہ آنے والے برسوں میں ایسی بربریت نہ ہو
سکے۔ملزمان کٹہرے میں ہوں اور بس۔۔کوئلہ کی کان میں رزق ِ حلال کمانے والے
گولیوں سے بھون دیئے جاتے ہیں، اِس بربریت کی مثال دیکھنے کو نہیں ملتی۔
اپنے خاندان کے واحد کفیل بھی نہ بچے اور نہ زندگی کی نئی شروعات کرنے
والے، بہنوں سے اکلوتے بھائی چھین لیے گئے اور ماؤں سے جوان بیٹے۔۔۔ 2013ء
کی روایت ایک بار پھر دہرائی جاتی ہے اور لاشیں بر لب ِ سڑک رکھ کر ہزارہ
برادری نوحہ کناں ہوتی ہے۔ اِس بار اِس بدقسمت برادری کا مطالبہ ہے کہ وزیر
اعظم عمران خان خود آکر ’’ریاست ِمدینہ‘‘میں ہونے والی بربریت کا دکھڑا
سنیں، ہمارے پشت بان بنیں، پرسہ دیں، دلاسہ دیں اب تو گھر میں جنازہ
اُٹھانے والا بھی کوئی نہیں بچا،مشق ستم ہم ہی کیوں؟ فرقہ پرستی کی بھینٹ
ہمیں ہی کیوں چڑھایا جاتا ہے؟ محنت ہمارا شعار ہے تو ہمیں اپاہج کیوں بنایا
جاتا ہے؟ ہم بھی اُسی خالق کی تخلیق ہیں تو پھر یہ بربریت کیوں؟ یقین جانیے
اِن سوالوں کے جواب میں ’’خاموشی‘‘بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکی۔کئی راتوں سے
مسلسل خون جمادینے والی سردی میں اپنے گوشوں، اپنے پیاروں، اپنے واحد
سہاروں کی لاشوں کے ساتھ صبر کی چادر اُوڑھے بیٹھے ’’ہزارہ‘‘ کا درد محسوس
کرنے کیلئے ہمارا ان کے مسلک سے ہونا ضروری نہیں، ضمیر کا زندہ ہونا ضروری
ہے۔ انسانیت بلبلا اُٹھی ہے، اِس سے بڑا قہر اور کیا ہوسکتا ہے کہ کوئی یہ
بھی نہیں بتا رہا کہ رزق حلال کیلئے کوئلہ میں پورا جسم کالا کردینے والوں
سے ایسا کون سا گناہ سرزد ہوتا ہے کہ گردن کاٹ دی جاتی ہے۔ گولیوں سے چہرہ،
سینہ چھلنی کردیا جاتا ہے خدایا ’’نامعلوم‘‘ کو تو ہی بے نقاب کر کہ تیری
مخلوق یوں بے دردی سے نہ مرے۔وزیراعظم عمران خان کو اب چلے جانا چاہیے
کیونکہ تسلی دینے والے تسلی دے چکے۔ سیاست بہت ہوچکی، انہیں تسلی نہیں تحفظ
چاہیے، ان کا غم بانٹیے، دُکھ دور کیجئے۔ یقین مانیں انصاف اور امن کی بھیک
مانگنے والے بلیک میلر نہیں ہو سکتے یقین کی جیے۔
|