چاہ بہار کی بندرگاہ

تحریر: شبیر ابن عادل
گوادر سے تقریباً 100میل مغر ب میں ایران کے جنوب مشرقی ساحل پر چاہ بہارکی چھوٹی سی بندرگاہ واقع ہے۔بھارت نے 1990کے عشرے میں اس بندرگاہ کو جزوی طور پر تعمیر کیا تھا، وہ بہت عرصے سے ایران کو اس امر پر قائل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ وہ چا ہ بہار کی بندرگا ہ کو بہت بڑی بندرگاہ میں تبدیل کردے۔ تاکہ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے لئے کھلے سمندروں سے تجارت کرنے کا متبادل راستہ فراہم کیا جاسکے۔ بظاہر تو یہ بہت عمدہ بات لگتی ہے، لیکن اس کا مقصد پاکستان کی اہمیت کو ختم کرنا ہے، تاکہ اس سے پاکستان کے معاشی مفادات پر کاری ضرب لگائی جاسکے اور وطن عزیز کے راستے افغانستان اور وسط ایشیائی ملکوں کی سمندری تجارت کے سلسلے کو ختم کیا جاسکے۔
وسطی ایشیا اور خلیج فارس کے درمیان تجارتی راہداری کے لئے1990کے عشرے ہی میں بھارت، اومان، ایران، ترکمانستان، ازبکستان اور قازقستان میں ایک سمجھوتہ ہوا تھا، جس کے تحت بھارت کو چاہ بہار کی بندرگاہ کو عالمی سطح کی بندرگاہ بنانا ہے۔اس کے بعد سن 2002میں بھارت نے چاہ بہار کو ایک مکمل بندرگاہ بنانے کے معاہدے پر دستخط کئے۔ بندرعباس کی بندرگاہ ایران کی پچاسی (85%)فیصد سمندری تجارت کو نمٹاتی ہے اور اس پر کام کا بہت زیادہ بوجھ ہے۔ جبکہ چاہ بہار میں بہت گنجائش ہے اور اسے پچیس لاکھ سے ایک کروڑ پچیس لاکھ ٹن سالانہ کرنے کا منصوبہ ہے۔ بندرعباس کے مقابلے میں چاہ بہار میں ایک لاکھ ٹن سے بڑے جہاز لنگر انداز ہونے کی گنجائش ہے۔ تجزیہ کاروں نے یہ بات زور دے کرکہی ہے کہ چاہ بہار کو شمال جنوبی ٹرانسپورٹ کوریڈور سے منسلک کرنے کا منصوبہ ہے۔ بھارت اس بندرگاہ کے ذریعہ یورپ سے تجارت کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
چاہ بہار سیستان اور بلوچستان کے جنوب میں واقع ہے۔ اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے چاہ بہار برسوں سے کاروبار، تجارت اور جہازرانی کا مرکز رہی ہے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ کو ترقی دینے کا ماسٹر پلان 1973میں تیار کیا گیا اور کنٹریکٹرز کو اس کے متعلقہ ٹھیکے دئیے گئے۔ لیکن ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد مالی مشکلات اور دیگر مختلف وجوہات کی بناء پر یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہوتا چلا گیا۔
ایران عراق جنگ کے دوران ایرانی حکومت نے ایران کی درآمد اور برآمد کے حوالے سے چاہ بہار بندرگاہ کے اہم کردار کو محسوس کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ آبنائے ہرمز اور خلیج فارس کے باہر واقع تھی۔
ایران پر عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد جب وہاں غیرملکی سرمایہ کاری کے لئے نیاماحول بن رہا ہے تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی چند روز قبل ایران کے دورے پر پہنچے۔ افغان صدر اشرف غنی وہاں پہلے سے موجود تھے۔ اس دوران ایران، بھارت اور افغانستان نے چابہار بندرگاہ پر تجارتی راہداری کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کئے۔ بھارتی وزیر اعظم نے ایران کی اہم بندرگاہ چابہار کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر پچاس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ دورہ ئ ایران کے دوران مودی نے ایران کے ساتھ کروڑوں ڈالر کے بارہ معاہدوں پر دستخط کئے۔ ان میں چابہار بندرگاہ کی ترقی اور چابہار زاہدان کے درمیان ریلوے لائن کی تعمیر، پیٹروکیمکل اور بینکنگ کے شعبوں میں تعاون شامل ہے۔
چابہار کی بندرگاہ کی توسیع سے ان وسط ایشیائی ملکوں کو تجارتی راہداری میسر آئے گی، جن کو سمندر میسر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی بندرگاہیں استعمال کرنا پڑتی ہیں۔چابہار کی بندرگاہ پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ بحیرہئ اومان کے دہانے پر موجود چابہار کی بندرگاہ پاکستان میں چین کے تعاون سے تیارکی جانے والی گوادر پورٹ سے زیادہ دور نہیں ہے۔ بھارت کا منصوبہ ہے کہ چابہار کی صورت میں اسے پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ تاکہ پاکستان کے تجارتی مفادات برباد ہوکر رہ جائیں۔
خطرے کی اس گھنٹی کو محسوس کرتے ہوئے اس کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ اس حوالے سے ایران کو قائل کیا جائے اور دوم یہ کہ اپنی گوادر ڈیپ سی پورٹ سے تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کیا جائے۔

shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128129 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.