کہاجاتا ہے کہ کسان ہندوستان کی معیشت کے اہم ستون ہیں ،
ارضی وسماوی آفات کے بحرانی دور میں بھی کسان ملک کی معیشت کو برقرار
رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،وہ بڑی سادگی کے ساتھ زندگی گزارتے
ہیں،محنت ومشقت اور خون پسینے کی کمائی سے وہ اپنا اور اپنے بال بچوں کے
گزارے کا انتظام کرتے ہیں ، انہی کی محنت سے ہر گھر کا دستر خوان سجتا ہے ،
انھی کی کوششوں سے مختلف شعبوں سے جڑے افراد کو روٹی نصیب ہو تی ہے ، یہی
وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں کسانوں کو ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھاجاتارہا
ہے،وہ ہمیشہ ہندوستانی تہذیت کے نمائندے رہے ہیں ۔ہمارے ملک کی نصف سے زائد
آبادی کسانوں پر مشتمل ہے ، لیکن ان دنوں ملک کا یہ محترم طبقہ بڑے تشویش
ناک دور سے گزررہاہے ،دو مہینے سے زائد عرصے سے یہاں کے کسان مرکزی حکومت
کے خلاف سراپا احتجاج بن کر سڑ کوں پر ہیں ، پہلے وہ پنجاب، ہر یانہ اور
ملک کے مختلف علاقوں میں اپنا علمِ احتجاج بلند کرتے رہے ، پھر وہ
دارلسلطنت دہلی کے سرحدوں پر مسلسل دو مہینے سے پورے عزم وحوصلے کے ساتھ
دھر نے پر بیٹھے ہیں ، ان کی مانگ ہے کہ نئے زرعی قوانین کو مرکزی حکومت
واپس لے ، یہ قوانین کسی طرح کسانوں کے مفاد میں نہیں ہیں ، ان کا کہناہے
کہ ان قوانین کے نفاذ سے ملک کے کسان چند سر مایہ داروں کے رحم وکرم پر
زندگی گزار نے پر مجبور ہوجائیں گے اور سر مایہ دار من مانی قیمتوں پر ان
کا اناج اور غلہ خریدیں گے ،کسانوں کا یہ ملک گیر آندولن عوامی تحریک کی
شکل اختیار کر تا جارہا ہے اور اس میں دن بہ دن شدت آتی جارہی ہے۔ اس
تاریخی آندولن کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالنے سے قبل ہم یہاں نئے زرعی
قوانین اور ان پر کسانوں کے خدشات اور اعتراضا ت کا ایک جائزہ پیش کرتے ہیں
۔
پہلا قانون:
زرعی پیداواری تجارت اور تجارت [فروغ اور آسانیاں] ایکٹ
اے پی ایم سی [زراعت پروڈکٹ مارکٹ کمیٹی] کی رجسٹرڈ منڈیوں سے باہر فصلوں
کو فروخت کرنے والے کسانوں اور تاجروں کو آزادی حاصل ہوگی۔ فصل بغیر کسی
پابندی کے ملک میں کہیں بھی فروخت کی جاسکتی ہے۔ اس قانون میں مناسب قیمت
کے لیے نقل و حمل اور مارکیٹنگ کے اخراجات کو کم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
الیکٹرانک کاروبار کے لیے آسان فریم ورک کی تشکیل دینا اس قانون میں شامل
ہے۔
کسانوں کا سوال
اگر مارکیٹ اے پی ایم سی کے باہر تیار کیا جائے گا تو منڈی ٹیکس کا کیا
ہوگا؟ اس سے وابستہ بہت سے لوگ بےروزگار ہوجائیں گے۔مارکیٹ کے باہر کھلنے
سے منڈی بند ہونے کا امکان ہے اور اس کے بعد ایم ایس پی بھی ختم ہوجائے گی۔
حکومت کے ذریعہ منڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے بنائے گئے ای ۔ نام نظام کا
کیا ہوگا؟
دوسرا قانون:
کاشتکار [بااختیار اور تحفظ] قیمت انشورنس اور زرعی خدمات ایکٹ سے متعلق
معاہدہ۔کاشتکاری معاہدہ کے تحت کانٹریکٹ فارمنگ کرنے کی اجازت۔ اس کے لیے
قومی فریم ورک کی سہولت۔
اس معاہدے کے تحت کسان براہ راست زرعی تجارتی کمپنیوں، فرموں، تھوک فروشوں،
برآمد کنندگان یا بڑے خوردہ فروشوں کے ساتھ معاہدے کرسکیں گے اور اسی وقت
قیمت بھی طے کی جائے گی۔ معاہدہ صرف فصلوں کے تعلق سے ہوگا، کسانوں کی زمین
سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا۔
اگر فصل کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو کسانوں کو اس کا ایک حصہ ادا کرنا
پڑے گا، لیکن اگر قیمت کم ہوجاتی ہے تو انہیں معاہدے والی قیمت ادا کرنی
ہوگی۔ اس کے علاوہ کسان کسی بھی وقت معاہدے سے باہر آسکتے ہیں اور کوئی
معاملہ پیش آجاتا ہے تب کسان ایس ڈی ایم کے پاس جا کر اپنی شکایت درج کرا
سکتا ہے۔ اس کا فائدہ پانچ ایکڑ سے کم رقبہ رکھنے والے کسان حاصل کرسکیں
گے۔معاہدہ کرنے والی کمپنیوں کو اعلی معیار کے بیج، تکنیکی مدد اور فصلوں
کے انشورنس کی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔
کسانوں کا سوال:
کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کے دوران کسان کمزور حالت میں ہوں گے۔ چھوٹے موٹے
کسان کمپنیوں پر دباؤ نہیں ڈال سکیں گے۔ کمپنیاں ان کے ساتھ من مانی کرسکتی
ہیں۔ تنازع کی صورت میں کمپنیاں فائدہ اٹھائیں گی ،کیوں کہ ان کے پاس
سرمایہ ہوگا۔ معاہدے کے دوران کھیتوں میں ڈھانچہ تیار کرتے ہوئے زمین کو
نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تیسرا قانون:
ضروری اشیا [ترمیم] ایکٹ
دال، تیل، پیاز، آلو، خوردنی تیل اور دیگر فصلوں کو ضروری اشیا کی فہرست سے
خارج کردیا گیا ہے، یعنی ایمرجنسی کے علاوہ ان اشیأ کا کسی بھی مقدار میں
ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ ابھی تک یہ عمل قانونی نہیں تھا۔ اس سہولت کی وجہ سے
زراعتی شعبے میں نجی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ کولڈ اسٹوریج اور سپلائی
چین میں سرمایہ کاری بڑھے گی جب کہ سامان کی قیمتیں مستحکم رہیں گی۔
اب تک درج ذیل چیزیں ان میں شامل تھیں:
کھاد، کھانے پینے کا سامان، خوردنی تیل، کپاس ، پٹرولیم اور پٹرولیم
مصنوعات سے بنا ہوا ہانک سوت، کچا جوٹ، جوٹ ٹیکسٹائل، بیج، چہرے کے ماسک
سمیت سینٹائزر وغیرہ۔
کسانوں کاسوال:
ذخیرہ اندوز ی ہونے کی وجہ سے سامان کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ اسی کے ساتھ
مصنوعی قلت پیدا کرکے قیمتوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اشیاے خوردونوش
برآمدات کے لالچ میں باہر بھیج دیے جائیں گے اور ملک میں ان سامانوں کی کمی
ہوگی۔ کمپنیاں کسانوں کو کم قیمتیں طے کرنے پر مجبور کریں گی۔
ایم ایس پی [MSP]پر تنازع:
فی الحال۲۳ ؍فصلوں پر ایم ایس پی دستیاب ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ باقی
فصلوں کی قیمتوں پر کسانوں کا کوئی کنٹرول نہیں ہوگا اور اسے کم قیمت پر
فروخت کرنے کے لیے کسان مجبور ہوں گے۔
ایم ایس پی کو ابھی تک کسی قانون میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت ایک حکم
نامے کے تحت اسے جاری رکھے ہوئے ہے لہذا کسانوں کو خوف ہے کہ اسے کسی بھی
وقت ختم کیا جاسکتا ہے۔
ایم ایس پی[MSP] کیاہے؟:
حکومت کسانوں سے جس شرح پر فصلیں خریدتی ہے، اسے ایم ایس پی[MSP] یعنی
Minimum support price کہا جاتا ہے۔ حکومت زرعی پیداوار کی ہر سال ایک کم
از کم قیمت[ایم ایس پی] طے کرتی ہے، جس سے کسانوں کو کافی فائدہ ہوتا
ہے۔مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ وہ ایم ایس پی ختم نہیں کرے گی لیکن دل چسپ
بات یہ ہے کہ نئے زرعی قوانین میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ کسانوں کی طرف
سے ان قوانین کی مخالفت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔
فی الحال ۲۳؍فصلوں پر ایم ایس پی دی جاتی ہے۔ مارکیٹ میں اشیاے خوردونوش کی
قیمتوں میں استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ایم ایس پی نظام بنایا گیا ہے۔
حکومت ان فصلوں کو اپنے گوداموں میں جمع کرتی ہے۔ پی ڈی ایس[PDS] کے تحت
حکومت بی پی ایل [BPL]کنبوں کو یہ اناج کم قیمت پر مہیا کرتی ہے۔[ مذکورہ
مواد etvbharat.comسے تلخیص کے ساتھ لیا گیا ہے]
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں تقریباً ۸۵؍فیصد کسان کافی غریب ہیں۔ ان
کے پاس پانچ ایکڑ سے بھی کم زمین ہے اور ان کے لیے اپنی پیداوار کو فروخت
کرنے کے سلسلے میں بڑے خریداروں سے معاملہ طے کرنا مشکل ہوگا۔ موجودہ نظام
میں منڈی کے مالک مشکل گھڑی میں کسانوں کی مالی مدد بھی کرتے ہیں، بڑی
کمپنیوں سے اس طرح کسی انسانی ہمدردی کی امید نہیں کی جاسکتی۔
ان قوانین کو درست ٹھہرا نے کے لیےحکومت کی دلیل یہ ہے کہ ان قوانین سے
کسانوں کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی پیداوار کو حکومت کے زیر
انتظام منڈیوں میں فروخت کرنے کی مجبوری سے آزاد ہوجائیں گے۔ وہ کسی بھی
بڑے کاروباری شخص کے ساتھ معاہدے کرسکیں گے اور اپنی پیداوار کو کسی بھی
تاجر یا کارپوریٹ کمپنی کو اور ملک میں کہیں بھی فروخت کر سکیں گے، جس سے
ان کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔کسان رہنما اسے جھوٹ اور فریب قرار دے رہے ہیں۔
آل انڈیا کسان سبھا کے قومی جنرل سکریٹری اتول کمار انجان نے ڈی ڈبلیو
اردوکے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مرکز ی حکومت کسانوں کومسلسل دھوکے
دے رہی ہے،’’ اس نے عوام کو سچائی بتائے بغیر،جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے
ہوئے کسان مخالف بل منظور کرالیے ہیں۔‘‘ اتول کمار انجان کا کہنا تھا کہ
حکومت کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے نام پر بھی دھوکے دے رہی ہے۔کیوں
کہ اب کسانوں کی پیداوار منڈیوں میں فروخت ہونے کی بجائے اونے پونے داموں
پربڑے کاروباری خریدلیں گے۔
زرعی امور کے ماہر ہرویر سنگھ کہتے ہیں:
”ایم ایس پی[MSP] لفظ کا اس قانون میں کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔ میری پچھلے
دنوں وزیر زراعت سے بات چیت ہوئی تھی، ان کا کہنا تھاکہ ایم ایس پی کوئی
قانون نہیں ہے۔ یہ ایک اسکیم ہے۔‘‘
ہرویر سنگھ کے مطابق چوں کہ یہ ایک اسکیم ہے اورحکومت جب چاہے کسی اسکیم کو
صرف دو سطری حکم سے ختم کرسکتی ہے۔
۱۳۶؍کروڑ آبادی والے ہمارے ملک میں تقریباً پچاس فیصد افراد زراعت پر منحصر
ہیں۔ ہرویرسنگھ کا کہنا تھا کہ لوگ فی الحال زراعت کو اپنا کام سمجھ کر
کرتے ہیں لیکن جب بڑی کمپنیاں اس کاروبار سے وابستہ ہوجائیں گی تو ان لوگوں
کی حیثیت یومیہ مزدور جیسی ہوجائے گی۔ یہ بھارت کے سوشل سکیورٹی اور فوڈ
سکیورٹی کے لیے بھی ہلاکت خیز ہوگا۔
کسانوں کے یہ خدشات بالکل بے بیناد نہیں ہیں ، مرکزی حکومت کی پالیسیاں اور
سر مایہ داروں کے ساتھ مرکزی حکومت کی وفاداریاں ان خدشات کو تقویت پہنچاتی
ہیں ، کسانوں کے یہ خدشات اس وقت اور بھی گہرے ہو جاتے ہیں جب وہ دیکھتے
ہیں کہ پا نی پت سمیت ملک کے مختلف گوشوں میں کئی بڑے پونجی پتیوں کے بڑے
بڑے گودام بن کر تیار ہیں ، جنھیں اس قانون کے نفاذ کا انتظا ر ہے۔
کسان اور حکومت کے درمیان خلیج کو کم کر نے اور ناراض کسانوں سے تبادلۂ
خیال کے لیے مرکزی حکومت کے نمائندوں نے کسان رہنماؤں کے ساتھ کئی دور کی
بات چیت کی ہے ، لیکن بات چیت کے یہ سارے ادوار بے نتیجہ رہے ہیں۔ حسب عادت
مر کزی حکومت اس معاملے کو سپریم کورٹ بھی لے جاچکی ہے ،سماعت کے دوران
سپریم کورٹ نے مر کزی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے فوری طور پر اس قانون کے
نفاذ کو موخر کر دیا ہے ، اور اس قانون کےمثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ
لینے کے لیے چاررکنی کمیٹی تشکیل دی ہے ، لیکن حیرت کی بات یہ ہےکہ اس
کمیٹی میں شامل چاروں ارکان پہلے سے ہی ان تینوں قوانین کی حمایت میں ہیں
،پھریہ لوگ کسانوں کی بات کیسے سنیں گے؟ یہ سوال بھی کیاجارہا ہےکہ جولوگ
پہلے سے ہی حکومت کے فیصلوں کےحامی ہیں ایسے لوگوں کوہی اس کمیٹی کےاراکین
میں شامل کیوں کیاگیا؟ کیایہ سب حکومت کے اشاروں پر تو نہیں ہورہاہے؟کیا
کسانوں کے احتجاج کو ختم کرنے کے لیے عدالت کا سہارا لیاجارہاہے؟ یہ اور اس
طرح کے درجنوں سوالات لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہورہے ہیں، یہ سوالات اس لیے
بھی پیدا ہورہے ہیں کہ عدالت عظمی نے ۶؍ سال میں ایک بار بھی موجودہ حکومت
کے فیصلے کےخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا اور نہ کوئی سرگرمی دکھائی،چھ سالوں
میں کئی ایک ایسے فیصلے کیے جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اب
تک کرنا پڑرہاہے، لیکن ایک بار بھی سپریم کورٹ نے ان فیصلوں کی مخالفت نہیں
کی جس کانتیجہ یہ ہورہاہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد کا بھروسہ عدلیہ سے
اٹھتاجارہاہے جو جمہوری نظام کےلیے انتہائی خطرناک ہے۔ اس ضمن میں دل چسپ
بات یہ ہے سپریم کورٹ کی چاررکنی کمیٹی کا ایک رکن استعفیٰ دے چکا ہے ، اب
دیکھنا یہ ہے آگے ان کی جگہ کسے منتخب کیا جاتا ہے ۔
کسانوں کا پُر امن احتجاج جاری ہے،اس احتجاج کو تقریبا دو مہینے ہو چکے ہیں
، احتجاجی مظاہروں میں شامل کسان لیڈروں نے یہ واضح کردیاہے کہ اس متنازع
قانون کی واپسی کے علاوہ دوسری کوئی چیز ہرگز منظور نہیں ہے،ان تینوں بل کی
واپسی ہی مسئلہ کا واحد حل ہے،ورنہ یہ احتجاج جاری رہےگا۔ کسانوں کے جوش و
جذبے میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ ہرروز اس میں شدت ہی پیدا ہورہی ہے،کسانوں
نے پیچھے ہٹنے سے صاف انکار کردیاہے،اور اس کےلیے وہ ہر طرح کی قربانی دینے
کےلیےپرعزم ہیں،سو سے زائد کسانوں کی آندولن کے دوران موت بھی ہو چکی ہے۔
کسانوں کی اس تحریک کو ناکام بنانےکےلیےاب تک بہت ساری کوششیں کی گئی،ا ن
کی تحریک کو بدنام کرنے اور ختم کرنےکےلیے بہت سے حربے آزمائے گئے، لیکن
کسانوں کی سوجھ بوجھ اور کسان رہنماؤں کی حکمت عملی کی وجہ سے حکومت کو اس
میں ناکامی ہی ہاتھ آئی،اب مرکزی تفتیشی ایجنسی این آئی اے نے کئی کسان
رہنماؤں پر معاملہ درج کر انہیں نوٹس بھیج دیا ہے ، یہ بھی کسان تحریک کو
کچلنے کا ایک حربہ ہے ۔
ایسا محسوس ہو تا ہے کہ مرکزی حکومت نے اس مسئلے کو اپنی انا کا مسئلہ
بنالیا ہے یا پھر وہ واضح اکثریت حاصل ہو نے کے غرور میں اس قدرچور ہے کہ
وہ ملک کے ایک بڑے طبقے کے مفادات کو کچل کر مٹھی بھر سر مایہ داروں خوش کر
نے میں فخر محسوس کررہی ہے۔مرکزی حکومت نے اگر چہ نئے زرعی قوانین کی مختلف
شقوں میں تر میم کے لیے حامی بھر لی ہے ، لیکن ان قوانین کی منسوخی پر
بالکل آمادہ نھیں ہے ، شایداسے لگتا ہے کہ اس قانون واپس لینا مستقبل میں
کئی اہم قوانین کی واپسی کے لیے ہونے والےمظاہروں کو تقویت پہنچا نا ہو گا
۔
کئی مہینوں سے جاری کسان آندولن اور اس آندولن کی قیادت اور اس میں شامل
افراد کے عزم وحوصلہ اور ان کی قوت ارادی قابل داد ہے ، ہم دیکھ رہے ہیں کہ
کس طرح ملک کے کسان خاص طور سےپنجاب اور ہر یانہ کے سکھ کسان متحد ہو کر
اپنے حقوق کی حفاظت کے لیےمرکزی حکومت کے خلاف کھڑے ہیں ، ان کے اس آندولن
میں ان کی تنظیمیں ، ان کے گُرودُوارے ، ان کے اہل ثروت کھل کر ساتھ دے رہے
ہیں ، جو جس طرح تعاون کر سکتا ہے ، کرررہاہے ، مسلسل لنگر کا اہتمام ہے ،
ضروریات زندگی سے متعلق سارے سامان یہاں فری میں مہیا ہیں ، یعنی کسانوں کے
اس برے وقت میں ان کو اکیلا نھیں چھوڑا گیا ہے ، بلکہ ملک کے دوسرے افراد
بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ، در اصل یہ قوانین صرف کسانوں کے مفادات کے
خلاف نھیں ہیں ، بلکہ ان کے برے اثرات سے ہر طبقے کے لوگ متاثر ہوں گے ، جب
غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھیں گی اور گوبھی، آلو، دال ،آٹا جیسے ضروری
اشیا سر مایہ داروں کی تحویل میں آکر کئی گنا قیمتوں پر بکنے لگیں گی تو
ہندوستان کا عام طبقہ بھی پریشان ہو گا اور ان کے لیے دووقت کی روٹی کا
انتظام مشکل ہو جائے گا ، اس لیے عام لوگ بھی اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں
،اور اسے کسانوں کی تحریک سے عوامی تحریک کا در جہ حاصل ہورہا ہے۔
کسان آندولن کا ڈسپلن اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے اجتماعی جد وجہد
ہمارے لیے ایک نمونہ ہے ،یہ اجتماعیت ہمیں اپنے مظاہروں میں نظر نھیں آتی
، ہمارے حقوق کی حفاظت کے لیے جد وجہد کر نے والوں کا ہم اس طرح ساتھ نھیں
دے پاتے جس طرح کسانوں نے اپنے مظاہرین کا دیا ہے ، اس آندولن کو ہمیں اس
زاویے بھی دیکھنا چاہیے۔ |