ملا منصور کی ہلاکت اور مذاکرات کا عمل
(shabbir Ibne Adil, Karachi)
تحریر: شبیر ابن عادل بلوچستان میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد پہلے پاکستان کی پراسرار خاموشی اور پھر امریکہ سے اتنا شدید ردعمل کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اور اس معاملے پر امریکی صدر اوباما کے بیانا ت نے پاکستانیوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ امریکہ کے بقول ملا منصور عالمی امن کیلئے خطرہ تھا۔ ویتنام کے دورے کے موقع پر امریکی صدر نے اپنے بیان میں بہت ڈھٹائی کے ساتھ کہا کہ امریکی فورسز پاکستانی سرزمین میں موجود خطرات کے خلاف کارروائی جاری رکھیں گی، جو دہشت گرد تمام اقوام کیلئے خطرہ ہیں، انہیں محفوظ ٹھکانے نہیں ملنے چاہئیں، ایسے شخص کو راستے سے ہٹایا، جوامریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملوں میں ملوث تھا، پاکستان سے مل کر مشترکہ مفادات کیلئے کام کرتے رہیں گے۔ اسی دوران پاکستانی دفترخارجہ نے امریکی سفیر ڈیول ہل کو طلب کرکے پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسے واقعات امن عمل پر منفی اثر ڈالیں گے۔ اسی دوران ایران نے ملا منصور کے حوالے سے ان اطلاعات کی تردید کردی کہ ملامنصور ایران سے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ اس واقعہ کے ۶۳ گھنٹے تک پراسرار خاموشی کے بعد پہلے دفتر خارجہ نے احتجاج کیااور پھر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں اعلان کردیا کہ ملامنصور امن میں رکاوٹ نہیں تھا۔ ایسا ہوتا تو وہ مری مذاکرات میں کیوں جاتا؟ لیڈر کو قتل کرکے طالبان کو مذاکرات کی میز پر نہیں لایا جاسکتا۔ملا منصور کو مارکر امن مذاکرات کو سبوتاژ کیا گیا، پہلے یہی کام ملا عمر کی ہلاکت کے ذریعے ہوا۔یہ بات درست ہے کہ ملا منصور کی اس طرح سے ہلاکت کے بعد افغان امن عمل خطرے سے دوچار ہوگیا ہے، اب پاکستان کی پوزیشن کیا ہوگی اور مذاکرات کس سمت جائیں گے، اس حوالے سے بے یقینی خطے کے لئے خطرناک ہوگی۔ امریکہ کا پاکستان میں یہ ایکشن افغان عمل کی راہ میں مزید مشکلات پیدا کرسکتا ہے، پاکستانی مشیر خارجہ یہاں تک اعتراف کرچکے ہیں کہ افغان طالبان کی قیادت پاکستان میں ہے اور ہم انہیں مذکرات کی میز پر لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکہ نے ملا اختر منصور کو نشانہ بناکر افغان طالبان سے مذاکرات کے عمل کو ایک با ر پھرمشکل میں ڈال دیا ہے، یہ بات اہم ہے کہ امریکہ نے ملا منصور کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہی نہیں کیا تھا۔ امریکہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اب اگر سراج الدین حقانی طالبان کے امیر مقرر ہوجاتے ہیں تو پھر مذاکرات کس سمت میں جائیں گے۔ چوہدری نثار نے یہ بات بہت حیرت انگیز کہی کہ حملوں پر امریکی جواز کو ماننا جنگل کا قانون تسلیم کرنے جیسا ہوگا، ان کا یہ بیان صدر اوباما کے بیان کا بہت سخت جواب ہے۔ لیکن اس کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پاکستان سے پھر کہا کہ "ڈو مور"۔ ملا منصور کے قتل کے حوالے سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں، جن میں سب سے اہم ہمارے ملک کی سلامتی اور اس کا دفاع ہے۔ اول یہ کہ امریکی ڈرون پاکستانی حدود میں کیسے داخل ہوگیا، اسے روکا کیوں نہیں گیا؟ اور اسے کیوں مارنہیں گرایا گیا؟ دوسرے پاکستانی کے ردعمل کے انداز پر تجزیہ کار حیران ہیں۔ پہلے تو اس واقعہ پر دفتر خارجہ پر طویل خاموشی چھائی رہی۔ اس کے بعد اتنا شدید ردعمل کہ امریکہ بھی حیران رہ گیا ہوگا۔ دفتر خارجہ کا امریکہ سفیر کو طلب کرکے احتجاج اور پھر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی دھواں دھار نیوز کانفرنس، جس کا حوالہ مندرجہ بالا سطور میں دیا جاچکا ہے۔ یہ امر بھی بہت تشویشناک ہے کہ ملا منصور کی لاش سے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ برآمد ہوا۔ غیرملکیوں سے پاکستانی شناختی دستاویزات ملنے کی یہ پہلی مثال نہیں ہے، اس سے پہلے کئی غیرملکی افراد بشمول دہشت گرد غیرقانونی طورپر پاکستانی شناختی دستاویزات حاصل کرتے رہے ہیں۔ ملا منصور کی ہلاکت سے پاکستان، امریکہ اور ایران کیلئے سوالات پیدا ہورہے ہیں، ان کے پاسپورٹ پر ایرانی ویزا لگا ہوا ہے۔ ملا اختر منصور 25/اپریل 2016کو دوبجکر دس منٹ پر تفتان سرحد سے ایران گئے، پھر 21/مئی کو نوبج کر سات منٹ پر اسی تفتان سرحد سے پاکستان واپس آئے۔ ملا منصور اس سے پہلے بھی اسی سرحد سے ایران جاچکے ہیں۔ وہ پاکستان سے حاصل کردہ شناختی اور سفری دستاویزات سے کراچی ائرپورٹ سے دس مرتبہ بیرون ملک گئے۔ ملا منصور آٹھ مرتبہ دبئی، اور ایک مرتبہ بحرین گئے، جبکہ ایک بار ان کے بیرون ملک جانے کی منزل ریکارڈ پر نہیں ہے۔ لیکن اس شور میں ایک بہت اہم چیز بہت مہارت کے ساتھ دبا دی گئی، وہ چمن کے قریب ایک اہم چیک پوسٹ "انگور اڈا " کا افغانستان کے حوالے کیا جانا ہے۔ کہاں تو حکمرانوں کے یہ دعوے کہ پاک سرزمین کے چپے چپے کا دفاع کیا جائے گا اور کہاں شاہانہ انداز میں اپنی ایک اہم چیک پوسٹ کو افغانستان کے حوالے کرنا اور اس سلسلے میں کسی بھی منتخب ادارے کو اعتماد میں نہ لینا ہے۔ اس واقعہ سے ملامنصور کے قتل کے معاملے پر حکومتی اداروں اور اہلکاروں کا ردعمل نورا کشتی نظر آتا ہے۔ بہت سے حلقوں کو ڈر ہے کہ کل کہیں اٹک کے پل تک کا خطہ بھی افغانستان کے حوالے نہ کردیا جائے۔ قوم کسی بھی صورت میں یہ بات قبول نہیں کرے گی کہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر پاک سرزمین کے ایک انچ حصے کو بھی پڑوسی ملک کے حوالے کردیا جائے۔لیکن تاحال اس معاملے پر گہر ا سکوت طاری ہے، لگتا ہے کہ اپوزیشن کو تو سانپ سونگھ گیا ہے، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جو ہر معاملے پر جذباتی انداز میں بات کرتے ہیں، وہ بھی خاموش ہیں۔ بعض مقتدر حلقوں نے دبی دبی زبان میں اس حقیقت ہی سے انکار کیا ہے کہ انگور اڈا چیک پوسٹ افغانستان کے حوالے کی جاچکی ہے۔
|