قسمت کے آگے ہر انسان بے بس ہوتا ہے ۔ کیونکہ قسمت کا
لکھا انسان مٹا نہیں سکتا ۔ مقدر لاکھ کوشش کے باوجود بھی انسان کی کوشش کو
ہرا دیتا ہے۔ مقدر میں اگر بے وفائ لکھی ہو گی تو وفا کہا سے ملے گی۔ یوں
تو ہر شخص بڑے احترام سے ملا مگر جو بھی ملا اپنے ہی کام سے ملا-
میرے والد بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے ۔ میری والدہ کپڑے سلائ کر کے گھر کا
خرچہ چلا رہی تھی۔ہم تین بہنں اور دو بھائ تھے۔ والد جب فوت ہوئے تو ہمارا
اپنا علیحدہ مکان بھی تھا ۔ بڑے بھائ کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد دوسرے ملک
جانے کا شوق تھا۔ لہزا اس نے اپنے شوق کی خاطر مکان بیچ دیا ۔ اور دبئ چلا
گیا ۔ بھائ گھر میین خرچہ بھج رہے تھے ۔جس کی وجہ سے ہم بہن بھائ اپنی
تعلیم مکمل کر رہے تھے۔ ہمارے پڑوس میں میری خالی کا گھر تھا ۔ ن کے دو
بیٹے تھے۔ خالہ کے بڑے بیٹے کاشف سے میری بجپن میں منگنی ہو گئ تھی۔ میری
والدہ کی خواہش تھی کہ میری تعلیم مکمل ہو جائے پھر مری شادی کرے گی۔ ابھی
میں بے۔اے میں ہی تھی کہ ایک دن دبئ سے کال آئ کہ بھائ کا ایکسیڈنٹ میں فوت
ہوگئے ہے۔ ھمارے تو جیسے پیروں تلے سے زمین نکل گئ ہو۔ پھر سے گھر کے حالات
بکھر گئے۔ اب مزید تعلیم حاصل کرنا ناممکن تھا۔ گھر کے حالات کی وجہ سے
نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ کاشف کو بڑے بنک میں نوکری مل گئ تھی۔ میری
والدہ نے کشف سے کہا کہ اس کی نوکری کی ہوسکے تو بینک میں بات کرو ۔ کاشف
نے مجھے بنک میں نوکری دلوا دی ۔ تو گھر کے حالات میں کچھ بہتری ہوتی ہوئ
نظر آئ مگر حالات ابھی اتنے اچھے بھی نہیتھے کہ شادی کی بات کی جاے خالہ
بار بار آتی کہ اب میرا بیٹا نوکری پر لگ گیا ہے ۔تو شدی کردی جاے ۔والدہ
حالات کے ہاتھوں مجبور تھی۔ بس خالہ جب بھی آتی مہلت مانگتی رہتی یہاں تک
کے آٹھ سال کاعرصہ گزر گیا ۔ امی کہتی پہلے چھوٹے بچوں کی تعلیم مکمل ہوجاے
پھر شادی کی تاریخ طے کرو گی ۔ مگر حالات تھے کہ مکمل طور پر سنورنے کی
بجائے بگڑتے ہی چلے جا رہے تھے ۔ چھوٹی بہنوں کی تعلیم مکمل ہوئ توان دونوں
نے اپنے لیئےلڑکے خود ہی پسند کر لیئے اور شادی شادی بھی کروالی ۔
خالہ جب دوبارہ تاریخ لینے آئ تو امی بول دیا کہ کچھ مہلت اور چاہئیے ۔
بیٹا تعلیم مکمل کر کے کسی نوکری پر لگ جائے تاکہ میرے گھر میں روزی روٹی
کا کچھ آسرا ہو جائے ۔ سونیا تھی کہ گھر کے حالات کو بہتر کرنے میں لگی رہی
۔ تقر یبا دو سال گزرنے کےبعد بھائ کو نو کری مل گئ اب والدہ نے خالہ سے
شادی کی بات شروع کر دی تو کاشف نے ٹال مٹول شروع کر دی اور کہا کہ کچھ وقت
چاہیے کاشف نے اب نوکری چھوڑدی تھی کیو نکہ اسے اچھی نکری مل گئ تھی اس وجہ
سے اسے لاہور شفٹ ہونا پڑا اب رشتے کی بات آتی تو وہ ٹال مٹول کرنے لگا بس
اس انتظار میں والدہ نے چھوٹے بھائ کی شادی کر دی اب گھر میں بھا بی آ گئ
مگرمیری قسمت مجھے دھوکہ دیتی چلی گئ والدہ کی طبعیت خراب رہنے لگی اور کچھ
عرصہ بعد والدہ بھی سا تھ چھو ڑ گئ اب تو سونیا بلکل اکیلی تھی ار انتار
تھا کہ ختم ہو نے کا نام ہی نہیں لیتا تھا خالہ نے جب کاشف سے بات کی تو
پتہ چلا کہ کاشف نے لاہر میں اپنے دفتر می کسی لڑکی سے شادی کر لی ہے اور
لاہور میں اپنا ذا تی مکان بھی لے لیا ہے اور ان کاایک بچہ ھی ہے سو نیا کو
تو یہ بات بجلی کی طرح لگی کہ گھر کے حالات ٹھیک کرتے کرتے ساری زندگی گزار
دی اور جیسے چا ہا وہ بھی اپنا نہیں رہا سونیا کی تو زندگی ہی اجڑ گئ اسے
نہ بھوک لگتی نہ پیاس اور نہ نیند آتی سو نیا نے اپنی حالت پاگلوں جیسی کر
لی جب قسمت میں جدا ئی ہو توانسان قسمت کے آگے مجبور ہو جاتا ہے
|