آئے دن غیر قانونی طور سے بارڈر کراس کر کے یورپ جانے کے
خواہشمندوں کے بارے میں دردناک خبریں آتی رہتی ہیں جن کی واضح اکثریت لوئر
مڈل کلاس کے کثیر العیال اور مالی طور پر بدحال گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے ،
زیادہ تعلیمیافتہ بھی نہیں ہوتے اور شارٹ کٹ کے چکر میں اکثر ہی زندگی کی
بازی ہار جاتے ہیں ۔ جو بچ بچا کے کسی طرح کسی یورپی ملک کو پہنچ بھی جاتے
ہیں تو غیر قانونی قیام کی وجہ سے قدم قدم پر ذلتوں اور خطرات کا سامنا
کرتے ہیں ۔ بےپناہ مشقتیں اور خواری جھیل کر جو بھی کماتے ہیں وہ بہرحال ان
کے اہلخانہ کے حالات بدلنے کے لیے کافی ہوتا ہے رقم کی ترسیل کیسے ہوتی ہے
یہ ایک الگ صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے جس کا وصول کرنے والوں کو نہ تو اندازہ
ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی سروکار ۔ مگر کسی ایک سادہ لوح کی قربانیوں سے باقی
تمام اپنوں کے دن پھر جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وطن میں روزی روزگار کی
صورتحال بہتر نہ ہونے کی بناء پر بہت سے لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اور
اپنی سب کشتیاں جلا کر بہتر روزگار کے حصول کی خاطر یورپ پہنچنے کی کوشش
کرتے ہیں ۔ کچھ ناکام ہو جاتے ہیں اور کچھ اپنی منزل مراد پا لینے میں
کامیاب بھی ہو جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ گذرے سال میں عالمی وباء کے عرصہء
عروج اور سخت بندشوں کے دور میں بھی قسمت آزمائی کا یہ سلسلہ جاری رہا ۔
کئی اندوہناک واقعات پیش آئے جو بیماری سے نہیں مرے وہ چوری چھپے غیر ملک
کی سرحد عبور کرنے کی کوشش میں سیکیورٹی فورسز کا نشانہ بنے تو کہیں کسی
کشتی الٹ جانے کے باعث ڈوب کر مر گئے تو کہیں کنٹینر میں دم گھٹنے سے اپنی
جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اور کچھ کو تو وطن کی مٹی بھی نصیب نہیں ہوتی کسی
اجنبی سرزمین پر ہی رزق خاک ہو جاتے ہیں ۔
ابھی دو چار روز پہلے ایک ایسے ہی بدنصیب شخص کی دیار غیر میں کسمپرسی اور
لاوارثی کی حالت میں موت پھر سوشل میڈیا کے ذریعے شناخت اور اپنے سفر آخرت
کے لیے جسد خاکی کی وطن روانگی سے متعلق درد ناک اطلات زیر گردش رہیں ۔
مرحوم کے متعلق معلوم ہؤا کہ وہ چھ بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور والد کی
زندگی ہی میں گھرانے کا واحد کفیل تھا ۔ پھر حسب روایت وہ اپنے حالات کو
سنوارنے کے لیے سات برس قبل غیر قانونی طریقے سے بہت مصائب و مشکلات کا
مقابلہ کرتے ہوئے یورپ پہنچا اور پھر بیمار ہو جانے کے باوجود کام کرتا رہا
۔ بیٹی کی شادی کے لیے پیسہ اکٹھا کیا مگر خود اس میں شریک نہ ہو سکا ۔
پانچ جوان بھائیوں کے ہوتے ہوئے بھی کسی شخص کا اس طرح سے قربانی کا بکرا
بننا ، بیٹی کی پیدائش پر موت پڑ جانے والے سماج کی ساکھ پر ایک سوالیہ
نشان ہے ۔
متوسط و نیم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا ہر نوجوان عموماً گھر کا بڑا
بیٹا جب اپنے حالات کو سُدھارنے کے لیے پردیس کو سِدھارتا ہے تو نوے فیصد
گھرانوں سے خدا کا خوف اور انصاف اس بچے کے ساتھ ہی رخصت ہو جاتا ہے ۔ سب
سے زیادہ محنت کرنے والا اپنے خاندان کی خوشحالی کے لیے دیار غیر میں اپنا
خون پسینہ ایک کرنے والا نہ تو اپنے بچوں کا بچپن دیکھ سکتا ہے نہ بیوی کی
جوانی ۔ وہ قانونی اور دفتری اہلیت رکھنے کے باوجود انہیں پاس نہیں بلا
سکتا ہے نہ ہی ہر چھٹی پر گھر آ سکتا ہے کیونکہ وہ ذمہ داریاں بھی اس کے سر
منڈھ دی جاتی ہیں جو اس کی ہوتی ہی نہیں ۔ خود اپنوں کی سیان پتیوں اور
زیادتیوں ناانصافیوں کا یہ سلسلہ اکثر ہی ان سادہ لوح عقل سے پیدل پردیسیوں
کے قبر میں اتر جانے تک جاری رہتا ہے ۔ یہ اپنی آنکھوں پر اندھی محبت کی
پٹی باندھے اندھا دھند قربانیاں دیئے چلے جاتے ہیں اور وہاں وطن میں سب مست
مگن اپنی زندگی جی رہے ہوتے ہیں ۔ یہ عمر اور صحت کی پونجی گنوا کر خالی
ہاتھ واپس جاتے ہیں اور دو کوڑی کے ہو کر رہ جاتے ہیں خود اپنے لیے کچھ کیا
ہی نہیں ہوتا اور آگے سے سننے کو ملتا ہے تم نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟
|