لال قلعہ سانحہ پر وزیر داخلہ استعفیٰ دیں ؟

وزیر اعظم نریندر مودی ایک سخت گیر رہنما کے طور پر قومی سیاست میں آئے ۔ انہوں نے پاکستان ، مسلمان اور چین کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دے کرہندو انتہا پسندوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی وہ بہت دلیر رہنما ہیں اور جرأتمندانہ فیصلے کرسکتے ہیں ۔ اس لیے لوگ پاس پڑوس کے ممالک ان سے خوفزدہ رہیں گے اور ملک کی دھاک بنی رہے گی ۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے کچھ علامتی اقدامات کے ذریعہ اس کی سعی کی لیکن وہ پاکستان کو ڈرا نہیں سکے الٹا پاکستان نے سرجیکل اسٹرائیک کے جواب اپنے جہاز بھیجے جو صحیح سلامت لوٹ گئے مگر اس کا تعاقب کرنے والے ہندی جہاز کو گرا کر اس کے پائلٹ کو انہوں نےاپنی سرحد میں پکڑ لیا۔ چین پہلے سکم پھر گلوان اور اب ارونا چل پردیش میں پریشان کررہا ہے لیکن وزیر اعظم کی زبان پر اس کا نام تک نہیں آتا ۔ مسلمانوں کو دھمکانے کے لیے پہلے تین طلاق کا قانون بنایا ، بابری مسجد کا فیصلہ کروایا اور سی اے اے ، این آر سی کا شوشہ چھوڑا لیکن ملت نے ملک گیر تحریک چلا کر بتا دیا کہ وہ ڈرنے والوں میں سے نہیں ہے۔

وزیر اعظم کی جارحانہ شبیہ کو مضبوط تر کرنے کے لیے امیت شاہ کو وزیر داخلہ بنایا گیا انہوں نے کشمیر کی دفع ۳۷۰ کو ختم کرکے خود بہت بہادر بناکر پیش کرنے کی کوشش کی لیکن یوم جمہوریہ کے دن مظاہرین کو لال قلعہ میں داخل ہونے سے روکنے میں وہ وزیر اعظم سمیت ناکام رہے اس طرح ان دونوں کی ہوا ایک ساتھ اکھڑ گئی۔ یوم جمہوریہ کی پریڈ ہر سال لال قلعہ تک ہوتی ہے لیکن اس سال اس کو راج پتھ سے شروع کرکے نیشنل اسٹیڈیم پر ختم کردیا گیا جس کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن بعد میں رونما ہونے والے واقعات سے گمان ہوتا ہے بعید نہیں کہ وہ کسی سازش کا حصہ ہو۔ سارے کسان رہنما اس بات پر متفق تھے کہ ٹریکٹر پریڈ پولس کے ذریعہ دیئے گئے راستوں پر ہی کی جائے گی ۔ اس کے باوجود آخر اس کا راستہ کیوں بدلا ؟ انتظامیہ نے اس کو روکنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات کیوں نہیں کیے اور وہ کیوں ناکام ہوئی ؟ ان سوالات کا جواب کسان رہنماوں کو نہیں بلکہ دہلی پولس اور اس کے آقا امیت شاہ کو دینے ہوں گے ۔

پولس کے مطابق ٹریکٹر ریلی کے دوران مشرقی دہلی میں ہونے والے تشدد اور توڑ پھوڑ کے واقعات میں ۸۹ پولس اہلکار زخمی ہوئے اور 8 بسوں اور 17 پرائیویٹ گاڑیوں کو ہنگامہ کرنے والوں نے نقصان پہنچایا گیا ۔ ایک کسان گولی لگنے سے ہلاک بھی ہوا۔اس بابت 4 کیسز درج کیے گئے لیکن یہ کوئی غیر متوقع اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں تھا ۔ پولس کو پہلے سے اس کا اندازہ لگاکر خاطر خواہ انتظامات کرنے چاہئیں تھے ۔ اگر ایسا کیا جاتا تو مظاہرین پر تشدد کیے بغیر لال قلعہ تک پہنچنے سے بہ آسانی روکا جاسکتا تھا ۔ اس معاملے میں مرکزی حکومت سے بہت بڑی کوتاہی سرزد ہوئی ہے ۔ کسانوں کو بدنام کرنے کے چکر میں سرکار نے دنیا بھر میں ملک کا نام بدنا م کردیا اور لال قلعہ کے وقار کو پامال کروا دیا ۔ دہلی پولس چونکہ وزیر داخلہ کے تحت کام کرتی ہے اس لیے انہیں اس کی ذمہ داری قبول کرکے فوراً استعفیٰ دے کر ہٹ جانا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو وزیر اعظم کو ان کو ہٹا کر کوئی دوسرا باصلاحیت وزیر داخلہ مقرر کردینا چاہیے جو اس طرح کی حالات سے اچھی طرح نمٹ سکے ۔
کسانوں کی اس ریلی کے لال قلعہ پر لے جانے کا الزام کسان رہنما گرنام سنگھ چڑھونی اور دیگر تنظیمیں پنجابی اداکار دیپ سدھو پر لگا رہی ہیں ۔ وہ صاف کہہ رہے ہیں ان کا ارادہ لال قلعہ جانے کا ہرگز نہیں تھا مگر دیپ سدھو کسانوں کو وہاں لے گیا ۔ خود دیپ سنگھ نے ایک ویڈیو جاری کرکے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ لال قلعہ پر اسی نے پرچم لہرایا اس لیے اب شک شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی لیکن وہ کہتا ہے کہ کسانوں کو وہاں لے جانے کاکام اس نے نہیں کیا۔کسان یونین چونکہ جانتے ہوئے بھی مظاہرین کو روکنے میں ناکام رہی اس لیے وہ ذمہ دار ہے۔ دیپ بلاواسطہ کی ذمہ داری تو تھوپ رہا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ وہ خودوہاں کیوں گیا ؟ اور پرچم کیوں لہرایا؟ سوال یہ بھی ہے کہ آخر امیت شاہ کی پولس دیپ سدھو کو اعتراف جرم کے باوجود گرفتار کیوں نہیں کرتی ؟ اس سوال کا جواب ان تصویروں میں ہے جن میں بی جے پی رکن پارلیمان سنی دیول کی تشہیر میں دیپ سدھو وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ کھڑا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ تصاویر فی الحال سوشیل میڈیا میں خوب گردش کررہی ہیں اور دنیا کو بتا رہی ہیں کہ یہ دیپ کس کی روشنی پھیلا رہا ہے۔

دیپ سدھو جس نے اس پرامن کسان تحریک کو تشدد پر اکسا کر بدنام کرنے کی کوشش کی اس کو این آئی اے نے خالصتان کے حامی ہونے کا نوٹس تو دیا لیکن گرفتار کرنے کے بجائے کسان تحریک میں شریک ہونے کی چھوٹ دے دی۔ وزیر داخلہ کو یہ بتانا پڑے گا کہ آخر اس پر یہ مہربانی کیوں کی گئی؟ دراصل دیپ پچھلے ایک سال سے کسان یونین کے رہنماوں پر تنقید کرتا رہا ہے۔ اس نے الگ سے اپنا ایک شمبھو مورچہ بھی قائم کررکھا ہے ۔ اس تنظیم کی خالصتان کے حامی چینلس حمایت بھی کرچکے ہیں ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی پشت پناہی کون کررہا ہوگا ؟ اور انہیں کس طرح کسانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہوگا؟ اس تناظر میں کیرتی کسان یونین کے نائب صدر رجندر سنگھ کا یہ بیان قابلِ توجہ ہے کہ مرکزی حکومت ابتدا سے ہی کسان تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دینا چاہتی تھی اس لیے دیپ سدھو نے ان کی یہ خواہش پوری کردی ۔

کسان تحریکوں نے دیپ سدھو پر کبھی بھی اعتماد نہیں کیا اس لیے ان کی مقبولیت کے باوجود کسانوں کی کسی اہم تنظیم نے کبھی بھی انہیں اپنے اسٹیج سے بولنے کا موقع نہیں دیا۔ ان کے ساتھ کیے جانے والے اس سلوک کےباعث دیپ سدھو سوشیل میڈیا کے ذریعہ ان سے سوال کرتا رہتا تھا ۔ لال قلعہ کے واقعہ کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی کہ کسان رہنماوں کا قدام کس قدر دانشمندانہ تھا ۔ وہ پہلے ہی اس کالی بھیڑ کو پہچان گئے تھے اور اسے دور رکھنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ ورنہ آج گودی میڈیا ان تقاریر کی ویڈیوز چلا کر کسانوں کو بدنام کرنے میں جٹ جاتا لیکن اسے ایسی حرکت سے محروم کردیا گیا ۔ الٹا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ دیپ سنگھ کی تصاویر اور اس کے ذریعہ انتخابی تشہیر کا کام لینا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ سرکاری دلال ہے۔ دیپ پر خالصتانی ہونے کاسنگین الزام لگانے کے با وجود اس کو کھلی چھوٹ دینا بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے اور اس طرح لال قلعہ پر چڑھائی کے شک کی سوئی گھوم پھر کر سرکار کی جانب مڑ جاتی ہے۔ یہ بات کا اگر غلط ہے تو دوسری صورت میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ وزیر داخلہ کاغذی شیر ہیں جو صرف زیڈ پلس سیکیورٹی میں دہاڑتے ہیں ۔ ملک کا تحفظ ان کے بس کا روگ نہیں ہے اس لیے انہیں اقتدار پر فائز رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ بات جتنی جلد ملک کی عوام کے سمجھ میں آجائے اس کا اور قوم کا بھلا ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449725 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.