یوگی کا ڈنڈا اور ٹکیت کے آنسو

 تحریک کی زندگی میں کبھی تو ڈنڈے اور کبھی آنسو کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ ڈنڈا دشمن سے نمٹنے کے لیے استعمال ہوتاہے اور آنسو دوستوں کو منانے کے لیے کام آتا ہے ۔ کسانوں کی تحریک اس کی تازہ مثال ہے ۔ ہریانہ کی حکومت نے اسے ڈنڈے کے زور سے روکنے کی کوشش کی تو اس کا جواب اسی طرح دیا گیا ۔ ہریانہ کی حکومت کو ناکام کرکے جب کسان دہلی کی سرحد پر پہنچے تو یہ تحریک صوبے کے چپے چپے میں پھیل گئی اور سارے عوام کو تحریک سے ہمدردی پیدا ہوگئی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ پہلے نائب وزیر اعلیٰ دشینت اور پھر وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کا اپنی ہی ریاست میں گھر سے نکلنا مشکل ہوگیا ۔ اس کے بعد ۲۶ جنوری کا بہانہ بناکر یوگی ادیتیہ ناتھ کو غازی پور کے کسانوں پر چھوڑ دیا گیا ۔ یہ ایک تجربہ تھا کہ اگر کامیاب ہوجاتا تو اسے سنگھو ، ٹیکری اور دیگر مقامات پر بھی آزمایا جاتا ۔ پہلے مرحلے میں تو اسے کامیابی ملی اورپولس کے جبر نے کسانوں کو منتشر کردیا نیز ان کے خیمے اکھاڑ دیئے ۔

اب اس بکھرے ہوئے قافلہ کو جوڑنے کی ضرورت تھی ایسے میں کسان رہنما راکیش ٹکیت کے ایک پرسوز خطاب نے اپنا جادو دکھایا۔ ٹکیت کے آنسو یوگی کے ڈنڈے کو نگل گئے۔ کسان اس عزم کے ساتھ جوق در جوق احتجاج کے میں میدان میں لوٹنے لگے ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم اپنے رہنما کے آنسو کاکوئی قطرہ ضائع نہ ہونے دیں اور ان آنسووں کا انتقام لیں گے۔ اس طرح ٹکیت کے آنسو وں کا سیلاب یوگی کی دبنگائی کو بہا لے گیا ۔ کسانوں کی اس تحریک نے اب پورے مغربی اتر پردیش کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یوگی میں اگر جرأت ہے تو اس علاقے کے کسی گاوں میں گھس کر دکھائے۔ یوگی تو دور اب بی جے پی کا کوئی چھوٹا یا بڑا رہنما مغربی اتر پردیش کے کسی گاوں میں قدم نہیں رکھ سکتا ۔ یوگی نے اپنی اس حرکت سے اس علاقہ میں اپنی پارٹی کی قبر کھود دی ہے اور کسان اب اس زندہ درگور کردیں گے ۔ اس کسان تحریک جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے بی جے پی کا صفایہ ہورہا پنجاب سے ہریانہ اور اب مغربی اتر پردیش اس کے ہاتھ سے پوری طرح نکل چکا ہے۔

گودی میڈیا نے یوم جمہوریہ کے دن نام نہاد خالصتانی اور ماو نواز وں کے دارالخلافہ دہلی کے اندر اپنا جلوس نکالنے کا خوب شور مچایا لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس دوران ۵۶ انچ کا سینہ رکھنے والے وزیر اعظم خاموش تماشائی کیوں بنے رہے ؟ مقبوضہ کشمیر کی حصولیابی کے لیے اپنی جان دینے کا اعلان کرنے والے وزیر داخلہ کی بولتی کیوں بند ہے؟ ان کے تحت کام کرنے والی پولس پہلے تو کسانوں کو سہولیا ت فراہم کرنے پر مجبور ہوئی ؟ اس کے بعد بھاجپائی کسانوں نے بھیس بدل کر اسے راجدھانی دہلی دوڑا لیا اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ دراصل ان لوگوں کے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا اس لیےجس کے من میں جو آتا وہ بول دیتا اب سورج پر تھوکا ہوا خود ان کے منہ پر آئے گا۔ میڈیا میں اگر ہمت ہوتی تو اپنی خبر پر قائم رہتے ہوئے یہ کہتا کہ مودی اور شاہ کے ہوتے خالصتانیوں اور ماو نوازوں نے دہلی کے سڑکوں پر جلوس نکالا اور وہ کچھ نہیں کرسکے۔

یوم جمہوریہ سے قبل دہلی پولس کو جب احساس ہوگیا کہ یہ طوفان بلاخیز نہ تو کسی کی اجازت سے آیا ہے اور نہ کسی پابندی سے رکے گا تو اس نے بادلِ ناخواستہ بات چیت کا دروازہ کھولا۔ اس سے تحریک میں نئی جان پڑ گئی اور تازہ دم کسان اپنے ٹریکٹر لے کر دہلی کے بارڈر کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ ان ٹریکٹروں پر ان کے یونین کے جھنڈے اور ترنگا لہرانے لگا ۔ یہ لوگ ’کسان ایکتا زندہ آباد’، ’نو فارمر، نو فوڈ’ اور ’کالے قانون منسوخ کرو’ جیسے نعرے لگاتے ہوئے چل رہے تھے ۔ ایسا جوش اور جذبہ غالباً پہلے جشن جمہوریہ کے بعد پہلی بار نظر آیا ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے اُس وقت بھی سنگھ پریوار اس کا مخالف تھا اور آج بھی وہ اپنے گھر میں دبک کر بیٹھا ہوا ہے۔ اس تیاری کے دوران سب سے زیادہ جذباتی سمجھے جانے والے بھارتیہ کسان یونین (ایکتا - اگراہاں) کے جنرل سکریٹری سکھدیو سنگھ نے بھی اعلان کیا کہ ٹریکٹر پریڈ پُرامن ماحول میں نکلے گی کیونکہ اس ملک میں دنگا فساد پھیلانے کی دوکان تو فسطائیوں نے کھول رکھی ہے۔ وہ اگر اپنے گھروں میں مقید ہوجائیں تو ازخود امن و امان قائم ہوجاتا ہے اس لیے کسان ریلی سے نقصِ امن کا خطرہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ ۲۶ جنوری کے تشدد کی پول بھی اب کھل چکی ہے کہ اس میں بھی زعفرانی غنڈےایجنٹ ملوث تھے ۔

سنگھ پریوار اپنی اس کراری ہار کے باوجود فتنہ فساد کی سازش سے باز نہیں آیا لیکن پہلے بھی اس کے ہاتھ ناکامی ہی آئی ۔ ہوا یہ کہ اس تاریخی جلوس سے ۴ دن قبل دہلی کےسنگھو بارڈر پرمظاہرہ کرنے والے کسانوں کے ہاتھ ایک مشتبہ نوجوان چڑھ گیا جس نے تفتیش کے دوران یہ اعتراف کرلیا کہ اسے موجودہ تحریک اوریوم جمہوریہ پر ہونے والے آئندہ ٹریکٹر پریڈ کے دوران تشددپر اکسانے کی تربیت دی گئی ہے۔ سنگھ پریوار کو اس کام کا بڑا تجربہ اور مہارت ہے ۔ اس نوجوان کو کسانوں نےنقاب ڈال کر میڈیا کے سامنے پیش کردیا ۔ وہ نوجوان اس وقت پکڑا گیا جب اس کے ساتھ والی لڑکی نے سنگھو بارڈر پر چھیڑ چھاڑ کا جھوٹا الزام لگایاتھا۔ اس نے بتایا دو لڑکیوں سمیت کل 10 لوگوں کو یہ کام سونپا گیا تھا اور انہیں تربیت دینے والا شخص پولیس کی وردی میں تھا ۔ ان 10 لوگوں کی ٹیم کو مظاہرہ کے دوران گولی باری کرنے کی ذمہ داری بھی دی گئی تھی تاکہ یہ خبر اڑائی جائے کہ کسانوں نے گولی چلائی اور ان کے ذمہ ترنگے کی توہین کرنے کا کام بھی تھا تاکہ تحریک کو بدنام کیا جائے۔ ایسے نہ جانے کتنے گروہ تیار کیے گئے ہوں گے۔

اس واقعہ کے بعد کسان رہنماوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ، ‘اس گروپ کو ہتھیار سونپے جانے والے تھے۔ 26 جنوری کو وہ پولیس پر گولی چلانے والے تھے تاکہ پولیس اور کسان کے درمیان جنگ چھڑ جائے اور انتظامیہ کو اسے کچلنے کا جواز مل جائے۔ یہ انتظامیہ کی آموزدہ حکمت عملی ہے جس کے ذریعہ مختلف تحریکات کو بدنام کیا جاتا ہے نیز اقلیتوں پر ملک دشمنی کا بے بنیاد الزام لگایا جاتا ہے۔ اس طرح ظالم سرکار مظلوم کو ظالم بناکر پیش کردیتی ہے۔ اس گھناونے منصوبے کا سب سے خطرناک پہلو چار کسان رہنماؤں کےقتل کی سازش تھی ۔اس نوجوان نے ان چار کسان رہنماؤں کی تصویروں کو بھی پہچان لیا جنہیں 23 جنوری کے بعد کبھی بھی دن نشانہ بنایا جانا تھا۔ اس منصوبے کی کامیابی کا تصور بھی لرزہ خیز ہے کہ اگر یہ کامیاب ہوجاتی تو جو کشت و خون کا بازار گرم ہوجاتا۔ گودی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا اور اس عظیم تحریک کو بزور قوت بری طرح کچل دیا جاتا لیکن مثل مشہور ہے جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے ۔ اس طرح ان انکشافات نے سازش کرنے والوں کے منہ پر کالک پوت دی ۔

یوم جمہوریہ کی ٹریکٹر ریلی کے لیے پولیس آسانی سے راضی نہیں ہوئی بلکہ پہلے اس نے کڈلی مانیسر پلول ایکسپریس وے پر ریلی نکالنے کی تجویز پیش کی ہےجسے کسانوں نے ٹھکرا دیا ہے۔ دہلی پولیس آؤٹر رنگ روڈ پر ٹریکٹر پریڈ کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھی مگر کسان اس پر اڑگئے تو اسے جھکنا پڑا اور پرعزم کسانوں کا راستہ ہموار ہو گیا ۔ اس کے بعد سوراج انڈیا کے سربراہ یوگیندر یادو نے میڈیا کو بتایا کہ ’’26 جنوری کو کسان اس ملک میں پہلی بار ’یوم جمہوریہ پریڈ‘ کرے گا۔اس کے لیےسبھی بیریکیڈ کھلیں گے، ہم دہلی کے اندر جائیں گے اور مارچ کریں گے۔ یوگیندر یادو نے یہ بھی کہا کہ ’’26 جنوری کو ہم اپنے دل کا جذبہ ظاہر کرنے کے لیے راجدھانی کے اندر جائیں گے۔ اس یوم جمہوریہ پر ایک ایسی تاریخی کسان پریڈ ہوگی، جیسی اس ملک نے کبھی نہیں دیکھی۔ یہ پرامن پریڈ ہوگی اور اس پریڈ سے ملک کی یوم جمہوریہ پریڈ پر یا اس ملک کی سیکورٹی و آن بان شان پر کوئی داغ نہیں لگے گا‘‘۔
وقت وقت کی بات ہے پہلے جو پولس ایک جلوس کی اجازت نہیں دے رہی تھی بالآخر اسے تین ریلیوں کی اجازت دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ دہلی پولیس اورکسانوں کے بیچ راستوں پر بھی سمجھوتہ ہو گیا ہے اور یہ طے پایا کہ ایک روٹ سنگھو بارڈر سے شروع ہو کر سنجے گاندھی ٹرانسپورٹ نگر، کنجھاؤلا، بوانہ اور اوچندی بارڈر ہوتے ہوئے ہریانہ کا ہوگا۔ دوسرا ٹیکری بارڈر سے شروع ہوکر نانگلوئی، نجف گڑھ، جھڑودا، بادلی ہوتے ہوئے کے ایم پی کی جانب جائے گا اور تیسرا غازی پور یو پی گیٹ سے اپسرا بارڈر غازی آباد ہوتے ہوئے یوپی کے ڈاسنا میں جائے گی۔ اس طرح گویابیشتر کسانوں نے سرکار کے بتائے ہوئے راستے پر پرامن جلوس نکالا ۔ دہلی کے اطراف تینوں بی جے پی کے صوبوں سے یہ ریلی نکلی اور ان میں داخل ہوگئی ۔ کسی مائی کے لال وزیر اعلیٰ میں ہمت نہیں ہوئی کہ اپنی پولس کے ذریعہ انہیں روکتا کیونکہ ان کے پاس دہلی کے پولیس کمشنر کی تحریر ی اجازت تھی جو براہِ راست مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے ۔ اس دوران شر پسندوں کے لال قلعہ کا راستہ صاف کرنے کاکام خود حکومت نے کیا ۔ اس لیے وہی قومی پرچم کی توہین کے لیے ذمہ دار ہے۔

کسانوں کی عظیم فتح کے بعد مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے ایک مضحکہ خیز انٹرویو دے کر اپنی جہالت کا ثبوت دیا ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی غیبی طاقت ہے جو یہ چاہتی ہے کہ مسئلہ حل نہ ہو لیکن جب غیبی طاقت کا نام پوچھا گیا تو وہ صاف طور پر کچھ نہیں کہہ سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ امبانی اور اڈانی جیسے سرمایہ داروں کا غیبی دباو حکومت کے پیروں کی زنجیر بنا ہوا ہے۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کے احتجاج پر نریندر تومر نے کہا کہ یوم جمہوریہ قومی تہوار ہے، تحریک کے لئے 365 دن ہیں، لیکن 26 جنوری کا دن اس کے لئے مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی ریلی کے لئے کوئی اور دن طے کریں۔ تاہم، انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اگر کسان 26 جنوری کو کسی طرح کا احتجاج کرتے بھی ہیں تو وہ پُرامن ہوگا۔ وزیر زراعت کی بیچارگی کا اندازہ لگائیں کہ وہ اپیل بھی ایک ایسی چیز کی کررہے ہیں جو ٹھکرائی جاچکی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس تحریک نے ایک مغرور حکومت کو یہ احساس دلا دیا ہے کہ محض انتخاب جیت کر اقتدار پر قابض ہوجانا سب کچھ نہیں ہوتا ۔ ان حکمرانوں کو یہ محسوس کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اس حقیقت کو بھول گئے ہیں ؎
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے بس وہی باقی بتانِ آذری


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1230945 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.