دنیا بھر میں لا علاج اور مہلک امراض پر اگر نظر ڈالیں
تو گنتی کے دوچار امراض ایسے ہے جن کا نام سنتے ہی خوف طاری ہو جاتا ہے ۔
اور خوف بھی ایسا جیسے ’’ موت ‘‘ کا ڈر ہوتاہے ۔ حالانکہ موت کا ڈر ہی
دراصل وہ حقیقت ہے جس کو جھٹلانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے! موت کا ڈر
اور خوف ہی وہ چیزیں ہیں جنکی وجہ سے انسان موت کے بعد کی زندگی کی تیاری
کرکے اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی اور انعام میں جنت حاصل کر تا/ کرتی ہے۔ اور
ایسا اﷲ پاک کی عبادت نبی خاتم النبیین ﷺ کی اطاعت اور انسانیت کی خدمت کے
بغیر ممکن نہیں ! ہاں یہ اور بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ غفور و رحیم ہے ۔اور اﷲ
کی رحمت سے پُرامید رہنا چاہیے ۔بات ہو رہی ہے مہلک اور لاعلاج امراض کے
بارے میں ۔ دنیا بھر میں آج چار فروری سرطان CANCER کا دن منایا جارہا ہے
تاکہ مخلوقِ خدا کو کینسر جیسی موزی مرض سے آگاہی دی جائے اور انسانیت کو
بے موت مرنے سے بچایا جا سکے۔
ہمارے جسم میں مختلف نظام Systems ہیں جیسا کہ نظامِ دوران خون Circulation
سسٹم وغیرہ وغیرہ ۔ کوئی بھی انسانی نظام ہو وہ مختلف عضو Organs کے تحت
بنتا ہے ۔ اور انسانی عضو Organs کی تشکیل ٹیشوز Tissues سے سے مل کر ہوتی
ہے جبکہ Tissue ٹی شوز خلیات Cells کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ اسی لیئے خلیات کو
بنیادی اکائی کہا جاتا ہے ۔ اور یہ خلیات ہماری پیدائش سے لیکر موت تک ایک
جیسے نہیں رہتے بلکہ مختلف خلیات اپنی زندگی پوری ہونے پر ایک طے شدہ
منصوبہ بندی کے تحت مرتے رہتے ہیں اور انکی جگہ ضرورت کے مطابق نئے خلیات
پیدا ہوجاتے ہیں۔ اور اس طرح عام طور پر ہمارے جسم کے خلیات مکمل طور پر
ہمارے جسم کی ضرورت کے مطابق قابو میں رکھے جاتے ہیں یعنی جب کسی خلیے کی
زندگی پوری ہوجاتی ہے تو وہ مرجاتا ہے اور جب کسی نئے خلیے کی ضرورت ہوتی
ہے تو نیا خلیہ پیدا ہوجاتا ہے۔ جبکہ مرض سرطان کی صورت میں اس نظام میں
متعدد وجوہات کی بنا پر خلل پیدا ہوجاتا ہے اور جسم کی ضرورت کے بغیر اور
طلب سے زیادہ نئے خلیات بلاوجہ ہی پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ
وہ خلیات جن کی ضرورت باقی نہیں رہی اور جنکا ختم ہو جانا ہی جسم کے لیے
بہتر ہے وہ اپنے وقت پر ناصرف یہ کہ مرتے نہیں ہیں بلکہ ایک طرح سے لافانی
ہو جاتے ہیں۔ اب اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب بلاوجہ
نئے خلیات بنتے چلے جائیں اور پرانے ناکارہ خلیات بھی اپنی جگہ برقرار رہیں
تو جسم کے اس حصے میں کہ جہاں یہ عمل واقع ہو رہا ہو (خواہ وہ حصہ گردہ ہو
یا دماغ یا کوئی اور) تو وہاں غیر ضروری خلیات کا ایک ڈھیر لگ جائے گا اور
اسی خلیات کے اضافی ڈھیر کو سرطان یا کینسر کہا جاتا ہے۔
معمول کے خلیات کے تقسیم ہونے کی ایک حد ہوتی ہے جس پر پہنچ کر وہ ٹہر جاتے
ہیں، اس کے علاوہ انمیں اپنے آپکو ختم کرلینے کا ایک نظام بھی موجود ہوتا
ہے جس کے ذریعہ ان خلیات کی موت واقع ہوجاتی جن میں DNA میں کوئی طفرہ یا
نقص پیدا ہوگئا ہو یا پھر جنکا وقت پورا ہوچکا ہو اس قسم کی خلیات کی موت
کو برمجہ خلیاتی موت (programmed cell death) کہاجاتا ہے۔ معمول کے خلیات
کا یہ تقسیم ہونے، تقسیم روک دینے اور خود کو ختم کرلینے کا عمل وراثات
(genes) کی مدد سے متعن ہوتا ہے
سرطان شدہ خلیات مستقل تقسیم ہوتے رہتے ہیں اور انمیں پروگرامی خلیاتی موت
کا نظام (یعنی کسی ناقابل اصلاح خرابی کی صورت میں خلیات کا خودکشی کرلینا)
بھی ناقص و ناپید ہوجاتا ہے۔ اور جب بڑھتے بڑھتے سرطان کے خلیات گروہ کی
شکل میں ایک مجموعہ بنالیتے ہیں تو اس طرح ایک جسم وجود میں آنے لگتا ہے جس
کو ورم (tumor) یا رسولی بھی کہا جاتا ہے۔ اس ورم کی وجہ سے اس کے اردگرد
کے معمول کے خلیات پر بے ضرورت دباؤ بھی پڑتا ہے اور اس کے علاوہ دیگر
خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں، مثلا یہ جسم کے کسی حصے کی خون کی فراہمی میں
مداخلت پیدا کر سکتا ہے، کسی عصب (nerve) کو دبا کر ناکارگی کی طرف لے
جاسکتا ہے، بعض اوقات یہ خلیات اپنے اصل مقام سے الگ ہوجاتے ہیں اور خون یا
لمف کے ذریعہ سفرکرتے ہوئے جسم کے دیگر اعضاء اور حصوں تک پہنچ جاتے ہیں
اور یہ سرطان کے جسم میں پھیلنے کا ایک اہم سبب ہوتاہے
سرطان کی طبی تعریف کے مطابق سرطان ایک ایسی غیر معمولہ (abnormal) نسیج کو
کہا جاتا ہے کہ جس کی نشونما تمام تضبیطی نظاموں (control systems) کے
دائرہ کار کی حدود سے تجاوز کر کہ خود مختار (autonomous) ہوچکی ہو اور
دیگر معمول کے نسیجات کی نشو و نما سے اس طرح بڑھ چکی ہو کہ اس نشونما کو
تحریک دینے والے منبہ (stimuli) کو ہٹا دینے کے باوجود نا رک سکے۔ آخر میں
اتنا عرض ہے کہ حضرت سیّدنا ابو ہریرہ رضیَ اﷲُ تعالٰی عنہسے روایت ہے کہ
نبیِّ کریم صلَّی اﷲُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا:۔ترجمہ:اﷲ
تعالٰی نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں فرمائی جس کی شفا نہ اُتاری ہو۔
(بخاری،ج4،ص16، حدیث : 5678) یاد رکھنا سرطان Cancer بھی دیگر امراض کی طرح
ایک بیماری ہے مہلک اور جان لیوا ہے مگر قابل علاج ہے ۔
|