دیوار گر گئی سایہ دیوار پر

مولانا فضل الرحمن نے جو بیان دیا ہے اس نے سیاست کی دنیا میں اعتبار کو مجروح کردیا ہے کہ اب انھوں انتہائی چالاکی اور ذہانت سے اپنے موقف کو یہ کہہ کر تبدیل کیا ہے کہ ہمارا اختلاف اور جدوجہد تو حکومت وقت کے خلاف ہے ،اسٹبلشمنٹ سے تو کچھ شکایات ہیں اور شکایات تو اپنوں سے ہی ہوتی ہے ۔ورنہ اس سے پہلے تو ان کے کئی ایسے بیانات آئے ہیں جس میں انھوں نے کہا کہ ہم عمران خان سے یا ان کی حکومت کے خلاف مہم نہیں چلا رہے ہیں بلکہ ہماری اصل جدوجہدتو ان کو لانے والوں کے خلاف ہے۔ اب اس موقف کی تبدیلی کو کیا نام دیا جائے کہ آپ نے تو عمران خان کا نام ہی یوٹرن رکھ دیا تھا ۔ویسے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے جتنے یو ٹرن لئے ہیں اپوزیشن نے اتنے نہیں لئے ہوں گے ،لیکن یہاں پر آکے مولانا فضل الرحمن کا بیانیہ ن لیگ سے یا نواز شریف صاحب کے بیانیے سے مختلف ہو گیا اور کچھ کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ بلاول زرداری کے بیانیے کے مطابق ہوگیا ۔ایسا لگتا ہے کہ مولانا کچھ تھک گئے ہیں ،یا پھر یہ تقریباَ بیس سال بعد وہ اپنی روٹین کے برخلاف میدان عمل میں آئے ہیں کہ وہ اب تک سرکاری نمائندے کی حیثیت سے رہے ہیں نواز شریف کا دور حکومت ہو یا زرداری صاحب کا دور ہو یا پرویز مشرف کی حکومت ہو وہ ہر حکومت کے ساتھ رہے ہیں ۔

ایم آر ڈی کی تحریک کے بعد انھوں نے 2019میں عمران خان کے خلاف دھرنا دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ ہم عمران خان سے استعفیٰ لے کر ہی واپس جائیں گے پھر ایک روز اچانک معلوم ہوا کہ مولانا نے اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا اس وقت کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ کہاں تو استعفے کے بغیر واپس نہ جانے کا کہہ رہے تھے اور کہاں اچانک واپسی کا اعلان کردیا ۔3فروری بروز بدھ کے دن مولانا فضل الرحمن کا یہ سنسنی خیز بیان شائع ہوا ہے کہ ہم سے ق لیگ نے مارچ میں حکومت گرانے کا وعدہ کیا تھا ،ق لیگ قابل اعتماد نہیں رہی اس نے ہمیں دھوکا دیا ۔ایک انٹر ویو میں سربراہ جمعیت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ ق لیگ کم از کم میرے نزدیک تو قابل اعتماد نہیں رہی کیونکہ انھوں نے جو کھیل کھیلا ہے اس سے لگا ہے کہ وہ کسی کے لیے استعمال ہو گئے ۔پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں سے کوئی بھی ڈیل نہیں کرسکتا سینیٹ چیرمین انتخاب کے حوالے سے ماضی کا ایک تجربہ موجود ہے جو کسی بھی صورت تحریک عدم اعتماد کو جاندار نہیں کہہ رہا ہے ۔جس پارٹی نے اس حوالے سے بات کی ہے وہ تمام فورم پر مطمئن کرے گی تو پھر تب ہی اس کو پی ڈی ایم کا فیصلہ کہا جائے گا ۔مولانا نے کہا کہ تھریکوں کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے کہ فوراَ کارروائی کرنے کے بجائے کچھ مزید وقت دیا جاتا ہے تا کہ حجت پوری ہو جائے ۔انھوں نے کہا کہ رعایت کے دن ختم ہوچکے سخت فیصلوں کے دن قریب آچکے ہیں ،چار فروری کو سربراہی اجلاس ہوگا جس میں اگلی حکمت عملی کے حوالے سے موثر فیصلہ ہو گا ۔

ایک امکان یہ ہے کہ4فروری کے اجلاس میں لانگ مارچ کی تاریخ دی جائے گی لیکن شاید پی پی پی اس پر تیار نہ ہو اس کا فوکس اس بات پر ہو کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے تاکہ موجودہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے لیکن دیگر جماعتیں اس پر مشکل سے ہی راضی ہوں گی اس لیے اس بات کے چانسز نظر آرہے ہیں کہ اسپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے اور اس کے لیے ہوم ورک شروع کردیا گیا ہے کہ شہباز شریف کے لیے اپوزیشن نے پروڈکشن آردڈر کا مطالبہ کیا ہے اس کے لیے اسپیکر نے قاعدے کے مطابق درخواست طلب کی ہے اپوزیشن نے درخواست دینے سے انکار کردیا ہے ۔

تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن میں مولانا فضل الرحمن کے ٰخلاف فارن فنڈنگ کی تحقیقات کی درخواست کی ہے کہ مولانا بھی باہر سے پیسے لائے ہیں اس کی بھی تحقیقات ہونا چاہیے ملک کے ایک معروف صحافی نے ایک ٹاک شو میں بتایا کہ مولانا فضل الرحمن لیبیا کے کرنل قذافی اور عراق کے صدر سدام حسین سے مدرسوں کے نام پر پیسے لائے ہیں اس کی تحقیقات ہونا چاہیے بلکہ انھوں نے ایک اور اہم راز افشاء کیا کہ ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ پرویز مشرف نے کابینہ کے اجلاس میں بتایا کہ مولانا فضل الرحمن بھارت سے بھی نقد رقم اپنی پارٹی کے لیے لائیں ہیں اتنے اہم انکشاف کے باوجود مشرف صاحب مولانا کی سیاسی حمایت حاصل کرتے رہے ۔

پی ڈی ایم بنا کر مولانا اس خوش فہمی کا شکار ہو گئے تھے وہ بہت جلد موجودہ حکومت کو گرا دیں گے اس لئے کہ اس تحریک کے ابتدا میں تینوں بڑی پارٹیوں یعنی پی پی پی ن لیگ اور جے یو آئی کا موقف قریب قریب ایک ہی تھا یا یہ کہ دونوں بڑی جماعتیں مولانا کو استعمال کررہی تھیں کہ انھیں کہا گیا یہ اجلاس میں فیصلہ ہوا ہوگا کہ پریس بریفنگ میں یہ بات کہی جائے لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کی طرف ہو گا ۔اس بیان سے ایک بے چینی کی لہر کا ہونا فطری عمل تھا لیکن اس کے بعد ہی پی پی پی نے یہ اعلان کیا کہ وہ ضمنی انتخاب اور سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لیں گے اس طرح پی پی پی نے مولانا کو آگے بڑھا کر اسٹبلشمنٹ سے اپنے معاملات سیدھے کرلیے ۔جبکہ اس سے پہلے پوری پی ڈی ایم یک زبان ہو کر کہہ رہی تھی کہ یہ اسمبلیاں جعلی ہیں اب اسی جعلی اسمبلیوں کے ذریعے سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لینے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔مولانا فضل الرحمن پی پی پی اور ن لیگ کی جس دیوار کے سائے میں بیٹھ کر موجودہ حکومت کو گرانے چلے تھے خود وہ دیوار پہلے کمزور ہوئی اور اب وہ مولانا کے اوپر گر گئی ہے اور مولانا وہی موقف اپنانے پر مجبور ہو گئے ہیں جو پی پی پی اور ن لیگ کا موقف ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لیا جائے اس کے بعد لانگ مارچ اور استعفوں کی بات کی جائے ،ہم سمجھتے ہیں کہ سینیٹ کے انتخاب میں تحریک انصاف کو سب سے زیادہ کامیابی مل جائے گی جس کے بعد اس کی اندرونی اور بیرونی سطح پرسیاسی پوزیشن پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائے گی ۔

 
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 50045 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.