ارض کشمیر پر ظلم کی انتہا۔۔

 وادی کشمیر جنت نظیر۔۔ وادی کشمیر وہ وادی ہے جسے بابائے قوم نے پاکستان کے شہہ رگ قرار دیا اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے جنت نظیر کہاں ہے۔بروز 5فروری جسے ہم یومِ یکجہتی کشمیر کے نام سے مناتے ہیں۔کشمیر کو غلامی کی زندگی گزارتے ایک اور سال ہوا چلتا ہے۔74,سال سے کشمیر غلامی کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے۔ کشمیری ہم پاکستانیوں سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ہم پاکستانیوں کی محبت میں اپنی چھتوں پر سبز پاکستانی پرچم لہراتے ہیں تو ہندوں فوجی پرچم لگانے پر گھروں کو گرا دیتے ہیں ظلم و جبر کا شکار بناتے ہیں۔ کشمیری پاکستانیوں کی خوشیوں میں خوش ہوتے ہیں۔14اگست کا دن ہو یاچھ ستمبر کا دن،6 ستمبر کا دن ہو یا قائد اعظم ڈے ہو یا علامہ اقبال ڈے ہو یا کوئی بھی خوشی پاکستانی منائیں۔کشمیری ہم پاکستانیوں کی خوشیوں میں شانہ بشانہ ہوتے ہیں۔بڑے جوش و جذبہ بڑے جوش و خروش کے ساتھ ہماری خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ جب کشمیری ہم پاکستانیوں کی خوشیوں میں خوش ہوتے ہیں تو بھارتیوں سے برداشت نہیں ہوتا تو وہ ہمارے مسلمان کشمیری بہن بھائیوں کو اریسٹ کر لیتے ہیں۔ درد ناک سزائیں دیتے ہیں حق کے شہید بھی کر دیتے ہیں۔کشمیر کی حریت رہنما آپا جی آسیہ اندرابی پاکستانی سے بے حد محبت کرنے والی خاتون جنہوں نے اپنی زندگی بھی گزار لی کشمیر کی آزادی کے لئے ہمیشہ لڑیں اور لڑیں گی انشائاﷲ اپنے شوہر کے ساتھ دو برس زندگی گزاریں آبادی کے شہر قاسم فوتوجی نے تقریباً تیس برس بیت چکے ہیں وہ انڈین جیل میں محصور ہیں۔ان کا قصور صرف اور صرف آزادی کے حق میں بولنا ہے انہوں نے جیل کے اندر اﷲ کے فضل و کرم سے بیس سے زائد کتب لکھیں جن میں سے چھ کتابیں انگلش پر مشتمل ہیں اور 15 کتابیں اردو پر مشتمل ہیں۔ الحمدﷲ سے و انہوں نے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی اسلامک سٹڈیز میں کی ہوئی ہے۔ آپاجی آسیہ اندرابی نے اپنی زندگی جیلوں کے دھکے کھاتے ہوئے گزار لیں اور قصور صرف اور صرف پاکستان سے محبت اور آزادی کشمیر کی آواز بلند کرنا ہے۔آپا جی آسیہ اندرابی کے بیٹے کرکٹ کا بہت شوق رکھتے تھے انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا ’’اگر بھارت کے ساتھ مل کر کھیلنا چاہتے ہو تو اس کی اجازت نہیں‘‘فرمانبردار بیٹا اور پاکستانیوں سے محبت رکھنے کی حیثیت سے اس نے اس کو چھوڑ دیا۔ اور آج الحمدﷲ سے وہ اپنی یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان ہیں۔چند سال پہلے آپا جی آسیہ اندرابی کا ایک ویڈیو پیغام چند سال پہلے بہت گردش کر رہا تھا جس میں وہ پاکستانیوں سے مخاطب ہو کر رو رو کر کہہ رہی تھی۔’’پورا کشمیر لہو لہان ہے لوگ لاشیں گن رہے ہیں اور مجسدوں کے ممبر اور لاؤڈ سپیکر پاکستانی ترانے گونج رہے ہیں۔ اس لیے انہیں کہہ دیں کہ پورے پاکستان میں یوم سیاہ کا اعلان کردیں اپنے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کردیں کب تک لوگ شہید ہوں گے کب تک لوٹیں گے اسلام پر اس لئے یہ پیغام جہاں جہاں پہنچا سکتے ہیں آپ پہنچا دے اور انہیں کہہ دے کہ کشمیری آج بھی آپ کے منتظر ہیں۔آپ کو پتہ ہے مسجدوں میں کونسے ترانے گونج رہے ہیں:
اک پرچم کے سائے تلے اب آنا ہے
اپنے پاکستان کو بچانا ہے۔۔۔۔‘‘

سید علی گیلانی اہ 89 سالہ بزرگ 74 سال سے جاری بھارتی قبضہ کے خلاف جدوجہد کی توانا آواز ہیں۔سید علی گیلانی کشمیریوں کے لیڈر کبھی جیلوں میں تو کبھی ہسپتالوں میں مگر پھر بھی آزادی کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ کشمیری بچہ بچہ آپ سے محبت رکھتا ہے۔آپ کافی پڑھے لکھے انسان ہیں عقل اور شکل میں انتہائی خوبصورت ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں کشمیری آزادی پانے کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر گئے۔کتنے ہی شہداء نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر گئے۔اتنی قربانیاں کے لکھا جائے تو کلم تھک جائے مگر چند ایک آپ کی آگئے رکھتی ہوں۔

شکل و اخلاق و کردار میں ہم سب سے اعلی مظلوم بہنوں کا دردمند مظلوم بہنیں ایسے بھائیوں کی منتظر رہتی ہیں۔ماؤں کے آنسوؤں کا مداوا کرنے والا اور مائیں صدیوں سے ایسے بیٹوں کے لئے رو رو کر دعائیں کرنیوالی۔۔برہان جن بھائیوں کا بازو تھا وہ بھائی اپنی قوت پر ناز کرتے تھے۔ میرا برہان ہر آنکھ کا تارا ہر ایک کو پیارا تھا۔ جتنی کشمیر سے محبت کی اتنی ہی پاکستان سے۔ برہان کے جنازے نے عالم کو حیران کر دیا۔ برہان کے جنازے نے بھارتی فوجیوں کی نیندیں حرام کردیں۔برہان کی شہادت نے ہر بچے میں آزادی کا جذبہ بیدار کیا اور ان کی شہادت کے بعد کشمیر میں آزادی کی لہر خوب بڑھ گئی۔برہان کی شہادت پر ہر ماں کو ایسے لگا جیسے ماؤں نے اپنے لال گما دیئے ہر بہن کو ایسے لگا جیسے حقیقی ویر کو جدا کر دیا اور 8جولائی کو شہید ہونے والا یہ نوجوان نہ صرف کشمیر کا بلکہ پاکستان کا بھی ہیرو ہے۔ازلی دشمن بھارت کو اس بات کی بھی تکلیف ہوتی ہے کہ کوئی پاکستان کے حق میں ایک لفظ بھی نہ بولے۔اس اﷲ کے شیر برہان وانی شہید کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر جہاد کو اجاگر کیا مسلمانوں میں جہادی جذبہ بیدار کیا برہان وانی کے بڑے بھائی خالد وانی کو قصور یہ تھا کہ وہ برہان وانی کے بڑے بھائی تھے۔بھارتیوں نے خالد وانی سے بھائی کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو خالدوانی نے انکار کردیا جس پر خالد وانی کو شہید کر دیا گیا اور اس کے ساتھ اﷲ کے راستے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر گئے۔برہان وانی کی شہادت کے بعد آزادی کا شعلہ خوب جل گیا ہر بچے کی زبان پر آزادی کا نعرہ برہان کی شہادت کے بعد سے ہے۔ برہان کے جنازے میں کروڑوں کی تعداد میں کشمیری شریک ہوئے۔جس پر بھارتیوں کے دلوں میں آگ بھر گئی نہ صرف کشمیری نوجوان بلکہ بچے بھی شہادت کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ایسی ہی ایک مثال کم سن صحابی حضرت معاذ اور معوذ رضی اﷲ تعالی عنہا کے بعد کشمیر کے 14 سالہ بچے مدثر نے قائم کی۔مدثر نے ماں کی گود سے ہی جہاد سیکھا۔مدثر نے کہا مری میں میدان جہاد میں قدم رکھا۔فٹ بالاور کرکٹ کا شوق رکھنے والا یہ ننھا بچہ کھیلنے کی عمر میں جہاد کو اپنایا اپنا گھر بار والدین اور بستہ چھوڑ کر آزادی کو بہتر سمجھا۔ راجن پور کشمیرکا یہ کم عمر بچہ جس نے 18 گھنٹے تک دشمن کو ناکوں چنے چبوائے۔ اتنی بڑی کاروائی کرنے کے بعد بیسیوں بھارتیوں کو جہنم واصل کرنے کے بعد اﷲ کی جنت کا مہمان بن گیا۔بھارتیوں پر گولیوں کے شیل ایسے گرے ہوئے تھے جیسے خزاں میں پتے درخت سے جھڑ کر زمین پر گر ے ہوں۔اس بچے نے معاذ اور معوذ کی یاد کو ایک دفعہ پھر تازہ کر دیا اور راشد منہاس کی یاد کو تازہ کر دیا۔

پی ایچ ڈی ڈاکٹر منان وانی جو کشمیر کی مشہور یونیورسٹی علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علم جنہوں نے چند سال پہلے عالمی کانفرنس میں مقالے کے لیے انفارڈ حاصل کیا تھا۔وہ کافی خالص خیال سٹوڈنٹ تھے لیکن اچانک ایسے غائب ہوئے کسی کو علم نہ ہوا تو انہوں نے اپنے ایک پیغام کو عوام کے آگے شیئر کیا جس میں انہوں نے کہا میں نے پی ایچ ڈی کو چھوڑ کر جہاد کا راستہ چن لیا ہے۔ کیونکہ پی ایچ ڈی سے زیادہ میرے لئے قوم کی آزادی ہے منان وانی نے طویل مضامین لکھے۔جن کی اشاعت کشمیر کی مقامی نیوز ایجنسی کرنٹ نیوز ایجنسی میں ہوئی۔ان مضامین کے خلاف پولیس میں مقدمہ بھی درج ہوا۔ سروس کی ویب سائٹ سے منان وانی کا مضمون بھی ہٹایا گیا۔چند سال قبل بھوپال یونیورسٹی سے عالمی کانفرنس کے مقالے کا بہترین ایوارڈ حاصل کیا۔ڈاکٹر منان وانی کے علاوہ کئی ایسے پڑھے لکھے نوجوان ہیں جنہوں نے آزادی کی خاطر اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑا انہوں نے قلم کی نوک سے جہاد کے لیے جدوجہد شروع کی تھی۔بھارتی سمجھتے ہیں کہ ان پڑھ جاھل ہے ان کے پاس کھانے کو کچھ ہے ہی نہیں جس کی وجہ سے یہ شہادت کے نذرانے پیش کرتے ہیں مگر منان وانی جیسے پڑھے لکھے نوجوانوں نے بھارت کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کیا۔

برہان کے رشتہ دار میں شامل ایک مجاہد جس کی عمر گیارہ برس تھی۔گیارہ برس کی عمر میں اپنا بستہ چھوڑ کر میدان جہاد میں قدم رکھا۔کم عمری میں جان کا سودا کیا اور ثابت کردیا کہ ابھی ملت کے بچوں میں دینی حمیت باقی ہے۔ 2007 میں انڈین سیکیورٹی نے گرفتار کیا۔2010 میں کم عمری کے باعث اسے رہا کردیا گیا۔ رہائی کے بعد ہندو فوجیوں پر یلغاریں شروع کردیں 2012 میں بھارتیوں نے گرفتار کر لیا 2015 میں رہائی پانے کے بعد شہادت کی جستجو میں گن اٹھائی اور بھارتیوں میں آ کھڑا ہوا اس کے سر کی قیمت 10لاکھ لگائی گئی۔ 2016 میں ایک کارروائی کے دوران ایک ایس ایچ او اور پولیس اہلکاروں کو جہنم واصل کیا پھر اس کے سر کی قیمت 10 لاکھ کی بجائے بڑھا کر 12 لاکھ کردی گئی۔ جون 2017 میں ایک کارروائی میں ہندوستانی اہلکاروں کا زبردست نقصان کرنے میں کامیاب ہوا دشمن کو تباہ کرنے کے بعد اﷲ کا یہ شیر اﷲ کی جنتوں کا مہمان بن گیا یہ تذکرہ تھا بشیر احمد وانی شہید اپنی زندگی میں نے اس میں کئی ہندو فوجیوں کو جہنم واصل کیا اور بھارت کا زبردست نقصان بھی کیا۔

کشمیری اﷲ سے اور پاکستانیوں سے بے حد محبت رکھتے ہیں کہیونکہ پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ پر رکھی گئی۔ ایک مرتبہ ایک مسلمان نے کشمیر میں اذان شروع کی تو اس کو شہید کر دیا گیا پھر دوسرے نے اس کو مکمل کرنا چاہا تو اس کو بھی شہید کردیا گیا۔تیسرے نے آکر اذان کو مکمل کرنا چاہا تو اس کو بھی شہید کر دیا گیا پھر چوتھے نے اذان کو مکمل کرنا چاہا تو اس کو بھی شہید کر دیا گیا اسی طرح 20 نوجوان اذان کو مکمل کرتے کرتے اﷲ کی جنتوں کے مہمان بن گئے۔

ہمارے ہاں شادی بیاہ کی رسوم و رواج میں دلہن کی بہنیں دلہے کو دودھ پلا کر دودھ پلائی کی رسم کرتی ہیں تو ادھر کشمیری شہدا کی بہن اپنے بھائیوں کی میت کے پاس ایک بڑے میں ٹافییز اور چاکلیٹ لیے کھڑی ہوتی ہیں۔ اور دودھ بھی پلاتی ہیں تو وہ دودھ پیتے بھی ہیں ایسے ہی تو اﷲ نے قرآن مجید میں نہیں فرمایا: ’’شہید زندہ ہیں انہیں مردہ نہ کہو ہم ان کو رزق دیتے ہیں۔‘‘

کشمیر کے مسئلہ پر ہم پاکستانی آخر خاموش کیوں کرونا جیسی وباء نے ہمارا دھیان اپنی جانب کیا ہوا ہے۔کشمیر میں لاک ڈاؤن لگے پانچ سو سے زائد دن ہونے کو ہیں ذرا سوچئے ہم ایک مہینہ اپنے آپ کو لاک ڈاؤن کے باعث بند نا کر سکے کشمیری پانچ سو دن سے بند ہیں۔سلام ہے کشمیر کی ماؤں بہنوں بیٹیوں بھائی اوربیٹوں کواور اور انکی ہمت اور جذبوں کو۔کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں نذرانہ پیش کیے ہیں اور نے اپنی جانوں کے نزرانے پیش کرتیرہں گے انشائاﷲ۔

کشمیر کی آزادی تک۔۔۔۔۔۔

مودی گائے تو پجاری اپنوں کا نہ بن سکا دوسروں کا احساس کیسے کر سکتا ہے آپ نے کسانوں کے ساتھ زلزلہ کے بعد جن کی بدولت رستہ نہیں ملتا ہے وہ کہانی ہے جو اپنوں کا نہ بن سکا کیسے بنے گا دوسروں کا۔۔۔۔۔۔
آئیے ہم عہد کرتے ہیں اپنی پانچ وقت کی نمازوں کے بعد دعاؤں میں کشمیریوں کو یاد رکھیں کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کریں۔ مہینے میں ایک دن کشمیریوں کے نام کریں کشمیری مائیں آج بھی ہماری منتظر ہیں وہ پکار رہی ہیں محمد بن قاسم کو کیونکہ انہیں ہم پاکستانیوں سے امید کا محمد بن قاسم جیسے نوجوان ہماری مائیں ہی پیدا کریں گی انشائاﷲ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Summiya Abdul Rehman
About the Author: Summiya Abdul Rehman Read More Articles by Summiya Abdul Rehman: 5 Articles with 4690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.