روہنگیائی مسلمانوں کی آہوں کا اثر۔ میانمار میں فوجی بغاوت

میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس 3؍ فبروری کو طلب کیا گیا ہے ۔ میانمار میں پیر کی صبح فوج نے برسراقتدار جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی (این ایل ڈی)کی رہنما آنگ سان سوچی ، میانمار کے صدر مائنٹ اور دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا اور پولیس دستاویزات کے مطابق آنگ سان سوچی 15؍ فبروری تک حراست میں رہیں گی، انہیں انکی رہائش گاہ میں ہی حراست میں رکھا گیا ہے۔ پولیس نے سوچی کے خلاف متعدد مقدمات درج کئے ہیں ۔اسی طرح برطرف کئے گئے صدر کے خلاف بھی مقدمات دائر کردیئے گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق فوج کے زیر ملکیت ایک ٹی وی اسٹیشن پر جاری رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس نے انتخابی دھاندلی کے جوابمیں یہ نظر بندیاں انجام دی ہے۔ فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ اقتدار پر فائز ہوگئے ہیں۔ فوجی سربراہ کی قیادت میں گیارہ رکنی کابینہ نے ایک سال کیلئے ایمرجنسی نافذکردی ہے۔فوج نے گذشتہ سال نومبر میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا ہے جس میں آنگ سان سوچی کی جماعت این ایل ڈی کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ آنگ سان سوچی اور دیگر برسراقتدار جماعت کے قائدین کو حراست میں لینے پر عالمی سطح پر ردّعمل سامنے آرہا ہے۔ اقوام متحدہ کے میانمار سے متعلقہ امور کی خصوصی نمائندہ کرسٹین برگنر نے کہا کہ میانمار میں فوری طور پر جمہوریت بحال ہونی چاہیے اور انہوں نے کہا کہ ہم اس بغاوت کی مذمت کی ہے۔میانمار سے متعلق خصوصی مبصر ٹام اینڈریوز نے بھی عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ اسی زبان میں بات کریں جو میانمار کی فوج کو سمجھ میں آتی ہو اور ہمیں تجربے سے پتہ چلا ہے کہ انہیں معاشی پابندیوں کی زبان سمجھ میں آتی ہے۔ ان ہی کے مطابق اس وقت میانمار میں بڑے منظم طریقے سے ان افراد کی تلاش جاری ہے جو جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور جو انسانی حقوق بہتر کرنے میں لگے تھے ۔ بتایا جاتا ہیکہ فوج پورے ملک میں مواصلاتی نظام منقطع کررکھا ہے اور ایسے سیاسی رہنماؤں کو تلاش کررہی ہے جو فوج کی مخالفت کیلئے لوگوں کو سڑکوں پر لاسکتے ہیں۔ جبکہ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک بیان آنگ سان سوچی سے منسوب کیا گیا ہے جس میں انہو ں نے کہاکہ فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے کہا ہے۔سنہ 2012میں آنگ سان سوچی کو جو 1990ء سے سنہ 2010تک اپنے گھر میں نظر بندرہیں انہیں نظر بندی کے زمانے میں فوجی آمریت کے خلاف عزم و استقلال کی علامت سمجھا جاتا تھا۔جب انہیں نوبل انعام ملا تو ناروے کے شہر اوسلو میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ برما میں بہت سی لسانی قومیتوں اور عقائد کے ماننے والے ہیں اور اس کا مستقبل اصل اتحاد سے ہی مل سکتا ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ دنیا میں بے گھر ، نقل مکانی کرنے والے اور بے یارومددگار افراد نہ ہوں اور دنیا کے ہر کونے کے مکین مکمل آزادی اور امن کے ساتھ زندگی گزاریں۔یہی وہ الفاظ تھے جس کی وجہ سے آنگ سان سوچی کو عالمی سطح پر مزید شہرت حاصل ہوئی۔ لیکن اسی برس جب انہیں نوبل انعام ملا ، میانمار میں فرقہ واریت پر مبنی تشدد کا آغاز ہوگیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں روہنگیا مسلمان مہاجرین کی حیثیت سے کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ رخائن میں مسلمانوں کو بدوھ گروہوں نے نشانہ بنایا اور سینکڑوں مسلمان فسادات کی نذر ہوگئے۔ اس وقت آنگ سان سوچی حزب مخالف میں تھیں اور انہو ں نے عالمی برادری کو یقین دلایا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر انسانی حقوق اور جمہوری روایات پر کاربند رہیں گی۔لیکن جب ان کی جماعت اقتدار پر فائز ہوئی نہ صرف انہو ں نے خاموشی اختیار کی بلکہ سوچی نے بی بی سی کے نمائندہ مثال حسین سے بات چیت کے دوران اس الزام کو مسترد کردیا کہ مسلمانوں کی نسل کشی ہورہی ہے ۔ سنہ 2015ء میں سوچی کو ایک بار مرتبہ پھر عالمی برادری کی جانب سے اٹھنے والی آوازوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں میانمار میں ہونے والے تشدد اور بحران کی مذمت کی گئی تھی۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں اس مسئلے سے نمٹنا تھا لیکن قوم پرست بودھ برادری اور فوجی حکام کے آگے وہ اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کرگئیں۔نومبر 2016میں اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے میانمار میں ایک نئے فوجی آپریشن یعنی نسل کشی پر خاموشی اختیار کرنے پر کہا کہ سوچی کا تشدد کی مذمت نہ کرنا ظالمانہ عمل ہے۔2016 اور2017 رخائن میں کی جانے والی نسل کشی کو وہ تسلیم نہیں کی بلکہ انکا کہنا تھا کہ مسلمان ہی ان مسلمانوں کو مار رہے ہیں جن کے بارے میں ان کا یہ خیال ہیکہ وہ حکام کی معاونت کررہے ہیں۔یہاں تک کہ سوچی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی اور بعد میں کہا کہ اس بحران کے بارے میں غلط معلومات دی جارہی ہے۔ آنگ سان سوچی کی حکومت میں جو فوجی سربراہ کو ابتدائی سطح سے ترقی دی جارہی تھی وہ فوجی سربراہ آج انکی حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے نظر بند کردیا ہے ۔ بے شک ان مظلوم روہنگیا ئی مسلمانوں کے خلاف کئے جانے والے فوجی آپریشنس پر خاموشی کا نتیجہ ہے کہ انہیں بھی وہی فوجی سربراہ من آنگ ہلینگ جس کی قیادت میں روہنگیا کے لاکھوں مسلمانوں کو میانمار سے نکالا گیا اورانہیں بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں پناہ لینی پڑی ۔ انشاء اﷲ العزیزمظلوم مسلمانوں کی آہیں خالی نہ جائیں گی اور بہت جلد میانمار کا وہ فوجی سربراہ جو آج اقتدار پر بیٹھا ہے ذلیل و رسوا ہوکر اپنے انجام کو پہنچے گا۔

سعودی عرب سے ملک واپس ہونے والے غیر ملکیوں کیلئے پریشان کن خبر
کورونا وائرس وبا نے گذشتہ سال سے اب کروڑوں ڈالرس کی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے ۔ لاکھوں انسان روزگار سے محروم ہوچکے ہیں اور نہیں معلوم یہ سلسلہ ابھی کب تک جاری رہے گا۔ سعودی عرب نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے پھر ایک مرتبہ چہارشنبہ3؍ فبروری سے 20ممالک پر عارضی پابندی لگادی ہے۔ یہ پابندی ان 20ممالک سے آنے والے مسافروں پر عائد کی گئی ہے جن میں انڈیا، پاکستان، متحدہ عرب امارات، ترکی، امریکہ، انڈونیشیا، آئرلینڈ،اٹلی، ارجنٹائن، وفاقی جرمنی، برازیل، پرتگال، برطانیہ، جنوبی افریقہ، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، فرانس، لبنان، مصر اور جاپان شامل ہے۔متحدہ عرب امارات پر بھی پابندی عائد کرنے کے بعد ان غیر ملکیوں کو جو سعودی عرب واپس ہورہے تھے انہیں متحدہ عرب امارات میں کورنٹن ہونے کی سہولت فراہم کی گئی تھی اور یہ بھی ختم ہوچکی ہے ۔سعودی وزارت داخلہ نے کئی تبدیلیوں کے پیشِ نظر یہ فیصلہ کیا ہے کہ سعودی شہریوں، سفارت کاروں، صحت کارکنوں اور انکے اہل و عیال کے سوا کسی کو بھی3؍ فبروری کی رات 9بجے کے بعدسے مملکت میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔اس سے قبل سعودی عرب نے 13؍ جنوری کو کورونا وائرس وبا کی وجہ سے سعودی مقامی شہریوں کو بیرون ملک سفر کی اجازت روک دیا تھا۔سعودی وزارت داخلہ نے کورونا وائرس کے کیسز میں مسلسل اضافے کو دیکھتے ہوئے ایئرپورٹس، بندرگاہیں، بری سرحدی چوکیوں سے آمد و رفت کے حوالے سے مکمل سفری پابندیوں کے خاتمے کی تاریخ میں توسیع کرتے ہوئے 17؍ مئی 2021مقرر کی ہے اس سے قبل یہ پابندی 31؍ مارچ2021رکھی گئی تھی۔جن لوگوں کو بھی مملکت میں داخلہ کی اجازت دی ہے انہیں وزارتِ صحت کے مقرر کردہ حفاظتی ضوابط کے مطابق داخل ہوگا۔سعودی وزارت داخلہ نے یہ بھی واضح کردیا ہیکہ اگر کسی اور ملک کے شہری مملکت آنے سے 14دن کے اندر مذکورہ ممالک میں سے کسی ایک ملک میں گئے یا وہاں سے گزرت ہونگے تو انہیں بھی سعودی عرب آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس طرح سعودی شاہی حکومت نے کورونا وائرس سے اپنے شہریوں کو بچانے کیلئے حفاظتی اقدامات کئے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ چند ہفتوں یا دنوں کے درمیان جو لوگ سعودی عرب میں روزگار کے سلسلہ میں قیام کئے ہوئے تھے وہ تعطیلات کے سلسلہ میں اپنے ملک واپس ہوئے تھے اب اس کے تعلق سے سعودی حکومت کس قسم کا فیصلہ کرتی اس کا ابھی علم نہیں، اگر شاہی حکومت ان افراد کو 17؍ مئی کے بعد مملکت میں داخلہ کی اجازت دیتی ہے اور جہاں وہ خدمات انجام دے رہے تھے انکی خدمات کو بحال رکھنے کے احکامات دیتی ہے یا پھر مملکت میں ہی کسی اور ادارے میں خدمات کیلئے راہیں فراہم کرتی ہے تویہ ان ہزاروں افراد کیلئے بہتر ہوگا ورنہ ان ممالک سے تعطیلات گزارنے آئے ہوئے غیر ملکیوں کو روزگار سے محروم ہونا پڑے گا ۔

شام کے پناہ گزین بحران کا شکار
شام کے صدر بشارالاسد حکومت کے خلاف خانہ جنگی کا آغازہوکر دس سال کا عرصہ ہونے آگیا ہے ،ذرائع ابلاغ کے مطابق 15؍ مارچ2011ء سے شروع ہونے والی اس خانہ جنگی میں ہزاروں لوگ ہلاک و زخمی ہوگئے اور لاکھوں شامی خاندان اپنی جان بچانے کے لئے شام کے شہروں سے نکل کر کے پناہ کی تلاش میں دوسرے ممالک چلے گئے۔اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے گذشتہ دنوں انتباہ دیا کہ ایک لاکھ 20ہزار سے زائد افراد جو جنگ سے اپنی جانیں بچانے کیلئے شمالی شام جاچکے ہیں ، وہ پناہ گزین کیمپوں میں اپنی زندگی کی بقا ء کیلئے ہفتوں سے ان موسلادھار بارشوں اور تیزہواؤں کے جھکڑوں کا سامنا کررہے ہیں۔ ان حالات کو اقوام متحدہ کے کوآرڈینیشن آفس او سی ایچ نے بحرانی کی صورتحال سے تعبیر کیا انہو ں نے کہا کہ پناہ گزینوں کی خوراک کے ذخیرے اور گھریلو سازو سامان او رملکیت کی دوسری اشیاء سیلابی ریلوں میں بہہ گئی ہیں جبکہ پینے اور عام استعمال کے پانی کی فراہمی میں رکاوٹیں پیش آرہی ہیں اور درجہ حرارت بھی کافی نیچے تک پہنچ گیا ہے۔ ان حالات میں شامی پناہ گزینوں کیلئے عالمی سطح پر فوراً امدادی خدمات انجام دینی ہونگی ورنہ ایک لاکھ سے زائد شامی پناہ گزین کئی خطرناک بیماریوں میں گرفتار ہوسکتے ہیں۔

ایران کے خلاف اسرائیل کو تنہا فوجی کارروائی کرنے ہوگی
ایراناور اسرائیل کے درمیان واقعی جنگ ہوگی یا نہیں یہ تو کہا نہیں جاسکتا لیکن اسرائیل کے وزیر برائے آبادکاری تزاچی ہینیگبی نے کہا کہ امریکہ کبھی بھی ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہیں کرے گا اسرائیل کو ہی تن تنہا اس خطرے کو ختم کرنے کے لئے اپنے بل بوتے پر کارروائی کرنی پڑے گی۔اسرائیلی وزیر نے ایران کی طاقت کو للکارتے ہوئے کہا کہ ایران کی اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کی صلاحیت نہایت محدود ہے۔ اس سے قبل اسرائیل کے وزیر توانائی یووال اسٹینٹز نے اپنے بیان میں دعویٰ کیاتھا کہ ایران کے ایٹم بم بنانے میں بس ایک دو سال کا عرصہ رہ گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے نے بھی ایک انٹرویو کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ ایران سے 2015کے جوہری سمجھوتے کی پابندیاں ہٹائی جاتی رہیں تو وہ چند ہفتوں میں ہی جوہری اسلحے کیلئے ضروری یورینئیم حاصل کرلے گا۔

عرب وزراء کا ہنگامہ اجلاس
عرب وزرائے خارجہ کا ہنگامہ اجلاس مسئلہ فلسطین کے لئے آئندہ پیر کو مصر میں ہوگا ،اس ہنگامی اجلاس کی منظوری عرب لیگ نے اردن کی درخواست پر دی ہے۔ ذرائع ابلاع کے مطابق اردنی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق مسئلہ فلسطین کا حل اور 4؍ جون 1967کی سرحدوں میں خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام، اردن کی قومی پالیسی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دراصل مسئلہ فلسطین کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اس براہ راست اثر اردن پر پڑتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ مصر میں ہونے والے اس اجلاس میں کیا فیصلہ لیا جاتا ہے اور موجودہ نئے امریکی صدر جوبائیڈن عرب وزرائے خارجہ کی جانب سے منعقد کئے جانے والے ہنگامی اجلاس پر کس قسم کے ردّعمل کا اظہار کرتے ہیں اور اسرائیل بھی اس ہنگامی اجلاس کے سلسلہ میں کیا کہتا ہے۔
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.