پرکاش جاوڈیکر: جوتاریخی غلطی کی گئی ہے،اسے سدھارا جائے گا

انسان اگر کذب گوئی پر آئے تو کتنا جھوٹ بول سکتا ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماوں کی جانب ایک نگاہِ غلط کافی ہے۔ ویسے تو کسی بھی معاملہ میں بی جے پی کے اندر کوئی اور رہنما وزیر اعظم کا ہمسر نہیں ہے اس لیےمودی جی کی مانند ڈھٹائی سے جھوٹ بھی کوئی اور نہیں بول سکتا۔ مثلاً انہوں نے اعلان کردیا کہ چینی ہماری سرحد میں داخل ہی نہیں ہوئے ۔ ایسا کھلا جھوٹ بولنے کی توتو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا لیکن مودی ہے تو ممکن ہے۔ بی جے پی میں پردھان سیوک کے بعد دوسرے نمبرکی پوزیشن کے لیے رسہ کشی جاری رہتی ہے۔ عام طور پر امیت شاہ سب پر بازی لے جاتے ہیں لیکن کبھی کبھار پرکاش جاوڈیکر جیسے وزیر اطلاعات و نشریات بھی وزیر داخلہ کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر نےپچھلے دنوں بابری مسجد پر ایک نہایت متنازع بیان دے کرایسا ہی گھناونی حرکت کردی ۔ انہوں کہہ دیا کہ 6 دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسندوں کے ایک گروہ نے ایودھیا میں بابری مسجد پر حملہ کر کے اور اسے مسمار کرکے ایک ’’تاریخی غلطی‘‘ کو درست کیا۔

6 دسمبر 1992 کو تاریخی غلطی کی گئی یا غلطی کی اصلاح کی گئی اس کا فیصلہ تو اس عدالت نے بھی کردیا جس نے حکومت کے اشارے پر بابری مسجد کی زمین رام مندر بنانے کے لیے دے دی۔ آگے چل کر یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ ایوان بالہ کی نشست کے بدلے یہ سودے بازی ہوئی تھی اور اس فیصلے کو کرانے کی خاطر چیف جسٹس کی نفسانی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر انہیں بلیک میل بھی کیا گیا تھا ۔ گویا پہلے ہنٹر چلایا گیا اور پھر گاجر دکھا کر رام کرلیا گیا لیکن اس ہنٹر اور گاجر کے کھیل میں عدالت کے اندر انصاف کا رام نام ستیہ ہوگیا ۔ منہ میں رام بغل میں چھری رکھنے والے جج صاحبان نے جوکیا سو کیا مگر اب بی جے پی کے رہنما اسی چھری سے سماج میں نفرت پھیلاکر اس کی تکا بوٹی کررہے ہیں ۔ جاوڈیکر نے دعوی کیا کہ بابری مسجد مغل بادشاہ بابر کے عہدیداروں نے ایک ہندو مندر کو منہدم کرنے کے بعد تعمیر کروائی تھی۔ یہ بات نہ صرف حقیقت بلکہ اس فیصلے کے بھی خلاف ہے جس کا حوالہ وزیر موصوف دے رہے تھے لیکن اگر جھوٹ ہی بولنا ہے تو شرم و حیا کیسی ؟ جتنا مرضی ہو جھوٹ بولو۔
ہٹلر کت دست راست گوبلس کی مانند وزیر اطلاعات و نشریات اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ایک جھوٹ کو ہزار بار دوہرایا جائے تو وہ سچ لگنے لگتا ہے ۔ اس کام کے لیے گودی میڈیا کو پال پوس کر تیار کیا گیا ہے۔ وہ تردید تو دورجھوٹ پر سوال بھی نہی اٹھاتا۔ اپنے آقا کی آواز(ہز ماسٹرس وائس) کو سعادتمند پلے ّکی مانند ساری دنیا میں بھونک بھونک کر پہنچاتارہتاہے اور بار بار دوہراتا رہتاہے یہاں تک کہ وہ سچ لگنے لگتا ہے۔ جہاں تک عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا سوال ہے اس میں یہ بات تو تسلیم کی گئی ہے کہ محکمہ آثارِ قدیمہ کو کھدائی کے دوران مسجد نیچے سے کسی قدیم مندر کے آثار ملے لیکن وہ رام مندر تھا اس کی توثیق نہیں ہوئی ۔ زیر زمین آثار کی عمر کا کاربن ڈیٹنگ سے پتہ لگایا گیا تووہ بابری مسجد کی تعمیر سے بہت پہلے کی عمارت تھی۔ نوادرات کا معائنہ کرنے والے ماہرین کے مطابق وہ بودھ وہار کے نقوش ہیں ۔ اس لیے یا تو اسے زمانۂ قدیم ہندو انتہا پسندوں نے اسی طرح منہدم کردیا ہوگا جس طرح کہ عصرِ جدید میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا کیونکہ ان لوگوں کی یہی پرمپرا ہے یا وہ ازخود کھنڈر بن کر زمین میں دھنس گئی ہوگی ۔

اس طرح عدالت عظمیٰ نے یہ تسلیم کیا کہ کسی مندر کو توڑ کر بابری مسجد کی تعمیر نہیں کی گئی ۔ اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ دین اسلام کسی کی عبادتگاہ کو پامال کرکے اس پر اپنی مسجد تعمیرکرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ ویسے بابر کے سپہ سالار میر باقی کو اس کی ضرورت بھی نہیں تھی؟ اس کو اس طرح کا تنازع کھڑا کرکے انتخاب تو جیتنانہیں تھا۔ آس پاس کی خالی زمین پر بابری مسجد کی تعمیر سے کوئی روکنے والا بھی نہیں تھا ۔ بابر کس قدر صلح کن بادشاہ تھا اس کے حوالے ان کی سوانح بابر نامہ میں موجود ہیں ۔ ایسے میں مرکزی وزیر کے اس دعویٰ سے نامعقول کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی کہ ’’جب بابر ہندوستان آیا تو اس نے ایودھیا میں رام مندر کو منہدم کرنے کا انتخاب کیا کیوں کہ وہ سمجھ گیا تھا کہ ملک کی زندہ طاقت وہاں آرام کر رہی ہے‘‘۔

بابر تو دور رام چرت مانس کے مصنف اور عظیم رام بھکت تلسی داس نے اسی زمانے میں یہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف میں بھی رام مندر کے انہدام کا ذکر نہیں کیا ۔ انگریزوں کے زمانے میں بابری مسجد کےبرآمدے میں واقع ہنومان گڑھی اور سیتا کی رسوئی پر تنازع کھڑا کیا گیا تھا جسے انگریزوں نے خاردار تار لگا کر مسجد سے الگ کردیا ۔ سنگھ پریوار نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایک جھوٹ کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنے کی خاطر رام مندر کی بدنامِ زمانہ تحریک چلائی اور اپنے گھناونے مقصد میں کامیاب ہوگیا ۔ سنگھ کے لیے کسی مثبت بنیاد پر ہندووں کو متحد نہیں کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے اس نے مسلمانوں کی دشمنی پر ایک مصنوعی اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی جس میں اسے عارضی کامیابی مل گئی۔

مرکزی وزیر جاوڈیکر نے یہ احمقانہ دعوی بھی کردیا کہ مبینہ طور پر مندر کو تباہ کرنے کے بعد تعمیر شدہ متنازعہ ڈھانچہ ’’مسجد نہیں تھا کیوں کہ وہاں عبادت نہیں ہوئی تھی۔‘‘ اس مختصر سے جملے میں انہوں نے تین جھوٹ جمع کردیئے پہلی بات تو وہ متنازعہ ڈھانچہ نہیں تھا بلکہ مسجد کی شہادت کے بعد وہاں ہونے والی ہر سرگرمی متنازعہ ہے۔ دوسرا جھوٹ یہ ہے کہ وہ مسجد نہیں تھی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ مسجد نہیں تھی تو کیا تھی؟ جاوڈیکر کے پاس اس کے مسجد نہیں ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہاں عبادت نہیں ہوتی ہے۔ یہ بات کسی مندر کے بارے میں تو کہی جاسکتی ہے کہ اگر مندر میں موجود مورتی کو بھوگ نہ چڑھایا جائے تو وہ زندہ نہیں رہتی حالانکہ وہ معاملہ مورتی کا نہیں اس کے پجاری کا ہوتا ہے ۔ اسی بنیاد پر بابری مسجد کا تالہ کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی لیکن مسجد پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ مسجد میں کوئی بھوگ نہیں چڑھایا جاتا بلکہ ایک خدا کی پرستش ہوتی ہے ۔اس لیے عبادت کا سلسلہ منقطع ہوجانے پر بھی اس کی وہی حیثیت برقرار رہتی ہے۔

ہندوستان کے کئی مندر ایسے ہیں جو سال بھر میں کسی خاص دورانیہ میں عوام کے لیے کھولے جاتے ہیں اور پھر ان کو بند کردیا جاتا ہے۔ مسجد کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ سال بھر عوام کے لیے کھلی رہتی ہے اور اس کے اندر دن میں پانچ بار نماز ادا کی جاتی ہے۔ عدالت نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ رام مندر کے اندر سے رام للا کی مورتیوں کے نمودار(پرکٹ) ہونے کا دعویٰ غلط ہے ۔ وہاں رات کی تاریکی میں چوری سے مورتیاں رکھ دی گئی تھیں ۔ جس شب یہ گھناونی حرکت کی گئی اس کی صبح بھی وہاں نمازِ فجر ادا کی گئی ۔ نماز کو آنے والے لوگوں نے ہی ان مورتیوں کو دیکھا ۔ وہاں پر موجود ہندو چوکیدار نے مورتی رکھے جانے کی شکایت درج کرائی ۔ اس لیے یہ کہنا کہ وہاں عبادت نہیں ہوتی تھی سراسرافتراء پردازی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ لکھا ہے کہ وہاں پر مورتیاں رکھ کر مسلمانوں کو عبادت کرنے سے روکنا غیر آئینی اور شہریوں کی حق تلفی تھا ۔ اس طرح گویا عدالت نے اس ناانصافی کو تسلیم تو کیا لیکن کسی کو اس کا سزاوار نہیں ٹھہرایا اس لیے اس کی خاطر ضروری جرأت کا فقدان تھا ۔

بی جے پی رہنما کا یہ بیان گمراہ کن ہے کہ رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دنیا بھر کے انصاف پسندوں نے اس نہایت غیر منطقی فیصلہ کی کھل کر تنقید کی۔ اس لیے کہ وہ عقیدے کی بنیاد پر کیا گیا تھا جبکہ عدالت اس سے پہلے کئی بار کہہ چکی تھی کہ قطعۂ اراضی کی ملکیت کا مقدمہ ہے۔ سابق جج دیپک مشرا نے بھی جاتے جاتے یہی کہا تھا کہ اس مقدمہ کا آستھا یا عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن جسٹس رنجن گگوئی نے اپنے پیش رو سے انحراف کرکے تمام شواہد کے خلاف فیصلہ سنا کر، ایوان بالہ کی رکنیت کے عوض ہندو فرقہ پرستوں کو خوش کردیا ۔ پرکاش جاوڈیکر کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا میں ان جیسے اندھے بھکتوں کے علاوہ بہت سارے انصاف پسند لوگ رہتے اور بستے ہیں اور وہ سب اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں ۔ ملک کا سپریم کورٹ بھی ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دے چکا ہے۔

حکومے ہند نے بابری مسجد کی شہادت کا راز فاش کرنے کی خاطر جسٹس منموہن سنگھ لبراہن کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا ۔ انہوں نے روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ سے گفتگو میں اعتراف کیاتھا کہ ’’ یہ ایک سازش تھی اور اس پرمجھے یقین ہے۔ میرے سامنے پیش کئے جانے والے شواہد سے یہ واضح تھا کہ بابری مسجد انہدام کا منصوبہ باریکی سے بنایا گیا تھا۔ اوما بھارتی نے صاف طور پر اس کی ذمہ داری لی تھی۔ کسی ان دیکھی طاقت نے مسجد کو منہدم نہیں کیا۔ یہ انسانی حرکت تھی‘‘۔ لبراہن کمیشن کی رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ کارسیوکوں کا ہجوم اچانک یا رضاکارانہ نہیں بلکہ منصوبہ بند تھا۔ جسٹس لبراہن کو اپنے دریافت کردہ نتائج کے درست ، ایماندارانہ اور خوف یا تعصب سے پاک ہونے کا یقین ہے۔ ان کے مطابق یہ رپورٹ آنے والی نسل کو ایمانداری کے ساتھ آگاہ کرے گی کہ کیا اور کیسے ہوا؟ یہ تاریخ کا حصہ ہوگی۔جسٹس لبراہن کی اس رپورٹ کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کیونکہ اس دن تاریخی غلطی کو سدھارا نہیں گیا بلکہ عظیم تاریخی غلطی کی گئی جسے آگے چل کر سدھارا جائے گا کیونکہ بقول علامہ اقبال ؎
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226554 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.