| 
		 پاکستان کے لیے زندگی اورموت کا مسئلہ ہے جب کہ در حقیقت 
		کشمیر پاکستان ہی کا حصہ ہے اس مسئلہ پر پاکستان اور انڈیا کے مابین تین 
		بڑی جنگیں بھی لڑی جا چکی ہیں لیکن برطانوی سامراج کی پیداوار یہ مسئلہ 
		ابھی تک جوں کا توں پڑا ہوا ہے اس کا کل رقبہ84 ہزار مربع میل ہے اور آبادی 
		ایک کروڑ سے زائد ہے یہ ریاست جموں و کشمیر برصغیر کے شمال میں کوہ ہمالیہ 
		کے دامن میں واقع ہے ریاست کشمیر کے 90 فیصد آبادی مسلمان ہے کشمیر دینی 
		ثقافتی اور خونی رشتہ کے حساب اور اعتبار سے پاکستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا 
		درجہ رکھتا ہے.بھارت کی مکاری مسلسل ہٹ دھرمی اور عالمی برادری کی لاپرواہی 
		اور عدم دلچسپی کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے تمام جمہوری اور پر 
		امن راستے بند ہوتے جا رہے ہیں بھارت نے تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے ظلم و 
		بربریت اور دہشت گردی کا جوبازار گرم کر رکھا ہے جس سے کشمیریوں کا بڑا 
		نقصان ہوا ہے لیکن اس کے باوجود آزادی کی جدوجہد جاری ہے نہایت مشکل اور 
		نامساعد حالات میں بھی وہ جنت کشمیر کے اندر ہندوبنیا آزادی کو ختم کرنے 
		میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔پاکستان بھی 74سال سے یہی کوشش کرتا رہا ہے کہ 
		مسئلہ کشمیر جو پارٹیشن 1947 میں ہوئی اس کے مطابق حل ہو سکے انڈیا میز پر 
		آکر مذاکرات کرے کشمیر کے پرامن اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرنے 
		کے لئے اور بار بار دنیا کی توجہ دلانے کے لیے ابھی تک کوئی خاطر خواہ 
		کامیابی نہیں ہوئی ان حالات میں بھی کشمیری عوام جوپاکستان سے خواہش رکھتے 
		ہیں انہیں پورا کرنے کے لئے کشمیری پالیسی پر سنجیدگی سے غور کیا جائے 
		مظلوم اور محکوم کشمیری عوام حسرت بھری نگاہ سے پاکستان کی طرف دیکھ رہے 
		ہیں بھارت کی نو لاکھ فوج کے خلاف اپنے حق کے لیے اپنی آزادی کےلیے معصوم 
		کشمیری عوام ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف انڈین فوج نے اس جنت نما آبادی کو 
		شمشان گھاٹ بنا دیا ہے عورتوں سے ریپ اور مرد حضرات کو شہید کرنا بچوں کو 
		غائب کرنا یہ نو لاکھ بھارتی فوج جو کہ ہر پل ہر وقت درندگی کا مظاہرہ کر 
		رہی ہے 
		 
		پھر انڈیا کے وزیرِ داخلہ امت شاہ کی جانب سے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر 
		کو خصوصی حیثیت دینے والی آئین کی شق 370 کے خاتمے کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے 
		کہ گذشتہ چند دنوں سے حکومت کی جانب سے پیدا کیے گئے غیر معمولی حالات کسی 
		ممکنہ ردِ عمل سے نمٹنے کے لیے کیے جا رہے تھے۔ 
		 
		اس سے قبل، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک مسلسل یہ کہتے 
		رہے کہ کشمیر میں 'سب کچھ نارمل ہے۔' 
		 
		انڈیا بھر میں سیاسی پارٹیوں نے کشمیر کے حوالے سے سکیورٹی ایڈوائزری جاری 
		کرنے پر حکومت سے وضاحت طلب کی تھی لیکن بی جے پی حکومت کے چند نمایاں 
		افراد کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ کشمیری رہنماؤں عمر عبداللہ، 
		محبوبہ مفتی اور سجاد لون کی نظر بندیاں کیوں عمل میں آئیں، کشمیر میں دفعہ 
		144 کیوں نافذ کی گئی، اور یہاں تک کہ جموں میں کرفیو کا نفاذ کیا غیر 
		معمولی عمل نہیں؟ آئین 370 کو ختم کرنا بھارت کے اس ناپاک اور جرائم پسند 
		ظلم کو روکا جائے عالمی برادری سختی سے نوٹس لے اور بھارت جیسے دہشت گرد 
		ملک کو مذاکرات کے لئے آمادہ کیا جائے حقیقت میں تو یہ یاد رکھنا چاہئے 
		تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے آج کے ظالم کل کے مظلوم نہ بن جائیں کشمیر 
		میں خواتین اور بچوں کو پلیٹ گن چھروں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کے 
		نتیجے میں معصوم بچے خواتین اور بزرگ اپنی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں اور 
		پلیٹ گن سےچھرے لگنے سے جسم بھی چھنی ہو گئے اور تو اور کشمیری عوام کی 
		زندگی دنیا ہی میں دوزخ بنادی گئ اور آمن کا راگ الاپنے والی اقوام محتدہ 
		جو صرف تما شہ دیکھ رہی ہے کشمیر میں ہندو بنیا اجتماعی زیادتی کر رہا ہے 
		اور امن پسند کشمیریوں کو اغوا کر کے شہید کیا جارہا ہے وادی لہو لہان ہے 
		آزادی مانگنے والے اس پاداش میں لاکھوں کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا 
		چکا ہے انسانیت کی توہین کی جا رہی ہے حق اور انصاف مانگنے والوں کو ابدی 
		موت دی جا رہی معصوم بچیاں اغوا کر کے ان سے بھی اجتماعی زیادتی کر کے ان 
		کو موت کے گھاٹ اتارا جارہا 
		چلتے ہیں تاریخ کی طرف تیسری صدی (ق م) میں وادی کشمیر کو اشوکا (Ashoka) 
		کی سلطنت میں شامل کیا گیا اور کنشک کے عہد میں بدھ مت کے مرکز کی حیثیت سے 
		اسی سے بڑی شہرت ملی 1857 میں اسے مغلیہ سلطنت میں شامل کیا گیا اکبر اعظم 
		نے کئ بار وادی کا دورہ بھی کیا اور یہاں بہت سی تاریخی عمارتیں بھی تعمیر 
		کروائیں 
		 
		1846 میں ریاست کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ صرف 75 لاکھ روپے کے عوض دھوکے 
		سے راجا گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا 
		 
		راجہ کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ہری سنگھ جانشین بنا اور یہاں آباد 
		مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کا آغاز ہوا پھر مسلمانوں نے اپنے حقوق کے لئے 
		مسلم کانفرنس کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی سن-34 1933ء میں 
		(Legislative)اسمبلی کے انتخابات میں مسلم کانفرنس نے الیکشن میں 21 میں سے 
		16 نشتیں جیت لی لیکن 1939ء میں اس کے ارکان میں پھوٹ پڑگئی پھر شیخ 
		عبداللہ کی سربراہی میں نیشنل کانگریس کے نام سے نئی جماعت ابھری جون 1947 
		میں تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور کانگریسی 
		رہنما کو سبز باغ دکھائے لارڈ ماونٹ بیٹن جو کبھی ہندستان آیا ہی نہیں اس 
		بد بخت نے سرحدوں کا تعین غلط کیا جسکی وجہ سے آج تک لاکھوں مسلمان موت کے 
		گھاٹ اتار دیئے گئے راجہ نے پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں کے ساتھ معاہدہ 
		کر نے کی پیشکش کی تو پاکستان نے راجہ سے دو سال کے لیے معاہدہ کر لیا لیکن 
		بھارتی وزیراعظم نہرو نے معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا راجہ کو اس قسم کے 
		معاہدے کرنے کا کوئی اختیار نہیں چنانچہ ہری سنگھ نے ریاست کا الحاق انڈیا 
		سے کرنے کی درخوست دے دی جسے منظور کرلیا گیا کشمیری عوام نے راجہ کے اس 
		غلط اقدام کی سخت مخالفت کرتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کیااور 1947ء میں 
		مسلمانوں کی ڈوگرہ راجہ کے خلاف بغاوت عروج پر پہنچ گئی تو بھارت مکار نے 
		نام نہاد قبائلی حملہ کا بہانہ بنا کر دو اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ 
		الحاق کا اعلان قبول کرا لیا اور اس کے فورا بعد بھارتی فوج کشمیر میں داخل 
		ہوگئی اور کشمیری عوام کی عورتوں کی عصمت کو لوٹا گیا ظلم و ستم کی آخری حد 
		بھی پھلانگ لی اس دوران کشمیریوں حریت پسندوں نے 24 اکتوبر کو وسیع رقبہ پر 
		آزاد کشمیر حکومت کے قیام کا اعلان کیا اور سردار ابراھیم پہلے صدر بنے 
		یکم جنوری 1948 کو مکار ہندو بنیے نے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پیش کیا 
		تو پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کے طور پر 16 جنوری 1948 کو اپنی شکایت 
		سلامتی کونسل میں پیش کر دیں اس طرح اس مسئلے کو بین الاقوامی تنازعہ کی 
		حیثیت حاصل ہوئی بعدازاں سلامتی کونسل کے اجلاس عام میں 5 جنوری 1948 کو 
		اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوپاک کی منظوری دی گئی تھی کئ ماہ کی مسلسل 
		کوششوں کے بعد اقوام متحدہ کا کمیشن برائے پاک و ہندو اس نتیجے پر پہنچا کہ 
		بھارت کشمیر سے اپنی فوجیں کی کثیر تعداد کو نہیں نکالنا چاہتا اور صاف 
		انکار کرنے کی بجائے وہ مسئلہ کو مزید الجھا رہا ہے 
		امریکہ چین نے بھی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کوششیں کی لیکن بھارت نے صرف 
		کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا بلکہ اس مسئلے 
		پر پاکستان سے جنگیں بھی کی پاکستان کی سیاسی قیادت نے مسئلہ کشمیر پر 
		سیاست کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا یہاں کی سیاسی قیادت اگر مسئلہ کشمیر 
		سےمخلص ہوتی تو شروع میں ہی یہ مسئلہ حل ہو جاتا یہاں جو بھی حکمران آیا اس 
		نے امریکہ اور یورپ سے ذاتی مفاد ہی حاصل کیے اور صرف اور صرف اپنا ذاتی 
		مفاد اور لوٹ مار ہی کی اور کرسی چھوڑنے کے بعد یہی راگ الاپا کے ہمارے دور 
		میں مسئلہ کشمیر حل ہونے کے قریب تھا لیکن ہمیں موقع نہیں ملا رہے 
		 
		اب تک لاکھوں کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں ان کا گناہ صرف یہ کہ وہ 
		انڈیا سے آزادی مانگ رہے ہیں قیامت والے دن ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کو 
		اس کا حساب دینا ہوگا آخر کب تک یہ ظلم معصوم کشمیریوں کو سہنا ہوگا 
		 
		کشمیر ظلم کی آگ میں جل رہا ہے۔ 
		انڈیا مکار دیکھو کیسی چل رہا ہے۔ 
		گھر گھر سے جنازے نکل رہے ہیں۔ 
		نوجوانوں کے خون ابل رہے ہیں۔ 
		عزتیں لٹ رہی ہیں بچے مر رہے ہیں۔ 
		دعویدار آمن کے کیا کر رہے ہیں  
		 
		 
   |