اپنے اس تازہ ترین کالم کے آغاز میں ہی ایک بات واضح
کردوں کہ میرا شمار عمران خان کے مخالفین میں نہیں بلکہ حامیوں میں ہوتا ہے
لیکن کسی بھی شخص یا سیاسی لیڈر کا حامی ہونے یا اس کو پسند کرنے کا یہ
مطلب ہر گزنہیں ہوتا کہ آپ جس لیڈر کو پسند کرتے ہیں اس کی خامیوں کی بھی
بے تکی تعریف وتوصیف یا دفاع کرنے لگیں ۔کوئی بھی سیاسی لیڈر خواہ وہ کتنا
ہی اچھا اور قابل انسان ہو لیکن وہ فرشتہ نہیں ہوتا اور چونکہ انسان غلطی
کا پتلا ہے اس لیئے کسی بھی شخصیت کی محبت یا حمایت میں اتنا آگے نہیں
بڑھناچاہیئے کہ آپ کا شمار اس لیڈر کے حامیوں کے بجائے چمچوں میں کیا جانے
لگے لہذا میرے اس کالم کو کسی عمران خان مخالف کالم نویس کی تحریر نہ سمجھا
جائے کیونکہ کسی بھی سیاسی لیڈر یا حکمران کے سچے حامی جہاں اپنے پسندیدہ
لیڈر کی کامیابیوں کے گن گاتے ہوئے نہیں تھکتے وہاں وہ اپنے لیڈر کے سچے
ہمدرد بن کر اسے اس کی خامیوں سے بھی آگاہ کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پربھی
اپنے لیڈر کی غلط باتوں کا دفاع نہیں کرتے لیکن جو چمچے ہوتے ہیں انہیں
اپنے لیڈر کی کوئی خامی نظرنہیں آتی یا پھر شاید انہیں اس بات کی پیمنٹ
ملتی ہے کہ فلاں لیڈر یا حکمران کی مبالغہ آمیز تعریفوں کے ساتھ اس کی
خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ جیسے بھی ممکن ہو اس کا دفاع کرکے عوام
الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں کہ ان کو تنخواہ ہی اس بات کی دی
جاتی ہے۔میرا خیال ہے کہ قارئین اب حامی اور چمچے کے درمیان جو فرق ہے اسے
اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے اور اسی تناظر میں میرا شمار عمران خان کے حامیوں
میں ضرور ہوتا ہے لیکن میں ان کا چمچہ ہر گز نہیں ہوں اور نہ ہی میں کبھی
یہ چاہوں گا کہ کسی بھی سیاسی لیڈر کی چمچہ گیری کرکے اپنا کوئی ذاتی فائدہ
حاصل کروں۔
نوازشریف اورآصف علی زرداری کی کرپشن سے پوری قوم کو چیخ چیخ کر آگاہ کرنے
والا لیڈرعمران خان،اپوزیشن میں رہ کرنوازشریف کے دورحکومت کے خلاف کامیاب
سیاست کرنے والا سب سے بڑا اور سب سے کامیاب سیاستدان عمران خان جس نے نواز
حکومت کے دورمیں ہونے والی بے پناہ کرپشن کی وجہ سے بڑھنے والی مہنگائی
پرعوامی جذبات کا ساتھ دیتے ہوئے اتنے بھرپور انداز میں اپنی سیاسی مہم
چلائی کہ ہماری عوام کی اکثریت عمران خان کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگی
اور انہیں لگا کہ عمران خان کی صورت میں اﷲ تعالیٰ نے انہیں ایک ایسا
قابل،دلیر،باصلاحیت،ایمانداراورمتحرک لیڈر عطا کردیا ہے جو اقتدار میں آتے
ہی ان کے سارے مسائل حل کردے گا اور ایک عام آدمی کو سہولتیں فراہم
کرکے،اسے مہنگائی سے نجات دلا کراور پاکستان کو اربوں روپے کی کرپشن کرنے
والے سیاسی لیڈروں اوربرسر اقتدار رہنے والے حکمرانوں سے پاک کرکے پاکستان
کو واقعی قائداعظم محمدعلی جناح یا کم سے کم ذوالفقارعلی بھٹو کے دور کا
پاکستان واپس لوٹا دے گا لیکن عمران خان نے تو پرانے پاکستان کو درست کرنے
کی بجائے قوم کو نیا پاکستان کا خواب دکھایا جہاں سب کچھ عوام کی خاطر،عوام
کے لیے اور عوام کی رائے سے ہوگا اورعمران خان کے اقتدار میں آتے ہی اتنا
اچھا دورحکومت آئے گا کہ لوگ پرانے پاکستان کو بھول کر نئے پاکستان میں
ملنے والی خوشیوں اور سہولتوں میں گم ہوجائیں گے.
عمران خان کے دکھائے ہوئے اس سبز باغ کی سرسبز تعبیر کی آس لیے پاکستانی
عوام نے جوق در جوق عمران خان سے جڑنا شروع کردیا کہ اس کے
انداز،آوازاوراپنے وعدے پورے کرنے والے ایک بہترین سماجی رہنما کے طور پر
عمران خان کے سابقہ ٹریک ریکارڈ میں اتنا دم ضرور تھا کہ عوام عمران خان کو
ایک بار پاکستان کا وزیراعظم بنانے پر تیار ہوگئی.
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے
قوم سے جو وعدہ کیا پورا کرکے دکھایا.شوکت خانم کینسر اسپتال کی تعمیر ہو
یا نمل یونیورسٹی کا قیام،عمران خان نے ثابت کیا کہ وہ اپنے خوابوں کو
حقیقت کا رنگ دینا جانتا ہے پھر ایک کرکٹر کے طور پر بھی اس نے ماضی میں
ایک خواب دیکھا تھا کہ وہ کرکٹ ٹیم کا کپتان بننے کے بعد پاکستان کے لئے
دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا اعزاز '' کرکٹ ورلڈ کپ'' جیت کر لائے گا اور اس
نے اپنی انتھک محنت اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے اپنا یہ خواب بھی پورا
کرکے دکھایا اور پاکستان نے پہلی اور آخری بار کرکٹ کا ورلڈ کپ عمران خان
کی قیادت میں ہی جیتا اور یہ ورلڈ کپ کی جیت ہی عمران خان کی زندگی کا
ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی جس کے بعد اس نے اپنے انتہائی عروج کے زمانے میں
کرکٹ کو خیر باد کہہ کر سماجی اورسیاسی میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے کرکٹ کے بعد سماجی میدان میں بھی شوکت
خانم کینسر ہسپتال اور تعلیمی میدان میں نمل یونیورسٹی بنا کر اپنی
قابلیت،اہلیت اورایمانداری کے جھنڈے گاڑ دیے.
عمران خان کی زندگی کے مذکورہ بالا تمام پلس پوائنٹس کا ذکر اس لیے کیا گیا
تاکہ قوم کو پتہ چل سکے کہ کرکٹ، سماجی خدمت اور تعلیم کے میدان میں اپنے
وعدے اور دعوے پورے کرنے والا عمران خان جب سیاست کے میدان میں کرپشن کے
خلاف علم جہاد بلند کرتے ہوئے پاکستان کا وزیراعظم بننے کے لیے قوم کے
سامنے ایک اور چوائس کے طور پر نظر آیا تو عوام نے اس کی آواز پر لبیک کیوں
کہا؟
عام آدمی جو زرداری اور نواز حکومت کی کرپشن،جھوٹ اور بے پناہ مہنگائی سے
تنگ آیا ہوا تھا اسے عمران خان کی صورت میں ایک فرشتہ اور نجات دہندہ
دکھائی دینے لگا اور یوں قوم نے عمران خان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرتے
ہوئے 2018کے انتخابات میں اسے دل کھول کر ووٹ دیا تاکہ وہ پاکستان کا
وزیراعظم بن کر ان کے دکھوں کا مداوا کرسکے. وعدے اور دعوے پورے کرنے کے
حوالے سے چونکہ عمران خان کا سابقہ ٹریک ریکارڈانتہائی قابل رشک اور قابل
بھروسہ تھا اس لیے عوام نے اپنے ووٹوں کی طاقت سے عمران خان کو ایوان
اقتدار میں پہنچادیا.
بے شمار انسانی خوبیوں سے مالا مال عمران خان جس سے قوم نے بہت زیادہ
امیدیں باندھ لی تھیں کہ عمران خان وزیراعظم بن گیا تو واقعی پاکستان ایک
نیا پاکستان بن جائے گا او روہ سب خامیاں ہمارے نظام حکومت سے ختم کر دی
جائیں گی جن کی وجہ سے عوام کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اقتدار میں
آنے سے پہلے عمران خان نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران ریکارڈ ساز عوامی
دھرنے کے دوران کنٹینر پر چڑھ کر جس طرح مہنگی بجلی کے خلاف باتیں کرتے
ہوئے بجلی کابل جلایا اور کہاں کہ جب حکمران چور ہوتا ہے تو مہنگائی بڑھتی
ہے اور نواز شریف نے کرپشن کے سارے ریکارڈ توڑدیے ہیں اور اگر میں اقتدار
میں آگیا تو کرپشن ختم ہوجائے گی اور یوں عوام کومہنگی اشیائے ضرورت اور
یوٹیلیٹی بلز کے بڑھتے ہوئے یونٹ ریٹس سے نجات مل جائے گی،بجلی ،گیس،
پیٹرول ، سی این جی اور کھانے پینے کی تمام اشیاء ارزاں نرخوں پر ملیں گی
اور یوں پوری قوم ایک مثالی فلاحی معاشرے میں امن و سکون اور سہولتوں کی
فراوانی کے ساتھ اپنی زندگی گزارے گی۔
لیکن افسوس کہ عمران خان اقتدار میں آنے اور وزیراعظم پاکستان بننے کے بعد
سے لے کر اب تک عوام سے کیے گئے وعدوں میں سے صرف ایک ہی وعدہ اور دعویٰ
پورا کرسکے اور وہ تھا نواز اور زرداری جیسے کرپٹ سیاستدانوں کو رلانے کا
وعدہ جس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے کیونکہ انہوں نے شروع سے ہی اپنی ساری
توجہ ،صلاحیت اور کوشش اس ایک پوانٹ ایجنڈہ پر مرکوز رکھی کہ کسی طرح نواز
شریف اور آصف زرداری اور ان دونوں کے کرپٹ سیاسی چیلوں کو کرپشن کے الزامات
میں جیل ڈال کر ان سے لوٹا ہوا پیسہ وصول کیا جائے اور یہاں بھی عمران خان
کو آدھی کامیابی ملی کیونکہ وہ نواز اور زرداری کو جیل میں ڈالنے اور ان کو
ڈرانے دھمکانے میں تو سو فیصد کامیاب رہے لیکن ان دونوں کرپٹ حکمرانوں سے
تا حال ایک روپیہ بھی وصول نہ کرپائے ۔البتہ یہاں عمران خان کے وزیراعظم
بننے کے بعد ان کی جانب سے کیے گئے چند مثبت اقدامات کی تعریف ضرور کرنی
چاہیے کہ انہوں نے بالکل ہی غریب اورلاچار طبقے کے لیے مفت پناہ گاہوں اور
لنگر خانوں کا نظام پاکستان میں پہلی بار حکومتی سطح پر متعارف کروایا جس
سے ایسے نادار اور مفلس لوگوں کو بہت سہولت حاصل ہوئیجو سڑکوں پر سوتے اور
بھیک مانگ کر کھانا کھایا کرتے تھے لیکن خان صاحب نے ان کے لیے سونے کے لیے
جگہ اور مفت کھانا کھانے کے لیے لنگر خانے کھول کر بے سہارا اور بے آسرا
لوگوں کی دعائیں لیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مقبول سیاسی لیڈر جو 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے
بعد برسر اقتدار آیا ہو اور جس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران سوچے سمجھے
بغیر بلند وبانگ دعوے اور وعدے کیے ہوں اور جس کا سابقہ ٹریک ریکارڈ بھی
اسے ایک وعدے اور دعوے پورے کرنے والے ایماندار انسان کے طور پر پیش کرتا
ہو وہ ارادے کا پکا انسان پاکستان کے وزیراعظم کی کرسی پربیٹھے ہی اتنا
کمزور کیوں ہوگیا کہ آج ڈھائی سال بعد بھی عمران خان اور ان کے ساتھی اپنے
دوراقتدار کی تمام خامیوں ،کمزوریوں ،ناکامیوں ، نااہلیوں اور ناتجربہ
کاریوں کا ذمہ دار نوازشریک یا زرادی کو قرار دے رہے ہیں اور حکومت وقت کی
جانب سے آج ڈھائی سالہ دور اقتدار مکمل ہونے کے بعد بھی صرف وعدے اور دعوے
ہی کیے جارہے ہیں ۔ یہ ہوگا، وہ ہوگا ،ایسا کردیا جائے گاجیسی باتوں کے
علاوہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس بولنے کے لیے اور کچھ نہیں ہے ۔پتہ نہیں یہ
عمرانی حکومت گا،گی ،گے کی آڑ میں کب تک اپنی نا اہلی ،ناتجربہ کاری اور
حکومتی امور کو انجام دینے میں بدترین ناکامی کو چھپاتے رہیں گے۔
عمران خان اور ان کے تمام وزراء کا سارا زور اس بات پر صرف ہو رہا ہے کہ ان
کے موجودہ دور اقتدار میں جو کچھ غلط ہورہا ہے ان سب کا ذمہ دار نواز شریف
اور ان کا خاندان ہے۔
سیدھی سی بات ہے جو اب ملک کے بچے بچے کو سمجھ میں آچکی ہے کہ اقتدار میں
آنے کے بعد سابقہ حکمران کی غلط پالیسیوں یا کرپشن کا تذکرہ اگر ایک لمٹ
میں کیا جائے اور ان کرپٹ حکمرانوں کو سزادلوانے کے ساتھ ان سے لوٹی ہوئی
دولت برآمد کی جائے تو شاید عوام سیاسی سوجھ بوجھ اور حکومتی موشگافیوں سے
نابلد اور اناڑی لوگوں کی حکومت کا ساتھ دینے پرخوش دلی کے ساتھ تیار
ہوجائیں اور اسے اپنی مدت پوری کرنے کا موقع بھی دے دیں۔لیکن عمران خان کی
زیر قیادت قائم ہونے والی پی ٹی آئی کی حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے
،مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے اور مڈل کلا س سفید پوش عوامی طبقہ
کے ریلیف دینے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے جس کا سبب حکومت ـ’’ مختلف
مافیاز‘‘ کو قرار دے کر اپنی جان چھڑانے کی ناکام کوشش کرتی ہوئی نظر آتی
ہے کیونکہ مافیاز کو کنٹرول کرنا بھی حکومت کا ہی کام ہے اور جو وزیراعظم
اپنے خلاف سرگرم عمل مافیاز کو کنٹرول نہیں کرسکتا وہ پورے پاکستان کے
معاملات کو کنٹرول کرنے میں کیسے کامیاب ہوگا۔
ایک اور اہم ترین بات عمران خان کی سوچ کے حوالے سے قابل ذکر ہے کہ وہ غریب
صرف ان لوگوں کو سمجھتے ہیں جو سڑکوں پر سوتے تھے یا پھر بھیک مانگ کر اپنا
گزارہ کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے جتنے بھی فلاحی نوعیت کے
ادارے اور سہولتیں فراہم کیں وہ سب اسی ناچار وبے یارومددگار طبقے کے لیے
کیں لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ ان کے دورحکومت میں انتہائی تیز ی کے ساتھ
بڑھتی ہوئی مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر جو طبقہ ہوا ہے وہ مڈل کلاس عوام
ہے جو نہ تو سڑک پر سوتی ہے اور نہ ہی بھیک مانگنا پسند کرتی ہے بلکہ خود
محنت کرکے ،نوکری کرکے اپنا اور اپنی فیملی کا خرچہ پورا کرنے کا بندوبست
کرتی ہے اور خان صاحب کو اس مڈل کلاس طبقے کی مشکلات کا اندازہ بھی نہیں ہے
کیونکہ ان کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہے ان کے نزدیک پاکستان میں صرف دو طرح کے
لوگ بستے ہیں ایک غریب اور دوسرا امیر۔ لیکن خان صاحب پاکستان میں سب سے
بڑی تعداد میں جو لوگ بستے ہیں ان کا تعلق تنخواہ دار یا دیہاڑی دار طبقے
سے ہے اور جب مہنگائی بڑھتی ہے تو اس طبقے کے لیے اپنا گھر کا خرچہ چلانا
انتہائی مشکل ہوجاتاہے۔ بالکل غریب لوگوں کے لیے تو آپ نے پناہ گاہیں اور
لنگر خانے بنادیے اور امیر لوگوں کو بڑھنے والی مہنگائی سے کوئی فرق نہیں
پڑتالیکن مارا جاتا ہے کم آمدنی والا مڈل کلاس کا انسان۔لہذا اب عمران خان
کو سب سے زیادہ توجہ اس مڈل کلاس طبقے کو مہنگائی سے نجات دلوانے کے لیے
دینی چاہیے جس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ سوئی گیس اور بجلی کے یونٹ
ریٹس میں نمایاں کمی کی جائے اور تنخواہ دار طبقے کی تنخواہ اور پینشن میں
اضافے کے احکامات جاری کیے جائیں۔
عمران خان صاحب کا ایک جملہ جو وہ بار بار کہتے ہیں کہـــ’’ سب سے پہلے آپ
نے گھبرانا نہیں ہے‘‘ وہ زبان زدعام ہے اور عمران خان کے سابقہ ٹریک ریکارڈ
کو دیکھتے ہوئے لوگ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی
مہنگائی کے باوجود ان کی باتوں پر بھروسے اور ان کی ذات سے محبت کی وجہ سے
گھبرائے نہیں بلکہ انہوں نے یہ ہی سوچا کہ چلو خان ابھی نیا آیا ہے کچھ
ٹائم تو اسے دینا ہی چاہیئے لہذا عوام کی جانب سے ان کے بڑے بڑے دعووں اور
وعدوں کو پورا کرنے کے لیے بھرپور وقت دیا گیا اور اپوزیشن جماعتوں کی
بھرپور مخالفانہ تنقید کے باوجود عمران خان کے حامیوں نے اپوزیشن کی باتو ں
پر توجہ نہ دی اور اپنے پسندیدہ لیڈر عمران خان کا ہر محاظ پر یہ کہہ کر
دفاع کرتے رہے کہ جواب نواز اور زرداری کی سیاسی جماعتیں کئی بار برسر
اقتدار آکر بھی عوام کی بھلائی کا کوئی کام نہ کرپائیں اور کرپشن ہی کرتی
رہیں تو عمران خان تو پہلی بار وزیراعظم بنا ہے لہذا اس کو تھوڑا وقت دیں
سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔شدید ترین مہنگائی اور نت نئے قوانین کے باوجود عوام
عمران خان سے امید لگائے رہے کہ بس اب چند ماہ کے اندر عمران خان مہنگائی
ختم کرکے مڈل کلاس طبقے کو مالی مشکلات سے نکال دے گا لیکن افسوس آج عمران
خان کے دو راقتدار کو ڈھائی سال ہونے کے بعد بھی خان صاحب اور ان کے وزرا
دعوں اور وعدوں سے ہی کام چلا رہے ہیں اور بطور وزیراعظم عمران خان آج بھی
جب قوم سے کہتے ہیں کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے تو اب لوگوں کی آنکھوں میں
امید کی بجائے مایوسی اور ناامیدی کی جو لہر دکھائی دیتی ہے و ہ نہ صرف
عمرن خان کے اپنے سابقہ ٹریک ریکارڈ کو مجروح کرتی ہے بلکہ اس طرح عوام یہ
سوچنے لگتی ہے کہ نواز شریف اور زرداری کی کرپشن اورعوام دشمن اقدامات سے
نجات حاصل کرنے کے لیے انہو ں نے متبادل سیاسی رہنما کے طور پر عمران خان
کو منتخب کرے شاید ایک بار پھر دھوکہ کھاتے ہوئے بڑی غلطی کی ہے اور اس بار
تو مہنگائی اتنی زیادہ بڑھادی گئی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی
حکمران کے دور حکومت میں اشیائے ضرورت،اور سوئی گیس و بجلی کے نرخ اتنے
زیادہ نہیں بڑھا ئے گئے جتنے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے بڑھا دیے
ہیں۔
پتہ نہیں وہ کیا مجبوریاں اور مصلحت ہے جن کی بناء پر عمران خان پاکستان کے
پرائم منسٹر بننے کے ڈھائی سال بعد بھی تمام مافیاز کے سامنے بے بس نظرآتے
ہیں اور نہ جانے ایسی کیا وجوہات ہیں کہ عمران خان کو اپنے قول وفعل میں
بڑھتے ہوئے تضادکا احساس تک نہیں ہورہا اور وہ اقتدار میں آنے سے پہلے جو
باتیں کیا کرتے تھے اب ان باتو ں اور وعدوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے پے
درپے ’’ یو ٹرن‘’ لیتے ہوئے نظرآتے ہیں اور یو ٹرن کے بعد یہ بھی کہتے ہیں
کہ جو یو ٹرن نہ لے وہ بڑا لیڈر نہیں ہوتااور ان سب باتوں کے علاوہ وہ
پاکستان کو ’’ ریاست مدینہ ‘‘ جیسی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی باتیں بھی
کرتے رہتے ہیں اور یہ سچ ہے کہ ا س حوالے سے انہوں نے چند مثبت اقدامات
کیئے بھی ہیں اور چند دور رس منصوبوں پر کام کا آغاز بھی کردیا ہے لیکن کیا
ریاست مدینہ میں بدنام زمانہ مفتی عبدالقوی جیسے لوگوں کو اپنے ساتھیوں میں
شامل کیا جاسکتا تھا اور کیا ریاست مدینہ کے ایوانوں میں حریم شاہ جیسی فحش
لڑکیا ں دن اور رات کے اوقات میں اپنے جلوے بکھیرتے ہوئے ٹک ٹاک کے لیے
ویڈیوز بنواسکتی تھیںْ
وزیراعظم عمران خان صاحب آپ جلد از جلد مفاد پرست چمچوں اور دوستوں کے حصار
سے باہر نکلیں جو آپ کو ملک اور قوم کی حقیقی صورتحال سے بے خبر رکھنے کے
لیے آپ کی پرکشش شخصیت اور اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے کے اسٹائل پر واہ واہ
کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔آپ اپنے مخلص ساتھیوں کو اپنے قریب لائیں کہ یہ
سرمایہ دار ٹائپ مفاد پرست دوست اور سیاست دان اپنے ذاتی مفاد کے لیے آپ کی
شہرت ،عزت اور وقار کو مٹی میں ملا دیں گے اور آپ کو ان کے اصل چہرے اس وقت
دکھائی دیں گے جب آپ اقتدار میں نہیں ہوں گے لہذا اپنے ایک سچے حامی اور
خیر خواہ کے مشورے کو مان کر اب فوری طورپر صرف مہنگائی کو ختم کرنے اور
سوئی گیس و بجلی کی قیمتوں میں کمی کرنے پر توجہ دیں نہیں تو یاد رکھیں کہ
اگر عوا م کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو وہ گھبرا جائیں گے اور جب عوام
گھبراتی ہے تو انقلاب آیا کرتے ہیں لہذا اب اپنا ایک نکاتی ایجنڈہ بنائیں
اور عوام کو سستی چیزیں ،سستی گیس اورسستی بجلی دینے کے لیے ہنگامی طور پر
متحرک ہوجائیں۔اﷲ تعالیٰ آپ کوقائداعظم اور ذوالفقار علی بھٹو جیسا عظیم
حکمران بنائے جن کو لوگ آج تک نہیں بھولے کیونکہ انہوں نے اپنے ذاتی مفاد
کے لیے نہیں بلکہ صرف عوامی مفاد کے لیے کام کیے اور تاریخ کے صفحات میں
ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے ۔
تحریر: فرید اشرف غازی۔کراچی
06-02-2012
|