عمران خان نے اپنی نااہلی اور بے تدبیری کے باعث قومی
خزانے کا اربوں روپے کا نقصان کر کے اپنے بلندوبانگ دعووں اور ملکی معیشت
کا جنازہ نکال دیاہے۔ پاکستانی قوم بہت بھولی بھالی ہے یہ سیاست دانوں اور
اقتدار پرست جرنیلوں کے ہاتھوں کئی مرتبہ دھوکہ کھا چکی ہے۔ سیاستدانوں نے
اپنی بداعمالیوں سے سیاست کے شعبے جبکہ جرنیلوں نے فوج کے مقدس ادارے کے
تقدس کو بار بار مجروح کیا ہے دونوں شعبے اپنی اہمیت کے اعتبار سے عوامی
اعتماد کے متقاضی ہوتے ہیں جس میں اب بہت خلیج پیدا ہوچکی ہے۔ مزید بدقسمتی
یہ ہے کہ اپنے اپنے جرائم پر کسی کو کوئی شرمساری بھی نہیں ہوتی ہے۔ ابھی
ڈھائی سال پہلے تک ملک ماضی کے کئی ادوار کی طرح ایک بہت بڑے انقلاب کے
دروازے پر کھڑا تھا۔ دور حاضر کے انقلابی عمران خان صاحب نے گلیمر سے
بھرپور ایسے خواب قوم کو دکھائے تھے جن کا عکس عموما فلموں میں دکھائی دیتا
ہے۔ لگتا ہے عمران خان کی فلم بھی کسی بہت ہی قابل لکھاری اور ہدایت کار کی
فن کاری کا کمال تھا جس سے عوام مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اس فلم میں
سادگی، کفایت شعاری، ایمانداری، گڈ گورننس، شفافیت، ریلیف، روزگار،
کاروبار، خوشحالی، تحفظ اور نجانے کیا کیا دیکھنے سننے کو ملا۔ فلم کی خاص
بات یہ تھی کہ ہیرو صاحب ملک لوٹنے والے چوروں کے خفیہ خزانوں سے پیسے
نکلوا کر ملکی خزانہ بھرتے دکھائی دے رہے تھے۔ ایسی خوبصورت عکسبندی،لفاظی،
چور چور کا شور اور لوٹی ہوئی ملکی دولت سے خزانہ بھرنے کی باتیں سن سن کر
پاکستان کے عوام خصوصی طور پر نئی نسل نے اس فلم کے ہیرو کو حقیقت میں اپنا
ہیرو سمجھ لیا تھا،اس لئے بڑے جذبے سے اپنے ہیرو عمران خان کا ساتھ دیا۔
عوام کے جذبات سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ دولت ملکی خزانے کی بجائے عوام کے
اکاونٹس میں منتقل ہونے والی ہو۔
ہمیں نواز شریف کی سیاست سے کبھی اتفاق نہیں رہا بلکہ ان کے دور اقتدار میں
ہم معتوب لوگوں کی لسٹ میں شمار کیے جاتے رہے ہیں۔ ہم عمران خان سے بھی
کبھی پر امید نہیں رہے۔ ہمارے نزدیک عمر کا بہترین حصہ کرکٹ کی نظر کردینے
کے باعث سیاسی امور اور سیاسی مینیجمنٹ سے کلی طور پر ناواقف ہونے کی وجہ
سے ان سے کسی کارنامے کی امید رکھنا کسی فلم کو حقیقت سمجھنے کے مترادف
تھا۔ ہمارے بعض دوست انہیں قائداعظم رح جیسی بڑی شخصیت بنا کرپیش کرتے تھے
جبکہ ہم انہیں اس میدان کا مرد بیکار سمجھتے تھے۔ عمران خان صاحب کے ڈھائی
سالہ اقتدار کی مسافت نے ہمارا خیال نا جھٹلا کر ہماری دانش کو داغ نہیں
لگنے دیا حالانکہ ہماری ان سے کوئی دوستی یا رشتہ داری نہیں ہے۔ حالیہ
خبروں کے مطابق مبینہ طور پر اربوں روپے خزانے میں لانے والے ایون فیلڈ کیس
میں سات ارب روپے ہرجانے کی صورت میں سیدھے سیدھے ملکی خزانے سے نکل کر غیر
ملکی کمپنی کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوگئے اس اچھل کود پر باقی اخراجات بھی
اربوں میں ہو سکتے ہیں۔ ایون فیلڈ کیس میں ملکی خزانے کو لگنے والے ٹیکے نے
نواز شریف اور عمران خان میں ایک یکسانیت تو پیدا کردی ہے کہ نواز شریف
اپنی بچت کے لئے عربوں کی دستاویزات پیش کرتے رہے ہیں اور عمران خان نے اس
کیس میں اربوں ڈبو دئیے۔ دونوں میں فرق صرف عین اور الف کا ہے اتفاق سے
انکی سیاست میں بھی کچھ ایسا ہی فرق دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں دکھ ہے کہ ڈھائی
سال کی مشقت سے کھڑے کئے گئے خوشحالی کے پہاڑ سے اربوں روپے نقصان کا چوہا
برآمد ہوا ہے۔ اس نتیجے کے بعد عوام کا ایک جائز مطالبہ تو بنتا ہے کہ یہ
نقصان خان صاحب اور انکی ٹیم پورا کرے کیونکہ کرپشن کرنے والوں اور کرپشن
تلاش کرنے والوں کے نقصانات کا ٹھیکہ قوم نے نہیں اٹھا رکھا ہے۔ عام لوگ تو
پہلے ہی بہت ستم رسیدہ ہیں، مہنگائی نے عام لوگوں کا خون خشک کیا ہوا ہے۔
برے معاشی حالات کی وجہ سے عوام بری طرح پس رہے ہیں لیکن حکمرانوں کی تو
عوام کے خرچے پر پانچوں گھی میں ہی ہیں۔ ہمارے زیر بحث دونوں شخصیات روٹ
لیول کی سیاست سے ابھر کر قومی سیاست میں نہیں آئیں۔ نواز شریف صاحب نا
تجربہ کار ہونے کے باوجود جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈائریکٹ صوبائی وزیر
بھرتی ہوئے جبکہ سیاست کی ابجد سے بھی واقفیت نا رکھنے والے عمران خان کو
نادیدہ قوتوں نے سیاست میں دھکیل کر ایک نئی پارٹی کا چئیرمین بنا دیا۔ روٹ
لیول کی سیاست کی بھٹیوں سے کندن بن کر ابھرنے والے تجربہ کار سیاسی
کارکنوں سے ملکی سیاست یکسر محروم ہے زیادہ تر سیاسی لیڈرز سونے کا چمچ لے
کر سیاست میں وارد ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان انوکھا ملک ہے جہاں
ہمارے سول و فوجی شہزادے کھیلن کو چاند مانگنے کے مترادف اقتدار کی کرسی
مانگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مصنوعی اور جبری قیادت سے ملک و قوم کی جان کب
چھوٹے گی؟ ملک اور قوم مزید کسی ڈرامے اور نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے
لہذا عوام کو اب سنجیدگی سے اس پہلو پر غور کرنا چاہئے #
|