بھارت کی عدالتیں، میڈیا اور انتظامی ادارے مسلمانوں کے
خلاف فریق بن کر اپنا جانبدارانہ کردار ادا کررہے ہیں۔بھارت کے ایک کثیر
الاشاعت انگریزی اخبار ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی
کردار کشی اور متعصبانہ مہم جوئی کے 14سال بعد یونیورسٹی سے معاف مانگ لی۔
اخبار نے 2007کو اپنی رپورٹ میں بے بنیاد الزام تراشی کی کہ علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی ڈگریاں ٹافیوں کی طرح تقسیم کر رہی ہے۔ اس پر یونیورسٹی کے ہی
ایک طالب علم نے نئی دہلی کی عدالت میں اخبار کے خلاف ہتک عزت کی درخواست
دی۔اس پر اخبار کو معافی مانگنی پڑی۔ بابری مسجد کے یک طرفہ اور غیر
منصفانہ فیصلے نے بھی بھارتی سپریم کورٹ کی قلعی کھول دی ہے۔ شہید محمد
مقبول بٹ کے زیر حراست عدالتی قتل کے بعد محمد افضل گورو کادنیا میں شاید
یہ دوسرا عدالتی قتل ہے جس میں انصاف کے بجائے عوام کی تسکین کے لئے فیصلہ
صادر کیا گیا۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے فیصلے میں اجتماعی ضمیر کی تسکین
"satisfying the collective conscience"کو جواز بنا کر سب کو حیران کر
دیا۔دنیا میں آج تک کہیں بھی انصاف کے بجائے عوام کی خواہشات کو ٹھوس شواہد
اور دلائل کا متبادل نہیں سمجھا گیا۔ انسانی حقوق کے عالم ادارے چیختے رہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ ٹرائل شفاف نہ تھا۔ عدالت میں دفاع کرنے کے
لئے اپنی مرضی کا وکیل یا قانونی چارہ جوئی کا موقع نہیں دیا گیا۔ ٹرائل کے
مرحلہ پر کسی تجربہ کار وکیل مقرر کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ خدشات کا
ازالہ نہ کیا گیا۔بھارت نے بین الاقوامی سٹنڈرڈز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
افضل گورو شہید کے اہل خانہ کو بھی آگاہ نہ کیا اور ان کی جسد خاکی کو
اسلامی طریقے سے سپردخاک کرنے بھی نہیں دیا گیا۔ لاش کو عالمی قوانین کی
پامالی کرتے ہوئے جیل میں ہی گھڑا کھود کراس میں ڈال دیا گیا۔
دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی جے این یومیں افضل گورو کی پھانسی کے بعد
جو مظاہرے ہوئے ان سے بھارت جیسے ہل گیا۔طالب علم رہنما کنہیا کمار کو جیل
جانا پڑا۔ کیوں کہ انھوں نے اور ان کے دیگر دوستوں نے کشمیر کی آزادی کی
حمایت کی۔افضل گورو کے عدالتی قتل کے خلاف نعرے لگائے۔ یہ مارچ 2016کی بات
ہے جب دہلی ہائی کورٹ کے بینچ نے جسٹس پرتبھا رانی کی سربراہی میں جے این
یو سٹوڈنٹس یونین کے سربراہ کنہیا کمار کو 23روزہ قید کے بعدضمانت پر رہا
کیا۔ فیصلے کے شروع میں فلمی گانے کے شعر نقل کئے گئے
میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے
اگلے ہیرے موتی ،میرے دیش کی دھرتی
برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں تیزی سے پھیلتی تحریک نے دنیا کو
جھنجھوڑ دیا۔ بھارتی حکمران اس کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ وزیراعظم
پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر برہان وانی کی
شہید کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دنیا کو مسلہ کشمیر میں بھارتی ہٹ دھرمی
سے دنیا کو آگاہ کیا۔ آج برہان وانی کا نام کشمیر کے بچے بچے کی زبان پر
ہے۔ ہر کوئی برہان وانی کے مشن پر چلنے کے لئے بے چین ہے۔
فروری کا مہینہ شہید محمد مقبول بٹ اورمحمدافضل گورو کا ماہ شہادت
ہے۔9فروری 2013کو محمد افضل گورو اور11فروری 1984کو محمد مقبول بٹ کوبدنام
زمانہ تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی۔محمد افضل گورو پر 2001کو دہلی پارلیمنٹ
پر حملے کا الزام تھا۔ ملزم کو مجرم ثابت کرنے میں ناکامی کے باوجودافضل
گورو کو پھانسی دی گئی۔ شہید گورو نے پھانسی سے قبل بھارت سے کہا کہ وہ اسے
پھانسی دیدے، مگر یہ اس کے جوڈیشل اور سیاسی سسٹم پر سیاہ دھبہ بن جائے گا۔
ماہرین قانون اور بین الاقوامی اداروں نے بھی اسے عدالتی قتل قرار دیا۔
کیوں کہ ملزم کو اپنا دفاع کرنے کا موقع نہ دیا گیا۔ انصاف کے تقاضے بھی
پورے نہ کئے گئے۔ بلکہ یہ نامکمل رکھے گئے۔یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کے
عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل تک نے اس قتل کی مذمت کی۔
جیل کے مینول کے مطابق پھانسی سے قبل افضل گورو کے اہل خانہ کو اطلاع دینی
ضروری تھی۔مگراطلاع نہیں دی گئی۔ سارا کام جلد بازی میں ہوا۔ جبکہ ان کے
جسد خاکی کوجیل میں ہی قید کر دیا گیا۔ تین سال بعد شہید کے اکلوتے بیٹے
غالب گورو نے میٹرک کے امتحانات میں ٹاپ کیا اور95فیصد نمبرات حاصل کئے۔
تمام پانچ مضامین میں اے ون گریڈ سکور کی۔ ایک شہید کے بیٹے نے اپنے والد
کی تربیت کا حق ادا کیا۔ دوآب گاہ سوپور کی زرخیز زمین نے افضل گورو جیسے
بیٹے کو جنم دے کر ایک اعزاز حاصل کیا ہے۔ جسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔
بھارتی انصاف جانبدار ی اور نسلی امتیاز کی نئی مثالیں پیش کر رہا ہے۔
انصاف مسلمان اور کشمیری کیلئے نہیں۔ہندو کے لئے ایک انصاف ہے اور مسلم کے
لئے دوسرا۔ مسلمان بھی اور کشمیری بھی تو پھر انداز بالکل بدل جاتا ہے۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے یہ بات ثابت کر دی ۔اس نے کشمیریوں کو سیاست،
انتقام اور نام نہاد عوام کے ضمیر کی تسکین کے لئے تختہ دار پر لٹکا
دیا۔اسے قانون و انصاف کی زبان میں ناروا امتیازی سلوک ہی کہا جا سکتا
ہے۔مقبول بٹ شہید اور افضل گورو شہید جیسے آزادی پسند دو انقلابی کشمیریوں
کو بھارت نے جیل کے اندر ہی پھانسی دے دی اور افضل گورو شہید کی پھانسی کے
ایک سال بعد سپریم کورٹ آف انڈیا نے سابق بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے
قاتلوں کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا۔ ان میں سے تین کا تعلق
بھارتی ریاست تامل ناڈو سے تھا۔ جس کی وزیر اعلیٰ جے للتا تھیں۔ جو اب
انتقال کرچکی ہیں۔یہ بھی ایک منفرد بات ہے کہ تامل ناڈو کی حکومت نے بھی
مرکزی حکومت سے سفارش کی تھی کہ انہیں رہا کر دیا جائے۔
گپکار گروپ قائم کرنے والے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداﷲ نے
مقبول بٹ شہید کو پھانسی دینے کے کاغذات پر دستخط کئے ۔ یہ دستخط بھارتی
وزارت داخلہ کے ایک افسر نے وزیر اعلیٰ کے دفتر میں داخل ہونے کے چند منٹ
کے اندر کرائے۔ یہی ان کے فرزند عمر عبداﷲ نے بھی کیا۔ انہوں نے اپنے شہری
کے تحفظ کے لئے کچھ نہ کیا۔ فاروق عبداﷲ بھارت کے مرکزی وزیر بھی تھے ، مگر
مچھ کے آنسو بہا تے رہے۔مفتی سعید اورمحبوبہ مفتی کا بھی ایسا ہی کردار
رہا۔ کشمیری عوام کو بے وقوف بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں
دیا۔پولیس ٹاسک فورس بنانے والے بھی یہی لوگ تھے۔
کشمیر میں لوگ اس وجہ سے سراپا احتجاج ہیں کہ انصاف کا دوہرا معیار ہے۔
کشمیری کو پھانسی اور بھارتی شہری کو بری کر کے بھارتی عدلیہ بے نقاب ہوئی
ہے۔ ہندو اور غیر ہندو کے لئے دو الگ الگ ضابطے ہیں۔ بابری مسجد کی جگہ رام
مندر تعمیر کرنے کے فیصلے نے بھی یہ ثابت کیا کہ بھارت انصاف نہیں بلکہ
عوام کی تسکین کے لئے فیصلے کرتا ہے۔ اس کا عدالتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار
ہو چکا ہے۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایک کشمیری کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔ جن افراد کی
رحم کی درخواستیں بھارتی صدر کے دفتر میں دہائیوں سے زیر التوا تھیں، انہیں
بری کرنے کے لئے تامل ناڈو حکومت کوشش کر رہی تھی۔ اور بظاہر مرکز کے ساتھ
ٹکر بھی لینے کو تیار تھی۔ 11سال سے راجیو گاندھی کے قاتل پھانسی کے منتظر
تھے۔ لیکن سپریم کورٹ نے ایک نیا فیصلہ دے کر ان کی پھانسی کو عمر قید میں
بدلنے کا ایک راستہ نکالا۔ اگر افضل گورو کو بھی جلد بازی میں عدالتی قتل
نہ کیا جاتا تو وہ بھی نئے قانون کے دائرے میں آ کر رہائی پا سکتے تھے۔ موت
کا وقت متعین ہے۔ موت خود بری الزمہ ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا ایک جواز موجود
رہتا ہے۔ علالت، حادثہ وغیرہ ہی مورد الزام ٹھہرتے ہیں۔ تا ہم جو سلوک
کشمیریوں کے ساتھ روا رکھا گیا ہے اس پر لوگ احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر
چہ ان کا یہ احتجاج بظاہر رنگ نہیں لاتا ۔ پھر بھی لوگ سڑکوں پر نکل کر
اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ سننے والا کوئی نہیں ہے۔ کشمیر میں سخت ردعمل
ہے۔اب کشمیری معصوموں کو فرضی مقابلوں میں قتل کر کے ان کی لاشیں ورثاء کے
سپرد کرنے کے بجائے دور دراز بیابانوں میں دفن کی جا رہی ہیں۔ شہداء کے
نماز جنازہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شامل ہوکر بھارت سے نفرت کا اظہار
کررہے تھے۔ اب بھارت لاشوں سے بھی خوفزدہ ہے۔
جس قانون کے تحت راجیو گاندھی کے قاتلوں کو رہا کیا گیا، وہ قانون بنانے
میں ایک سال کی تاخیر کی گئی۔ اس تاخیر کا زمہ دار بھی بھارتی نظام ہے۔ جس
میں آج بھی چھوت چھات موجودہے۔ اب اچھوت کشمیری اور آزادی پسند ہے۔ اس
معاملہ میں سات سال کی تاخیر کی گئی ۔ لیکن پھر جلد بازی اتنی ہوئی کہ افضل
گورو کے کم سن بچے اور اہلیہ تک کو بھی آگاہ نہ کیا گیا۔ یہ ثابت ہوا کہ
قاتلوں سے عدالت نے نرمی کی۔ قتل کے شواہد کے باوجود پھانسی روک دی گئی۔
لیکن بھارتی پارلیمنٹ پر نام نہاد حملہ کیس میں جس کشمیری کے بارے میں کوئی
ٹھوس شواہد بھی نہ تھے، کیس مشکوک تھا، لیکن پھانسی دیدی گئی۔ افضل گورو کی
پھانسی اور راجیو گاندھی کے قاتلوں کی سزائے موت کو عمر قید میں بدلنا خود
ظاہر کرتا ہے کہ کشمیری بھارت کے اپنے ہر گز نہیں، غیر ہیں۔ دشمن ہیں۔ ایل
ٹی ٹی ای اور کشمیری مجاہدین میں غیر معمولی فرق ہے۔ مسلم اور غیر مسلم کا
فرق۔ یہی بھارت اور اس کے تمام نام نہاد اداروں نے مسلسل ثابت کیا ہے۔
افضل گورو شہیدکے بعد برہان وانی بھی کشمیر کی تحریک آزادی میں جدو جہد کی
ایک علامت بن چکے ہیں۔ شہید مقبول بٹ کی طرح وہ بھی آزادی پسندوں کے ہیرو
ہیں۔ جن کی جدوجہد اور قربانی کو سبھی سلام پیش کرتے ہیں۔ ان کے نقش قدم پر
چلنے کاا عادہ کیا جاتا ہے۔ شہید محمد مقبول بٹ اورشہید افضل گورونے تختہ
دار پر چڑھ کر بھارتی عدلیہ کو بے نقاب کیا اور شہید برہان وانی، شہید ریاض
احمد نائیکو نے مسلح جدوجہد کو گوریلا جنگ سے نکا ل کر عوامی رنگ دے دیا
اور کشمیریوں کی دلیری اور بہادری کی داستانوں میں ایک سچی کہانی کا اضافہ
کر دیا۔ اﷲ تعالیٰ ان کی شہادت قبول فرمائے۔
|